سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت عالم انسانیت کی صبح نو

مفتی شاھد رضا الازھری
9085275727 ادارہ شرعیہ فیضان مصطفے گوہاٹی
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبول عام طریقہ خوشی و مسرت کا اعلانیہ اظہار ہے۔ میلاد مصطفی ﷺ سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جس کے لئے خود رب کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے
ربیع الاول وہ عظیم مہینہ تھا دوشنبہ کا دن تھا اور صبح صادق کی ضیاء بار سہانی گھڑی تھی رات کی بھیانک سیاہی چھٹ رہی تھی اور دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا جب مکہ کے سردار حضرت عبد المطلب کی بیوہ بہو کے حسرت ویاس کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے سادہ مکان میں ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا ایسا مولود مسعود پیدا ہوا جس کے من موہنے صورت نے صرف اپنی غمزدہ افسردہ ماں کو ہی سچی خوشیوں سے مسرور نہیں کیا بلکہ ہر درد وتکلیف کے مارے کے لبوں پر مسکراہٹیں کھلنے لگیں اس نورانی پیکر جمیل کے جلوہ فرمانے سے صرف حضرت عبد اللہ کا کلبہ احزان جگمگا نے نہیں لگا بکلہ دنیا میں کہیں بھی مایوسیوں اور حرما نصیبوں نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے وہاں امید کی کرنین پھوٹنے لگیں اور ٹوٹے دلوں کو بہلانے لگیں صرف جزیرة العربکا سوياہوا مقدر بیدار نہیں ہوا بلکہ ساری انسانیت جو مدتوں سے ہوا و ہوس کی اہنی قید میں جکڑی ہوئی تھی اور ظلم وستم کے شکنجوں میں کسی ہوئی تھی اس کو ہر قسم کی ذہنی معاشی اور سیاسی غلامی سے رہائی کا مژدہ جاں فزا ملا فقط مکہ.و حجازکے خدا فراموش باشندے ،خداشناس اور خود شناس نہیں بنے بلکہ عرب وعجم کے ہرمکیں کے لئے میخانہ رشد ھدایت کے دروازے کھول دیئے گئے اور سارے نوع انسانی کو دعوت دی گئی کہ جس کا جتنا جی چاہے آگے آئےء اور اس مئے طہور سے جتنے جام نوش جاں کرنے کا ہمت رکھتا ہے اٹھائے اور اہنے لبوں سے لگائے طیور خوش نواز مزمہ سنج ہوئے کہ خزاں کی چیرہ دستیو ں سے تباہ حال گلشن انسانیت کو سرمدی بہاروں سے اشنا کرنے والا آ گیا
امام الانبیاء خاتم الرسل حبیب رحمن ، فخر موجودات، محبوب رب العالمین باعث تخلیق کائنات حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت سوموار کے روز بارہ ربیع الاول شریف کو ہوئی۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ. جس رات سرکار دوعالم نور مجسمﷺکی ولادت با سعادت ہوئی میں نے ایک نور دیکھا جس کی روشنی سے شام کے محلات جگمگا اٹھے یہاں تک کہ میں اسے دیکھ رہی تھی دوسری روایت میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے ایک نورنکلا جس سارےگھر بقعہ نوربن گیا ہر طرف نور ہی نور نظراتا تھا حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ الشفاء جس کی قسمت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ بننے کی سعادت رقم تھی وہ بیان فر.ماتی ہیں کہ جب سیدہ طیبہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے اپنے دو ہاتھوں پر سہارا دیا میں نے ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی تیرا رب تجھ پر رحم فرمائے حضرت شفاہ کہتی یے اس نور مجسم کے ظاہر ہونےسے میرے سامنے مشرق و مغرب میں روشنی پھیل گئی یہاں تک کہ میں نے شام کے بعض محلات کو دیکھا سیدہ طیبہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو آپ زمین پر گٹھنوں کےبل بیٹھے ہوئے تھےب اور آسمان کہ طرف دیکھ رہے تھے آپ کی ناف پہلے سے کٹی ہوئی تھی
حضرت عبد المطلب فرماتے ہیں کہ میں اس رات کعبہ میں تھا میں بتوں کو دیکھا سب اپنی اپنی جگہ سے سر بسجود سر کے بل گر ہڑے ہیں اور دیوار کعبہ سے یہ آواز آرہی ہے مصطفے مختار صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوا اس کے ہاتھ کفار ہلاک ہونگے اور کعبہ بت کی عبادت سے پاک ہوگا اور وہ اللہ کی عبادت کا حکم دے گا جو حقیقی بادشاہ سب کچھ جاننے والا ہے
آپ .تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے پوری کائنات میں شرک و کفر، باطل و ضلالت اور ظلمت و گمرہی کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور چہار دانگ عالم میں نور مبین کا اجالا پھیل گیا کائنات کے وہی ادوار تھےجب جہالت شباب پر تھی، عدل وانصاف ختم وناپید ہوچکا تھا۔ انس و پیار اور محبت مودت نام کی کوئی چیز باقی نہ تھی۔ بقول شاعر
جہاں تاریک تھا، ظلمت کدہ تھاسخت کالاتھا کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
عرش و فرش پر خوشیوں کا اظہار
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ترجمہ: کنزالایمان تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے
صاحب : ‎صراط الجنان لکھتے ہیں کہ {قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا:تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔} کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کو ’’فَرح ‘‘کہتے ہیں ،اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان والوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں نصیحتیں ، سینوں کی شفاء اور ایمان کے ساتھ دل کی راحت و سکون عطا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے؟
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے قرآن اور رحمت سے اَ حادیث مراد ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۳۲۰)
بعض علماء نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت قرآنِ کریم۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(نساء ۱۱۳)
ترجمۂ: اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔
بعض نے فرمایا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل قرآن ہے اور رحمت حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۷)
ترجمۂ: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔اور اگر بالفرض اِس آیت میں متعین طور پر فضل و رحمت سے مراد سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مبارکہ نہ بھی ہو تو جداگانہ طور پر تواللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یقینا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل اور رحمت ہیں۔ لہٰذا فنِ تفسیر کے اس اصول پر کہ عمومِ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے ، خصوصِ سبب کا نہیں ، اس کے مطابق ہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ مبارکہ کے حوالے سے خوشی منائی جائے گی خواہ وہ میلاد شریف کرکے ہو یا معراج شریف منانے کے ذریعے، ہاں اگر کسی بدنصیب کیلئے یہ خوشی کامقام ہی نہیں ہے تو اس کا معاملہ جدا ہے، اسے اپنے ایمان کمےعلق سوچنا چاہے
ترجمہ: اللہ تعالی دوسری ایت مبارکہ میں ارشاد فرماتا ہے کہ بےشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ صاحب صراطالجنان{لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ:بیشک اللہ تعالی نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا۔ }عربی میں مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے ۔ پیدائشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ معراج بھی ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قبرِ انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے ، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے ، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے ، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے ،کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے ، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے ، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے ، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ پیشِ حضور اعلیحضرت علیہ الر حمہ. والرضوان فرماتے ہیں کہ
حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے۔
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گےالغرض حضور سید دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔
حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا جو بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں
اے ہمارے رب! اور ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت والاہے۔ صاحب ‎صراط الجنان لکھتے ہیں کہ {رَبَّنَا وَ ابْعَثْ: اے ہمارے رب !اوربھیج۔} حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دُعا سیدِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے تھی۔خانہ کعبہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا کی کہ یارب!عَزَّوَجَلَّ، اپنے حبیب ،نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں بزرگوں کی نسل میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف اوری ہوئی
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ولادت باسعادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو۔ اس روز سورج کو عظیم نور پہنایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی عورتوں کے لئے یہ مقدر کردیا کہ وہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے لڑکے جنیں‘‘۔ ج1، ص80)
اللہ تعالیٰ نے میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پورا سال خوشی کا اظہار فرمایا
علامہ نورالدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی شافعی (متوفی 1044ھ) لکھتے ہیں:
جس سال نور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ودیعت ہوا۔ وہ فتح و نصرت، ترو تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بدحالی، عسرت اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور سوکھے درختوں اور مردہ شاخوں کو ہرابھرا کرکے انہیں پھلوں سے لاد دیا۔ اہل قریش اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر آنے سے خوشحال ہوگئے۔(السيرة الحلبية، ج1، ص72)
میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے کا حکم خداوندی
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبول عام طریقہ خوشی و مسرت کا اعلانیہ اظہار ہے۔ میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جس کے لئے خود رب کائنات نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے)
’’فرمادیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔:(يونس، 10: 58
اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا روئے خطاب اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے کہ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ذریعے پوری امت کو بتادیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہوسکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں۔ جس دن حبیب خداصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت انہیں عطا کی گئی ہے اسے شایان شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصول نعمت کی یہ خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چونکہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی منائو اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔ لہذا آیہ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یوم ولادت رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر منائیں۔
ملخصا االسیرة النبوية
ولادت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں جھنڈے نصب ہوئے
ولادت و میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم انسانیت پر خداوند کریم کا احسان عظیم ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کے موقع پر 1400 سال پہلے بھی جھنڈے نصب فرمائے تھے۔
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کئے گئے۔ ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا کعبے کی چھت پر اور حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوگئی۔(خصائص کبریٰ، ج اول، ص82)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد منایاحضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
ان رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم سئل عن صوم يوم الاثنين فقال فيه ولدت وفيه انزل علی.
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوموار کے دن روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس دن میں پیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی۔صحيح مسلم، کتاب الصيام، رقم الحديث: 2742)
پیر سوموار کا دن
یوم الاثنین ( سوموار یعنی پیر کا دن نہ صرف ولادت و میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مناسبت رکھتا بلکہ سیرت و حیات نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کےساتھ بھی خصوصی نسبت رکھتا ہے۔ ذیل میں سیرت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند واقعات جن کا تعلق سوموار یعنی پیر کے دن سے ہے،ملاحظہ فرمایئے: اعلان نبوتسومار کے دن ،مکہ سے ہجرت سوموار کے دن ،مدینہ میں داخلہ سوموار کے دن، حجر اسود نصب ہوا سوموار کے دن ،مکہ فتح ہوا سوموار جے دن ،سورہ المائدہ کا نزول ہوا پیرسوموار کے دن (المواهب اللدنية)اپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال بھی سوموار کے دن
کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی میلاد کی محفل سجائی؟
یہاں شبہات اور اکا ازالہ ضروری ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کبھی کیا میلاد کی محفل سجائی۔ چنانچہ حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ فرمایئے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلقہ میں آئے اور دریافت فرمایا: تم کس وجہ سے بیٹھے ہو؟ انہوں نے عرض کیا:
عن ابي سعيد الخدري، قال: قال معاوية رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على حلقة يعني من اصحابه، فقال:” ما اجلسكم؟” , قالوا: جلسنا ندعو الله , ونحمده على ما هدانا لدينه ومن علينا بك، قال:” آلله ما اجلسكم إلا ذلك؟”، قالوا: آلله ما اجلسنا إلا ذلك، قال:” اما إني لم استحلفكم تهمة لكم، وإنما اتاني جبريل عليه السلام , فاخبرني ان الله عز وجل يباهي بكم الملائكة”.ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے حلقے کی طرف نکل کر آئے اور فرمایا: ”کیوں بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: ہم بیٹھے ہیں، اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت بخشی اور آپ کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا، آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ۲؎ تم اسی لیے بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: اللہ کی قسم! ہم اسی لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا: ”سنو، میں نے تم سے قسم اس لیے نہیں لی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا، بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں پر تمہاری وجہ سے فخر کرتا ہے“۔تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الدعوات (الذکر والدعاء) 11 (2701)، سنن الترمذی/الدعوات 7 (3379)، ۔
اہل مدینہ نے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد پر بے انتہا خوشی
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے مدینہ منورہ میں ہمارے پاس جو آئے وہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ام مکتوم رضی اللہ عنہما ہیں اور یہ دونوں حضرات لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ پھر حضرت بلال، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم آئے۔ ان کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے جو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیس اصحاب کو ساتھ لائے تھے۔ پھر خود نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔
فما رايت اهل المدينة فرحوا بشئی فرحهم برسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم.
میں نے اہل مدینہ کو اتنی خوشی مناتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا جتنی خوشی انہیں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے ہوئی۔ یہاں تک کہ لونڈیاں بھی کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے۔
(صحيح بخاری، کتاب المناقب، رقم: 1104)
نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد کی خوشی میں حبشی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رقص کیا
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
لما قدم رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم المدينة لعبت الحبشة لقدومه فرحا بذلک لعبوا لبحرابهم.
جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی تو حبشی صحابہ آپﷺ کی آمد کی خوشی میں اپنے نیز لے کر کھیلے۔
(سنن ابودائود، باب الادب، رقم الحديث: 1492)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد کی خوشی میں حبشی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیت گایا
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ حبشی صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رقص کرتے ہوئے یہ گیت گا رہے تھے:محمد عبد صالح
محمدﷺنیک آدمی ہیں
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ کہہ رہے ہیں:محمد عبد صالح محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نیک آدمی ہیں
میلاد منانے کا اجر ضرور ملتا ہے
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریمﷺ کی پیدائش پر خوشی منانا اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ ابولہب جیسے کافرو مشرک کو بھی مرنے کے بعد اس کا اجر ملا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ فرمایئے:
حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ثویبہ پہلے ابولہب کی لونڈی تھی۔ جب ابولہب نے اسے آزاد کردیا تو اس نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا۔ جب ابولہب مرگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی (حضرت عباس رضی اللہ عنہ) نے اسے برے حال میں دیکھا، اس نے (یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابولہب) سے پوچھا کہ (مرنے کے بعد) تمہارے ساتھ کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا کہ تم سے جدا ہوتے ہی سخت عذاب میں پھنس گیا ہوں۔ سوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کے باعث اس میں سے مجھے پانی پلادیا جاتا ہے۔ (یعنی جن دو انگلیوں کے اشارے سے میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا اسی روز یعنی سوموا یعنی پیر کے دن مجھے انہی دو انگلیوں سے پانی سیراب کیاجاتا ہے۔ جس سے میرے عذاب میں کمی ہوجاتی ہے)۔
(صحيح بخاری، کتاب النکاح، ج3، ص69، حديث نمبر92)حافظالشام مجدد وقت شمس الدین محمد بن ناصر الدمشقی نے کیا خوب کہاجب ایک کافر جس کی مذمت میںپوری :سورت تبت یدا: نازل ہوئی اورجوتاابدجہنم میںرہےگا اس کے بارے میں ہے کہ حضور کی ولادت پر اظہار مسرت کی برکت سے ہر سوموار کو اس کے غذاب میںتخفیف کی جاتی ہےتو تمھارا کیا خیال ہےاس بندے کے بارے میں جو زندگی بھر احمد مجتبی کی ولادت باسعادت پر خوشی مناتا رہا اوت کلمہ توحید ہڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوایہ فیصلہ کن مسئلہ ہے کہ جو شخص کفرو شرک کی حالت میں مرے تو اسے مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ سے کسی بھی اچھے کام کا اجرو ثواب نہیں دیا جاتا۔ مگر صرف ایک عمل ایسا ہے جو اگر کافر و مشرک بھی کرے تو اسے بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مرنے کے بعد بھی اجرو ثواب ملتا ہے اور وہ عمل ہے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف اپنا بھتیجا سمجھ کر خوشی منائی، نبی سمجھ کر نہیں۔۔۔۔ مگر پھر بھی اسے اجر ملا۔
ہم آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرتے ہیں وصال کا غم کیوں نہیں؟
ہمارے وہ احباب جنہیں میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن سے تکلیف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 12 ر بیع الاول رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت بھی ہے اور یوم وصال بھی ہے تو جو لوگ اس دن جشن ولادت مناتے ہیں وہ وصال کا غم کیوں نہیں مناتے؟ اس سوال کا جواب حضرت امام جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے خوب صورت انداز میں دیا ہے۔
ان ولادته صلیٰ الله عليه وآله وسلم اعظم النعم )
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہم پر سب سے بڑی نعمت ہے اور آپ ﷺ کی وفات ہم پر سب سے بڑی مصیبت اور شریعت نے نعمت کے ملنے پر شکر ادا کرنے اور مصیبتوں پر صبرو سکون اور (غم) چھپانے کا حکم دیا ہے اور شرع نے ہمیں ولادت پر عقیقہ کا حکم دیا اور وہ شکر کا اظہار ہے اور مولود کی خوشی ہے اور ہمیں موت پر کچھ ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ کچھ اور بلکہ ہمیں نوحہ کرنے اور چلانے سے منع کیا تو شریعت کے قوانین اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس مہینے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا غم کرنے کی بجائے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کو پسند کرے۔ اللہ تعالی نبی کریم کی سیرت سمجھے کی توفیق عطا فرمائے
آسمان خوان ، زمین خوان ، زمانہ مہمان
صاحب ِ خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp