غرور و تکبر کی مذمت قرآن و حدیث کی روشنی
Condemnation of pride and arrogance light of Quran and Hadith
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
آج معاشرے میں تکبر و گھمنڈ کی برائی عام طور پر پائی جا رہی ہے ہر سماج میں یہ ناسور بنتا جا رہا ہے اور اس برائی کی وجہ سے آپسی اتفاق و اتحاد پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ جب کہ یہ بہت ہی نا پسندیدہ و قبیح برائی ہے اس سے بچنا بہت ہی ضروری ہے۔ اسلام نے بڑی تاکید سے غرور و تکبر (گھمنڈ) کی مذمت کی ہے۔
خود باری تعالیٰ کا فرمان ہے:بے شک اللہ تعالیٰ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
اور حضورﷺ نے مختلف انداز میں اس کی قباحتوں و برائییوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور انسانوں کو اس سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، نیز متکبرین (گھمنڈیوں) کے لیے سخت ترین سزائیں بھی بتائی ہیں۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا:اے لوگوں! عاجزی و انکساری اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ: جو رضائے الٰہی کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند فرما دیتا ہے، وہ تو خود اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے گرا دیتا ہے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و رسوا ہوتا ہے،وہ اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ لوگوں کی نگاہوں میں کتے اور سور سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتا ہے۔(مشکوٰۃ شریف)
متکبرین کے لیے بروز قیامت رسوائی:
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کے بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں طینۃ الْخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔(ترمذی، باطنی بیماریوں کی معلومات)
تکبر کے اقسام اور ان کے احکام:
اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تکبر:
تکبر کی یہ قسم کفر ہے جیسے فرعون کا کفر کہ اس نے کہا تھا: ترجمہ کنزالایمان: میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔
فرعون کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت سیدنا ہارون علیہما السلام کو بھیجا مگر اس نے ان دونوں کو جھٹلایا تو رب نے اسے اور اس کی قوم کو دریائے نیل میں غرق کردیا۔(الحدیقۃ الندیۃ)
مفسرین کرام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرعون کو مرے ہوئے بیل کی طرح دریا کے کنارے پر پھینک دیا تاکہ وہ باقی ماندہ بنی اسرائیل اور دیگر لوگوں لیے عبرت کا نشان بن جائے اور ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ جو شخص ظالم ہو اور اللہ کی جناب میں تکبر کرتا ہو اس کی پکڑ اس طرح ہوتی ہے کہ اسے ذلت واہانت کی پستی میں پھینک دیا جاتا ہے۔(الزواجر)
اللہ کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر:
تکبر کی یہ قسم بھی کفر ہے،اس کی صورت یہ ہے کہ تکبر جہالت اور بغض وعداوت کی بنا پر رسول کی پیروی نہ کرنا یعنی خود کو عزت والا اور بلند سمجھ کر یوں تصور کرنا کہ عام لوگوں جیسے ایک انسان کا حکم کیسے مانا جائے، جیسا کہ بعض کفار نے حضورﷺ کے بارے میں حقارت سے کہا تھا: ترجمہ کنزالایمان: کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا۔ اور یہ بھی کہا تھا: ترجمہ کنزالایمان: کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر۔(فرقان،زخرف)
بندوں کے مقابلے میں تکبر:
اللہ عز وجل اور رسول اللہﷺ کے علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تکبر کرنا، وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کر اس پر بڑائی چاہنا اور مساوات یعنی باہم برابری کو ناپسند کرنا۔ یہ صورت اگرچہ پہلی دو صورتوں سے کم تر ہے مگر یہ بھی حرام ہے اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے کیونکہ کبریائی اور عظمت بادشاہ حقیقی ہی کے لائق ہے نہ کہ عاجز اور کمزور بندے کے۔(احیاء العلوم،باطنی بیماریوں کی معلومات)
تکبر کے آٹھ اسباب وعلاج:
تکبر کے اسباب اور ان کا رد عمل بیان کیے جاتے ہیں کیونکہ انسان کے اندر تکبر انہیں وجوہات سے آتا ہے تو ان کا رد عمل کیا ہونا چاہیے ملاحظہ فرمائیں۔
(1) تکبر کا پہلا سبب علم ہے کہ بعض اوقات انسان کثرت علم کی وجہ سے بھی تکبر کی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ معلم الملکوت کے منصب تک پہنچنے والے شیطان کے انجام کو یاد رکھے کہ اس نے تکبر کرتے ہوئے اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے افضل قرار دیا تھا مگر اسے اس تکبر کے نتیجے میں قیامت تک کی ذلت ورسوائی ملی اور وہ جہنم کا حقدار ٹھہراکہیں یہ تکبر ہمیں بھی تباہ وبرباد نہ کردے۔
(2) تکبر کا دوسرا سبب عبادت وریاضت ہے کہ بندہ کثیر عبادت وریاضت کے سبب اس مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے میں اگر بہت زیادہ عبادت کرتا ہوں تو اس میں میرا کیا کمال ہے؟ یہ تو اس رب کا کرم ہے، نیز عبادت تو وہی مفید ہوگی جس میں نیت درست ہو، تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔ بندہ اپنے آپ کو یوں ڈرائے کہ کیا خبر یہ عبادت جس پر میں گھمنڈ کررہا ہوں وہ میرے اس تکبر کے سبب رب کی بارگاہ میں مقبول ہونے کے بجائے مردوو ہو جائے اور جنت میں داخلے کے بجائے جہنم میں داخلے کا سبب بن جائے۔
(3) تکبر کا تیسرا سبب مال ودولت ہے کہ جس کے پاس کار، بنگلہ، بینک بیلنس اور کام کاج کے لیے نوکر چاکر ہوں وہ بھی بسااوقات تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کا یقین رکھے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسے یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے جانا پڑے گا، کفن میں تھیلی ہوتی ہے نہ قبر میں تجوری، پھر قبر کو نیکیوں کا نور روشن کرے گا نہ کہ سونے چاندی اور مال ودولت کی چمک دمک۔ لہٰذا اس فانی اور ساتھ چھوڑ جانے والی شئ کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہو کر اپنے رب کو کیوں ناراض کیا جائے؟
(4) تکبر کا چوتھا سبب حسب ونسب ہےکہ بندہ اپنے آباء واجداد کے بل بوتے پر اکڑتا اور دوسروں کو حقیر جانتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنا یہ ذہن بنائے کہ دوسروں کے کارناموں پر گھمنڈ کرنا عقلمندی نہیں بلکہ جہالت ہے اور آباء واجداد پر فخر کرنے والوں کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ ارشاد فرمایا: اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہیے کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں، یا وہ قومیں اللہ کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہوجائیں گی جو اپنی ناک سے گندگی کو کریدتے ہیں ،اللہ نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرمادیا ہے، اب آدمی متقی ومؤمن ہوگا یا بدبخت وبدکار، سب لوگ حضرت آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔(ترمذی)
(5) تکبر کا پانچواں سبب عہد ہ ومنصب ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنا یہ ذہن بنائے کہ فانی پر فخر نادانی ہے کیونکہ عزت ومنصب کب تک ساتھ دیں گے؟ جس منصب کے بل بوتے پر آج اکڑتے ہیں، کل کو چھن گیا تو انہی لوگوں سے منہ چھپانا پڑے گا جن سے آج تحقیر آمیز سلوک کرتے ہیں۔ آج جن لوگوں پر چیخ چیخ کرکم چلاتے ہیں ہوسکتا ہے کل ان سے ہی کوئی ایسا کام پڑجائے جو ہمارے تکبر کو خاک میں ملا دے۔اس لیے کیسا ہی منصب یا عہدہ مل جائے پر اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہیے۔
(6) تکبر کا چھٹا سبب کامیابی وکامرانی ہےکہ جب کسی کو پے درپے کامیابیاں ملتی ہیں تو وہ ناکام ہونے والے لوگوں کو حقیرسمجھنا شروع کردیتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ نہ بھولے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا، بلندیوں پر پہنچنے والوں کو اکثر واپس پستی میں بھی آنا پڑتا ہے، ہرکمال کو زوال ہے، کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ اسے اپنا کمال تصور کرتے ہوئے دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ بندہ یہ بھی ذہن بنائے کہ جسے میں کامیابی سمجھ رہا ہوں وہ فقط دنیا کی کامیابی ہے جو ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی، اصل کامیابی تو یہ ہے کہ میں اس دنیا سے ایمان سلامت لے جاؤں، دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کروں، اپنے رب عزوجل کو راضی کرلوں۔
(7) تکبر کا ساتواں سبب حسن وجمال ہےکہ بندہ اپنے ظاہری حسن وجمال کے سبب تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ابتداء وانتہاء پر غور کرے کہ میرا آغاز ناپاک نطفہ اور انجام سڑا ہوا مردہ ہونا ہے، نیز عمر کے ہر دور میں حسن یکساں نہیں رہتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی ماند پڑجاتاہے، یہ بھی پیش نظر رکھے کہ میرے اسی حسن وجمال والے بدن سے روزانہ پیشاب، پاخانہ، بدبودار پسینہ، میل کچیل اور دیگر گند نکلتا ہے، میں اپنے ہاتھوں سے پاخانہ وپیشاب صاف کرتا ہوں تو کیا ان چیزوں کے ہوتے ہوئے فقط ظاہری حسن وجمال پر تکبر کرنا زیب دیتا ہے؟ یقیناً نہیں۔
(8) تکبر کا آٹھواں سبب طاقت وقوت ہے کہ جس کا قد کاٹھ اچھا ہو، کھاتا پیتا اور سینہ چوڑا ہو تو وہ بسا اوقات کمزور جسم والے کو حقیر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کا یوں محاسبہ کرے کہ طاقت وقوت اور پھرتی تو جانوروں میں بھی ہوتی ہے بلکہ انسان سے زیادہ ہوتی ہے تو پھر اپنے اندر اور جانوروں میں مشترکہ صفت پر تکبر کرناکیسا؟ حالانکہ ہمارے جسم کی طاقت وقوت کا تو یہ حال ہے کہ تھوڑا سا بیمار ہوجائیں تو طاقت کا سارا نشہ اتر جاتا ہے، معمولی سی گرمی برداشت نہیں ہوتی، اگر خدانخواستہ اس تکبر کی وجہ سے کل بروز قیامت رب ناراض ہوگیا اور جہنم میں شدید آگ کا عذاب دیا گیا تو اسے کیسے برداشت کریں گے؟(احیاء العلوم)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے مولیٰ کریم ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین