سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بچوں پر انعام و اکرام
مفتی شاھد رضا الازھری
ادارہ شرعیہ فیضان مصطفے گوہاٹی
9085275727
جب انسان معاشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرتے تو شاید معاشرہ میں کوئی بھی برائی جنم نہ لیتی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہ صورت ہی کچھ ایسی ہے جوبھی سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوا تو اللہ تعالی نے اسے ھدایت سے سرفراز فرمایا اس کی ایک انوکھی مثال یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ شفقت ورحمت کا معاملہ کا فرما یا توبچوں پر اس حسن سلوک کا اتنا گہرا اثر ہو ا کہ ہر بچہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واخلاق اور ناز وانداز کےگرویدہ ہو گئے پھرلوگ صف در صف بارگاہ قدس میں حاضر ہو کر فیضان اسلام سے سیراب ہونے لگے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و کردار پر کون ہے جو جان نہ دے دیتا وہ تو بیکسوں کس ، بےسہاروں کے سہارا، بے نواؤں کے ہمنوا، یتیموں کے فریاد رس، صلہ رحمی کرنے والے ، سچ بولنے والے صادق الامین ،کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا نے والے، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کی بارگاہ ناز سے پا لیتے ۔مہمان نواز اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرنے والے تھے ،
سرور کائنات احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بے پناہ الفت ومحبت فرمایا کرتےتھے جب بھی رسول اکرم ﷺ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انھیں سلام کیاکرتے ان کےحالات دریافت فرمایا کرتے تھے اگر بچے یہ سوچتے کہ آج ہم پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کریں گے وہ سوچتے ہی رہتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سلام میں سبقت فرماتے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت سیرتوں میں ایک نرالی سیرت ہے
لیکن آج معاشرے میں بڑے لوگ اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ چھوٹے بڑوں کو ، غریب مالدار کو اورمرید پیرغیر سید، سید کو ،غیر شیخ شیخ کو ، غیر خاں خان کو، غیر ملک ملک کو ، مملوک بادشاہ کو سلام و آداب پیش کرےورنہ ان کی خیر نہیں ہے
سیدالانبیاء خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ا فضل اسلام یہ ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا اور سلام.کرنا جسے آپ پہچانتے ہوں یا نہ پہچانتے ہو ں
یہ ہے حقیقت اسلام جس سےہم لوگ بہت دور ہیں ہم.لوگ تو اسلام کے قشرہ و جھلکے پہ عمل کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مکمل اسلام.حاصل کر لیا اور اس پر عمل پیرا ہو گئے
رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ
ا قائےنامدار مدنی تاجدار روحی فداء جناب احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طوربیان فرمادیا کہ اگر اپ کسی پر رحم نھیں کروگے تو آپ پر بھی رحم نھیں کیا جائےگا اج کی تاریخ میں انسان ایک دوسرے پر ظلم مظاہرہ کرتا ہے یہا ں تک کہ بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے کبھی بچوں کے اسکول پر، تو کبھی اس کے ہاسٹل پر، توکبھی اس کی رہائش گاہ پر حملہ کر کے منٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں پھر وہی شخص انسانیت کی باتیں کرتا جو اج سےکچھ دیر قبل یا کچھ دنوں پہلے تک انسان نما درندہ بنا ہوا تھا اج وہ ہیومن رائٹس کی بات کر رہا ہے حالانکہ اسے یہ زیب نھیں دیتا وہ انسانیت کی باتیں کرتا ہے جو خود انسانیت کی صفت سے متصف ہونے کا مستحق بھی نہیں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی لوگ آئے، اور اُنہوں نے پوچھا: (یا رسول اللہ!) کیا آپ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اُنہوں نے کہا: بخدا ہم تو اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں اُس کا مالک تو نہیں ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
اگر کسی کے دل سے اللہ تعالی رحمت نکال دے تو وہ کیونکربچوں کے ساتھ شفقت معاملہ کرسکتا ہے وہ تو شقاوت قلبی کے ساتھ ہی پیش آسکتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آداب زندگی کا اصول سکھائے رھے ہیں کہ بچوں کے ساتھ کیسے پیش انا ہے چاہے کسی بھی مذھب وملت کا بچہ ہوں بچہ تو بچہ ہی ہوتا ہیےیہی بچہ ایک دن علم وادب حاصل کرلیتا ہے وہ معاشرے کے لئے عظیم قائد ورہنما بن جاتا ہے پھر پورے معاشرے کی اصلاح کرتا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنی اولاد پر شفیق نہیں دیکھا، (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ مدینہ کی بالائی بستی میں بغرضِ رضاعت قیام پذیر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے جاتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے اندر تشریف لے جاتے درآں حالیکہ وہاں دھواں ہوتا کیونکہ اُس دایہ کا خاوند لوہار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں گود میں اُٹھاتے، بوسہ دیتے اور پھر لوٹ آتے۔‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں
بچہ سے کیسے محبت کی جاتی ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے دیکھیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم. حضرت ابراھیم کے دیدار کے لئے جاتےحالانکہ وہاں دھواں ہوتا اس کے باوجود وہاں تشریف لے جاتے گود میں اٹھاتے بوسہ لیتے پہر وہاں سے واپس ہوتے معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ا مت کو تعلیم دے رہیں کس طرح بچوں سے محبت کی جاتی ہے
ذیل میں کچھ احادیث تحریر کی جارہی ہیں جسمیں یہ بیان ہے کہ بچوں کا کسقدر خیال رکھا جائےاور کتنے خوبصورت انداز میں ان پر شفقت کا حکم دے رہےی ہیں
اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لے کر (کھانے کے لئے) کچھ مانگنے آئی۔ اُس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا اور کچھ نہ نکلا۔ میں نے وہی کھجور اُسے دے دی۔ اُس نے وہ کھجور اپنی دونوں بیٹیوں میں بانٹ دی (خود اُس میں سے کچھ نہ کھایا)۔ پھر وہ عورت چلی گئی۔ اِس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اِن بیٹیوں کے ذریعے آزمایا جائے اور پھر وہ اِن پر احسان کرے تو وہ اُس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جاتی ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
بیٹیاں کتنی عظیم.ہوتی ہیں اگر بیٹیوں کے ذریعے ازمایا جائے اور وہ اس پر احسان کرے تووہ بیٹی اس کے اور جہنم کے درمیان اڑ بن جاتی ہے بیٹہ ہقینا اللہ کی رحمت ہوتی ہے
’’حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ میں لڑکپن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِکفالت تھا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: برخودار! بسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھائو اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس میں سے کچھ نوش فرمایا اور (وہ پیالہ صحابہ کرام میں تقسیم فرمانے لگے تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا جو اُس وقت موجود لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا اور عمر رسیدہ حضرات بائیں طرف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ (تبرک) عمر رسیدہ لوگوں کو پہلے دے دوں؟ وہ لڑکا عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بچی ہوئی (متبرک) چیز میں کسی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پیالہ اُسی بچے کو پہلے عنایت فرمایا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام نووی نے فرمایا: وہ نوجوان حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما تھے
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اُٹھا لیتے اور اپنی ایک ران پر بٹھا لیا کرتے اور امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنی دوسری ران پر بٹھاتے، پھر دونوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیتے اور دعا فرماتے: اے اللہ! اِن دونوں پر رحم فرما۔ کیونکہ میں بھی اِن پر رحم کرتا ہوں۔‘‘اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نماز پڑھانے کھڑا ہوتا ہوں تو ارادہ کرتا ہوں کہ اُسے طول دوں لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، یہ نا پسند کرتے ہوئے کہ (اس کے رونے سے) اُس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث بنوں۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں، وہ شخص قیامت کے دن آئے گا تو وہ (شخص) اور میں اس طرح ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: اس حدیث کہ سند صحیح ہے
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے ہمارے اور بڑوں کی عزت وتکریم نہ کرے۔‘‘ایک اور روایت میں ہے:’’ وہ ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، امام ابو داود، امام احمد اور امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے ماں اور بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے اور اُس کے پیاروں کو جدا کر دے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور دار قطنی نے روایت کیا ہے، امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے پاس تشریف لے جاتے، اُن کے بچوں کو سلام کرتے، اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے اور اُن کے لئے دعا فرماتے۔
حضرت اُم قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بچے کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوا کر اُس پر چھڑک دیا اور اُسے نہ دھویا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (نو مولود) بچے لائے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں برکت کی دعا دیتے چنانچہ ایک بچہ لایا گیا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوا کر اُس پر بہا دیا اور اُسے نہ دھویا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔۔‘‘
یہ حدیث ‘بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تو دیکھیں بچہ پیشاب کر ریا کچھ لوگ منع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کونین کے داتا کہہ رہے ہجں اسے چھوڑ دو ڈراؤ مت جب بچہ پیشاب کر لیتا ہے تو پانی منگوا کر بہا دیتے ہیں یہ شفقت و کرم عنایت و مہربانی یہ ایک نبی ہی سیرت میں ہوسکتی ہے کسی اور کی نھیں ہوسکتی ہے
اِس حدیث کو امام نسائی، ابن حبان، ابو نعیم اور بغوی نے روایت کیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر تھا کہ اُس شخص کا بیٹا اُس کے پاس آیا، اُس شخص نے اُسے چوما اور اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اُس کی بیٹی آئی تو اُس نے اُسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اِن دونوں کے درمیان عدل نہیں کرتے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دس سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ کسی کام کرنے میں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا، اور نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے
حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے غریب خانے میں جلوہ افروز ہوئے اور میں اُس وقت بچہ تھا۔ میں باہر کھیلنے کے لئے جانے لگا تو میری والدہ محترمہ نے مجھے کہا: اے عبد اللہ! ادھر آؤ تاکہ تمہیں کچھ دوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری والدہ سے فرمایا: تم اِسے کیا دینا چاہتی ہو! اُنہوں نے عرض کیا: میں اِسے کھجور دوں گی۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اِسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارا ایک جھوٹ لکھ لیا جاتا۔ نبی
اج کل عام طور پر انسان خود جھوٹ بولتا ہے اور بچوں سے بھی بولواتا ہے باپ گھر میں ہوتا ہے بچے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ کہہ دو کے والد گھر پہ موجود نھیں جب کہ وہ موجود ہوتے ہیں
یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَاسَیِّدَ البَشَرْمِنْ وَجْهِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْلَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام محاسن و محامد کا پیکر جمیل بنایا تھا اللہ تعالی ہر الائش سے منزہ فرمایا تھا
اللہ تعالی.ہم.سب کو نبی کریم کی سیرت ہر عمل توفیق عطا فرماٰے آمین۔