حضور ﷺ کااُمی ہونامعجز ہ ہے

تحریر ۔محمد توحیدرضابنگلور
امام مسجد رسولُ اللہ ﷺ خطیب مسجد رحیمیہ میسور روڈ بنگلور
مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ و نوری فائونڈیشن بنگلور
حضرت محمد مصطفی ﷺاُمی ہیں یعنی دنیامیں کسی استاذنے آپ ﷺ کو نہ پڑھنا سکھایا نہ لکھنا سکھایا اس لئے پارہ ۹ سورۃ الاعراف آیت ۱۵۸ کے ترجمہ کنزالایمان میں اُمی کا ترجمہ ۔بے پڑھے لکھے ۔کیاگیاہے آپ ﷺ کا اس دانئے گیتی پر کوئی استاذ نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپﷺ کچھ نہیں جانتے بلکہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کو ماکان و مایکون کا علم عطاکیا ہے یعنی آپ ﷺ اولین وآخرین کی خبریں دیتے تھے(علمہ البیان سورہ رحمن۔یعنی ماکان و مایکون کا بیان اُنھیں سکھایا) اللہ پاک نے آپ ﷺ کو معلم کائنات بناکر بھیجا ہے حضور مصطفی جان رحمتﷺ نے فرمایا(انما بعثت معلما۔بے شک مجھے معلم بناکر بھیجا گیاہے۔ ابن ماجہ) اللہ پاک نے آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیاجو آپ نہیں جانتے تھے(وعلمک مالم تکن تعلم پارہ ۵ سورہ نساء آیت ۱۳)تفسیرخزائن العرفان میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺ کو تمام کائنات کے علوم عطافرمائے اور کتاب وحکمت کے اسرارو حقائق پر مطلع کیا ۔اللہ پاک نے آپ ﷺ کو براہِ راست قرآن سکھایا ہے پارہ ۲۷ سورہ رحمن آیت ۱،۲ ، میں اللہ پاک نے فرمایا۔الرحمن علم القرآن ترجمہ رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔تو پتہ چلا کہ سکھانے والا اللہ رب العزت ہے اور سیکھنے والے محبوب خداہیں
شاعر نے کہا۔جوہوچکا ہے جوہوگا حضور جانتے ہیں تیری عطاسے خدایا حضور جانتے ہیں
معلم کائنات کی شانِ اُمیت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت کے بعد تا فتح مکہ کو اُ می ظاہر رکھا اور اللہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا کہ آپ کی حجت قائم ہو زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے کلام الہی کی خالص من جانب اللہ ترجمانی ہو
وہ علوم و معارف پیش کیے جائیں کہ تمام عقلاء حیران اور عاجز رہ جائیں یہاں تک کہ تمام عرب کو چیلنج کیا گیا کہ۔فاتو بسورۃ من مثلہ پارہ ۱ آیت ۲۳۔ترجمہ کنز الایمان ۔تواس جیسی ایک سورت تو لے آئو اور اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالواگر تم سچے ہو۔ کلام الہی کی روانی کو دیکھ کر کوئی بے وقوف نہ کہہ دے کہ یہ استاد اور مربی کی تربیت و تعلیم کی وجہ سے ہے اسی لیے آپ کا اُمی ہونا مشہور و معروف تھا عرب کے لوگ حضور ﷺ کو آپ کے بچپن سے لیکر جوانی اور ہجرت تک کی پوری زندگی کسی معلم کے پاس علم حاصل کرتے نہیں دیکھا پھر بھی عرب کے لوگ آپ کو صادق و آمین کہکریاد کرتے یہی وجہ ہے کہ کسی کو بھی کہنے کی جرات نہ ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں فلاں سے پڑھ کر لکھ لی ہے اسی حکمت کو آیت ذیل میں صراحتاً بیان کیا۔وماکنت تتلوامن قبلہ من کتاب ولاتخطہ بیمینک اذا الارتاب المبطلون (پارہ 21 سورۃ العنکبوت آیت ۴۸)اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا نزولِ وحی سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ ضرور شک میں مبتلا ہو جاتے۔گویا آپ کا ابتدا میں اُمی ہونا حکمت یزدی تھا تاکہ آپ کی صداقت پر دلیل وہ اعجاز قائم ہو وہ نبوت و رسالت کی شان و عظمت کا ظہور ہو
نبی ﷺہر نقص و عیب سے پاک
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر نقص وعیب سے پاک ہیں اور کوئی شے پڑھ لکھ نہ سکنا یہ عیب ہے کیونکہ پڑھا لکھا انسان اَن پڑھ جاہل انسان سے اعلیٰ اور باکمال سمجھا جاتا ہے عر ف کو شرح میں بڑا دخل ہے تو جب عرف میں اَن پڑھ پڑھے لکھے سے ناقص اور با عیب ہے تو کس کا جگر گردہ اجازت دیتا ہے کہ اکمل و اعلیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پڑھنے لکھنے کی نفی کر کے آپ میں عیب و نقص کا تصور جمائے ۔
پڑھا لکھا انسان اَن پڑھ اور نہ لکھنے والے انسان سے ممتاز اور اعلی ہوتا ہے اور یہ عقیدہ رکھنا کہ ہم تو پڑھ لکھ سکتے ہیں لیکن حضور علیہ الصلوۃ والسلام اَن پڑھ تھے معاذ اللہ تو خود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ممتاز ثابت کرنے کے مترادف ہے
علمِ مصطفیﷺبزبانِ مصطفیﷺ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر معاملہ عام بشر سے نرالا ہے آپ کا اُمی ہو کر پڑھنا لکھنا جاننا اسی نرالی شان میں سے ایک ہے اس کی کیفیت یوں سمجھئے کہ عام بشر آگے دیکھتا ہے اور بس لیکن حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کیفیت یوں تھی کہ آپ آگے پیچھے برابر طور دیکھتے تھے
(۱)چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث شریف میں ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(قال ترون قبلتی ھھنا فواللہ مایخفی علی خشوعکم ولارکوعکم انی لا رائکم وراء ظھری)کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ میرا قبلہ یہ ہے خدا کی قسم مجھ پر تمہارا ناخشوع پوشیدہ ہے نہ تمہارا رکوع پوشیدہ ہے میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔جیسے آپ کی اس نرالی شان سے ممتاز ہیں ایسے ہی تعلیمی نظام میں عام بشر سے ممتاز ہیں کہ ہر بشر پڑھنے لکھنے میں اسباب کا محتاج ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسباب کا محتاج نہیں بنایا بلکہ جملہ اسباب کو آپ کا محتاج بنایا ہے
اس لیے کہ آپ ہی رحمت اللعالمین ہیں معلم کائنات ہیں امام الانبیاء ہیں
(۲)صحیح مسلم میں حضرت عمر بن اخطب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺعلیہ الصلوۃ والسلام ممبر پر جلوہ فرما ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ سورج غروب ہو گیا تو اس خطبے میں حضورﷺ نے ہمیں اس دنیا میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ آئندہ ہوگا سب کو خبر دے دی تو ہم لوگوں میں سب سے بڑا عالم وہ شخص ہے جسے حضور کی بتائی ہوئی خبریں زیادہ یاد ہیں (رواہ مسلم ص390 ج3)
فائدہ۔اس حدیث سے شارحین (عینی ۔فتح الباری) وغیرہما نے ثابت کیا ہے کہ حضور سرور دوعالم
صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوڑے عرصے میں ما کان و مایکون بیان فرمانا معجزہ ہے اسی بیان میں شے کا لکھنا اور جاننا بھی شامل ہے ورنہ ما کان وما یکون کا بیان ادھورا ہوگا
(۳)حضرت عبدالرحمن بن عائش سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ملائکہ کن امور میں سرگرمی سے گفتگو کر رہے ہیں میں نے عرض کیا تو ہی خوب جانتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا ید قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی دونوں چھاتیوں میں محسوس کی بس میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے(مشکوہ دارمی)
(۴)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے جواہر البحار جلد اول میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ادبنی ربی فاحسن تادیبی)کہ مجھے میرے رب نے پڑھایا اور بہترین تعلیم دی ۔
(۵)بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مجلس میں قیام فرمایا اور قیامت تک ہونے والی کوئی چیز نہ چھوڑی جن کا بیان نہ فرمایا ہو۔
بخاری و مسلم کی اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے قیامت تک ہونے والی ہر چیز کا بیان فرما دیا کوئی چیز نہ چھوڑی
(۶)مسلم شریف میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹا پس میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھا یعنی تمام زمین کو ملاحظہ فرمایا
(۷)مرقات المفاتح میں اس حدیث کی شرح میں فرمایا میرے لیے تمام زمین یکبارگی سمیٹی گئی پس میں نے اس کے مشارق و مغرب کو دیکھا
(۸)مواہب ا لدنیہ میں طبرانی سے روایت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے دنیا اٹھائی میں نے اس کو اس میں جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسا ملاحظہ فرمایا جیسا اپنے اس کفِ دست کو۔
(۹)معجزہ ۔یہود کو بھی حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم دلائل سے اپنی نبوت کا یقین دلا چکے اور کفار و مشرکین بھی ہار تھک کر سمجھ گئے کہ یہ اپنے طور پر کچھ نہیں کرتے جو کچھ کرتے ہیں اپنے معبود کے حکم سے کرتے ہیں اسی لیے اب اگر آپ کا بطور معجزہ پڑھنا لکھنا ثابت ہوتا ہے تو کفار و مشرکین اور یہود و نصاری کو تو شاید انکار نہ ہوا
شانِ اُمی لقب
انبیائے کرام کی شان ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے کوئی بھی انسان انبیائے کرام کے مقام و مرتبہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا انسان پڑھنے لکھنے کے محتاج ہیں تو انسانوں سا تصور انبیائے کرام کی اعلیٰ و بابرکت ذات سے نہیں کیا جاسکتا انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنے اوپر قیاس نہیں کیا جاتا ان کا ہر عمل نرالا من جانب اللہ اور مخلوق کے لیے تعلیم کے طور پر ہوتا ہے ان کی تعلیم عطائی ہوتی ہے (1)حضرت آدم علیہ السلام کو تعلیم الاسماء سکھایا گیا جو انہوں نے نہ صرف پڑھے ہوئے امور جان لیے بلکہ ان کا لکھنا تک بھی جان لیا (روح البیان پر 21 میں ہے منقول ہے کہ سب سے پہلے عربی، فارسی، سریانی، عبرانی، حمیری، یونانی، رومی، قبطی، بریری، اند لسی، ہندی، چینی، حضرت آدم علیہ السلام نے مٹی کے گارے پر لکھ کر اسے آگ پر پکایا اور جو ہی اسے زمین پررکھا تو ہر لغت کا لکھا ہوا ٹکڑا علیحدہ ہو کر کتابی شکل میں ہوا جسے ہر بولی کو ہر قوم نے لکھ لیا اور عربی بولی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حصے میں آئی
(2) حضرت ادریس علیہ السلام کا نام بھی اسی لیے ادریس ہیں کہ آپ علوم و فنون کو پڑھاتے تھے لیکن پڑھانا پڑھے بغیر کہاں سے پھر آپ کو دنیا کا سب سے پہلا کاتب مانا گیا
(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات دہرائیں کہ انہوں نے بچپن میں فرعون کو کتنا اور کیسے ذلیل کیا اگر بی بی آسیہ آڑے نہ آتی تو فرعون موسیٰ علیہ السلام کا بچپن میں ہی کام تمام کر دیتا بالآخر دونوں کی طویل بحث و تمحیص کے بعد انگارے اٹھانے تک نوبت پہنچی وہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام موتی اٹھا رہے تھے تو جبرائیل علیہ السلام نے ہاتھ پکڑ کر انگارے کی طرف لے گئے بالخصوص موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کو داڑھی سے پکڑ کر جھنجھوڑتے تو فرعون کی جان لبوں پر ا ٓجاتی ا س پر اسے یقین ہو گیا کہ یہ بچہ عملََا اسے ذلیل کرتا ہے وغیرہ وغیرہ اس سے پتہ چلا کہ موسیٰ علیہ السلام بچپن میں ہی جانتے تھے
(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بچپن میں کہا۔ انی عبداللہ آتا نی الکتاب وجعلنی نبیا یعنی میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنا کر بھیجا
(5) ہمارے نبی حضور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سینکڑوں شہادتیں کتب المیلاد والسلام میںموجود ہیں مثلاََ (1) دنیا میں تشریف لاتے ہی سر سجدے میں رکھ کر امت کی خیر و بھلائی کی دعائیں کی (2) حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھ کر مسکرانا (3) گہوارے میں چاند سے باہم گفتگو کرنا ۔صرف چند نمونے عرض کر دیے ورنہ سینکڑوں امثلہ واحادیث وسیرمیں میں موجود ہیں
شاعر نے کہا۔یٰسین و مزمل و مدثر وطٰہٰ ۔کیاکیا نئے القاب سے مولانے پکارا ۔کیا شان ہے اس کی کہ جو اُمی لقبی ہے ۔وہ میرا نبی، میرا نبی، میرانبی ہے۔
بولیاں ہی بولیاں
حضور رحمت دو عالم مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہ صرف عربی زبان جانتے بلکہ ہر مخلوق کی بولی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور سن کر حضور نے سمجھائی پرندوں چرندوں اشجار اور احجاراورجو بھی جس طرح بولا آپ نے اسے سمجھا بھی اور صحابہ کرام کو سمجھایا بھی بلکہ تا حال ہمارا عقیدہ ہے کہ جالی مبارک کے سامنے یا جہاں سے کوئی کسی بھی زبان میں فریاد کرے۔ ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو
وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ جس نے پتھروں درختوں بے زبان حیوانوں اور بچوں گونگوں کو بولنا سکھایا تو حیرانی ہے کہ خود۔۔۔۔۔۔۔
شرح شفاللحقاجی رحمۃ اللہ علیہ میں ہے۔عربی عبارت کاترجمہ۔۔یہ ایک جماعت حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جب آپ ﷺنے نبوت کا دعوی فرمایا جب وہ مسجد حرام میں آئے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانتے تھے اور نہ ہی انہیں عربی زبان آتی تھی ان میں سے ایک نے اپنی زبان میں کہا۔من ابوان اسرار۔یعنی تمہارے میں نبی کون ہے تو نبی علیہ السلام نے فرمایا۔اشکدورا۔کا معنی ہے آگے آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کی بولی میں باتیں سمجھائیں حا ضرین کو علم نہ ہوا وہ مسلمان ہو کر چلے گئے پھر آپ نے حاضرین کو بتایا (حجۃ اللہ علی العالمین مطبوعہ قدیم)
حضرت علامہ آلوسی کی تفسیر کا حوالہ گزر چکا ہے کہ حضور کا لکھنا اور پڑھنا تو ایک ادنیٰ کمال ہے جبکہ آپ کے اعجاز کا کمال یہ ہے کہ خود حروف آپ سے بول پڑتے ہیں توہم کیا ہیں یہ کمال توحضرت آدم علیہ السلام کو عطا ہوا تو بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کی برکت سے ۔اہل اسلام کا عقیدہ و تحقیق یہ ہے کہ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جملہ مخلوق سے پہلے پیدا ہوئے اور اسی وقت سے نبوت سے نوازے گئے اور عالم دنیا میں تشریف لانے سے پہلے اور بات کو بھی نبوت سے موصوف تھے ہاں 40 سال کی عمر میں نبوت کا اظہار و اعلان کیا اس اظہار و اعلان سے پہلے (پیدائش سے لے کر تا اعلان) آپ کو اجمالی علم عطا کیا گیا تھا جوں جوں وقت آتا گیا آپﷺ اس کا اظہار فرماتے گئے۔غایۃ المامول فی علم الرسول میں بیان کیاہے
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی نشرالطیب کی ابتدا میں یہ ثابت کیا ہے کہ حضور کو حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے وصف نبوت بلکہ ختم نبوت کا مرتبہ حاصل ہو چکا تھا البتہ نبوت کا ظہور حضور کی جسمانی پیدائش کے 40 سال بعد ہواہے
بہرحال ماننا پڑے گا کہ آپ وصف نبوت سے موصوف تھے تو جملہ علوم و فنون بھی حاصل تھے اسی لیے آپ کسی سے پڑھنے لکھنے کے محتاج نہ ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو ازل سے پڑھا لکھا بنایا اور ہماری خوش قسمتی کے ایسا پڑھا لکھا محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیب ہوا اسی لیے ہم بڑے فخر و ناز سے کہتے ہیں ، اُمی ودقیقہ شانِ عالم ۔بے سایہ ء وسائبانِ عالم
ساری تحریر ۔پڑھالکھااُمی۔ نامی کتاب سے اخذکی گئی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp