وہ ہر عالم کی رحمت ہیں کسی عالم رہ جاتے
مفتی شاھد رضا الازھری
خادم الافتاء مدرسہ ادارہ شرعیہ فیضان مصطفے گوہاٹی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف اوری سے قبل کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا ہرطرف ظلم وبربریت دور دورا تھا کوئی بھی ایک خدا کا نام لیوا نہ تھا بلکہ ہر چہارجانب بت کی پرستش کی جارہی تھی لوگ پتھر کی بنی ہوئی مورتی کو اپنا معبود حقیقی تصور کر ر ہے تھے اس وقت اصول و قوانین کا کوئی حیثیت نہ تھی لوگ جہالت کی گٹھا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہے تھےوہ انسانیت کے مفہوم سے عاری تھے تھے مالدار غریبوں کااستحصال کر رہے تھے اس وقت برائیاں شباب ہر تھیں دوشیزاوں کی عزت و ناموس تار تار کی جارہی تھیی لوگ عام طور سے بدکاریوں میں مبتلانظر اتے تھے بات یہیں پہ موقوف نہیں ہو جاتی تھی بلکہ اپنی اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنا فخر سمجھتے تھے اپنے باپ کے بیواؤں کے ساتھ خادمہ جیسا سلوک کرتے تھے یا اس بھی زیادہ برا سلوک کرتے تھے ظلم.وزیادتی کی تمام حدود پار کرچکے تھے
لہذا جن وانس کےپاک نفوس قدسیہ نے اپنے رب قدیرکی بارگاہ ناز میً التجا کررہے تھے مولی بھیج ایے مسیحا اعظم کو جو انسان کا انسانیت کا لبادہ اوڑھائے عدل و انصاف کا ماحول قائم کرے ،تمام فحاشیت و عریانیت اور برائیوًں کا خاتمہ کرے یک خدا کی عبادت وریاضت کی جائے وحدہ کاشریک کے نعرے الاپاپئےجائیں ایک ایسی ذات جو کہ عالمین کے رحمت ہوں اورجن کےوجود نازنین سےرشدو ھدایت کے چشمے بہیں حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ھیں کہ
اٹھادوپردہ دکھادوچہرہ کہ نور باری حجاب میں : زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں یے
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے”اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا “} ارشاد فرمایا کہ اےرسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کرہی بھیجاہے حضورِاقدس صَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت:نبی اخرالزماں صَلﷺنبیوں، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں سب کے لئے رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں ا
دنیا میں جتنی اشیا ء موجود ہیں ، سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایااسکےلئےآپﷺدنیامیں رحمت ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۲۹۷) آج رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مسلمہ سےاجتماعی قسم کا ہر غذاب اٹھا لیا گیا ہے جو غذاب سابقہ امتوں کو دیا گیا تھا یعنی. کیسی کے جہرے کو مسخ کردیا گیا ، کیسی کو زمین میں دھنسادیاگیا ، کسی پر پتھروں کا غذاب نازل کیا گیا کسی کو دریائے نیل میں غرق کردیا گیا حالانکہ اس امت کے اندر وہ تمام برائیاں پائی جا رہیں جو پہلےکے امتوں میں پائی جاتی تھیں اس امت کو اجتماعی غذاب بایں وجہ نہیں دیا گیا یہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کرم ہےاور اس زمین پر جلوہ افروز ہیں
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طورپر) حضورپُرنور،سیّدالمرسَلینﷺ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۴۱)
اور فرماتے ہیں’’حضور اقدسﷺ رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پربالخصوص کمال مہربان ہیں ، رؤف رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں ،جیسے کہ قرآن عظیم ناطق:
اللہ تعالی سورہ توبہ: ایت نمبر ۱۲۸ میں ارشاد فرماتاہے(ترجمۂ بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔)
تمام عاصیوں کی شفاعت کے لئے تو وہ مقررفرمائے گئے:اللہ تعالی سورۂ محمد ایت نمبر :۱۹ میں ارشاد فرماتا ہے (ترجمۂ اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔)( فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۶۷۴-۶۷۵)
آیت’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اور عظمت ِمصطفٰی یہ.آیتِ مبارکہ تاجدارِنبوت رسالتﷺ کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے، یہاں اس سے ثابت ہونے والی دو عظمتیں ملاحظہ ہوں :
(1)…اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام عالَمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہو اکہ وہ ( اللہ تعالیٰ کے سوا) تمام سے افضل ہوں ۔( تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۲ / ۵۲۱)
تفسیر روح البیان میں اَکابِر بزرگانِ دین کے حوالے سے مذکور ہے کہ سرکارِ دو عالَم صﷺکوتمام جہانوں کے لئے خواہ وہ عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول سب کے لئے مُطْلَق، تام، کامل، عام، شامل اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۵۲۸)
(2)… اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جوشخص دنیامیں آپ ﷺپر ایمان لائے گا اور آپ ﷺکی اطاعت و پیروی کرے گا اسے دونوں جہاں میں آپ کی رحمت سے حصہ ملے گا اور وہ دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرے گا اور جو آپ پر ایمان نہ لایا تو وہ دنیا میں آپ کی رحمت کے صدقے عذاب سے بچ جائے گا لیکن آخرت میں آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہ پا سکے گا۔
امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’لوگ کفر ،جاہلیت اور گمراہی میں مبتلا تھے ، اہلِ کتاب بھی اپنے دین کے معاملے میں حیرت زدہ تھے کیونکہ طویل عرصے سے ان میں کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام تشریف نہ لائے تھے اور ان کی کتابوں میں بھی (تحریف اور تبدیلیوں کی وجہ سے) اختلاف رو نما ہو چکاتھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقتاپنےحبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا جب حق کے طلبگار کو کامیابی اور ثواب حاصل کرنے کی طرف کوئی راہ نظر نہ ارہی تھی
،چنانچہآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کوحق کی طرف بلایا اور ان کے سامنے درست راستہ بیان کیااور ان کے لئے حلال و حرام کے اَحکام مقرر فرمائے ،پھر اس رحمت سے(حقیقی) فائدہ اسی نے اٹھایا جو حق طلب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا (اور وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لا کر دنیا و آخرت میں کامیابی سے سرفراز ہوا اور جو ایمان نہ لایا) وہ دنیا میں آپ کے صدقے بہت ساری مصیبتوں سے بچ گیا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۸ / ۱۹۳، ملخصاً)
تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤف و رحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں درود
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت میں فرق:
ویسے تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رحمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰکےحبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عین رحمت اور سراپا رحمت ہیں ،اسی مناسبت سے یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضورپُرنورﷺ کی رحمت میں فرق ملاحظہ ہو،چنانچہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’ وَ رَحْمَةً مِّنَّا‘‘(مریم:۲۱)
ترجمۂ: اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں )۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں ارشاد فرمایا’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘
ترجمۂ اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔‘‘
ان دونوں کی رحمت میں بڑا عظیم فرق ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتعیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رحمت ہونے کو حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ سیّد المرسَلینﷺ کے مبعوث ہونے تک چلا، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں مُطْلَق طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا،اسی وجہ سے عالَمین پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی، دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وسلم آپ کی شفاعت کے محرومنہ. ہونگے)(روح البیان )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف بددعا کیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، میں تو صرف سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے عذاب بنا کر نہیں۔‘‘
اج کسی مسلمان سے ذرا زک پہنچ جاٰے تو اس کے لئے اجتماعی بدعا کرتے ہیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو دیکھیں جب مشرکین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دی تو صحابہ کرام نے فرمایا بدعا فرما دیں یا غیروں نے تکلیف دی پھر بھی غیروں کے لئے دعا دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہیا اللہ یہ مجھے نھیں جانتے جس دن وہ مجھے جان لیں تو تیرے دین سے وابستہ ہو جائیں گے
اِس حدیث کو امام ابو نعیم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہےحضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ‘‘ (تمام جہانوں کے لئے رحمت) بنا کر بھیجا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ‘‘ (یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت) اور ’’هُدًی لِلْعَالَمِيْنَ ‘‘ (یعنی تمام جہانوں کے لئے ہدایت) بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’هُدًی لِلْمُتَّقِيْنَ‘‘ مجھے تمام پرہیز گاروں (یعنی انبیائ، اولیاء اور صالحین) کے لئے ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَا أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بے شک میں رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رحمت) ہوں۔‘‘حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’رحیم‘‘ (نہایت رحمدل) اور ’’رقیق‘‘ (نہایت نرم دل) تھے الحدیث۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے (یعنی مختصر نماز پڑھائے) کیونکہ اُن میں کمزور، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے جتنا چاہے طول دے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو فرماتے ہوئے سنا: رحمت، بدبخت کے سوا کسی (کے دل) سے نہیں نکالی جاتی۔‘‘
اِس کو امام ترمذی ابو داؤد اور بخاری نے الادب المفرد میں روایت کیا ہے
حضرت یزید بن ثابت، جو کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے، جب ہم جنت البقیع پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نئی قبر دیکھ کر لوگوں سے اُس کے بارے میں دریافت فرمایا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ فلاں کی قبر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اِس کی وفات کی اطلاع کیوں نہ دی؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ روزے سے تھے اور دوپہر کے وقت آرام فرما رہے تھے ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو۔ جب تک میں تم میں موجود ہوں مجھے ہر شخص کی وفات کی ضرور اطلاع ہونی چاہیے کیونکہ میرا اُن کی نماز جنازہ پڑھنا اُن کے لیے رحمت کا باعث ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اُس کی) قبر پر تشریف لائے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صفیں بنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار تکبیریں ادا فرمائیں (یعنی اس کی نمازِ جنازہ پڑھی)۔‘‘اِس حدیث کو امام نسائی اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک کچھ سیاحت کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ایسے فرشتے بھی ہیں جو مجھے میری اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں اور فرمایا: میری زندگی بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (بذریعہ وحی الٰہی اور میری سنت) تمہیں نئے نئے احکام ملتے ہیں اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (میری قبر میں بھی) تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ اگر (تمہاری) نیکیاں دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ شکر بجالایا کروں گا اگر برائیاًں دیکھوں گا تو تمہارے لئے اللہ تعالی سے استغفار کیا کرونگا
حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ملا اور عرض کیا: مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تورات میں بیان کردہ صفات بیان فرمائیں۔ اُنہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم، تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں ہیں: ’’(اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ اور آپ اَن پڑھوں کی جائے پناہ، اور میرے (محبوب) بندے اور رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام ’’متوکل‘‘ رکھا ہے آپ نہ تو ترش رو اور سنگ دل ہیں اور نہ ہی بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے نہیں ہیں بلکہ معاف اور درگزر فرمانے والے ہیں۔ (حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ) اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس وقت تک اپنے پاس نہیں بلائے گا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے اور وہ کلمہ نہ پڑھ لیں اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اَندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور غلاف چڑھے ہوئے (زنگ آلود) دلوں کو کھول نہ دے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
’’حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ (نہایت رحمدل) اور ’’رقیق‘‘ (نہایت نرم دل) تھے
اللہ ےعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وزلم کی سیرت پہ عمل کی توفیق بخشے
وہ ہر عالم کی رحمت ہیںکیسی عالم میں رہ جاتے
یہ ان کی مہربانی ہے کہ ہے کہ یہ عالم پسند آیا