پابندیوں سے کامیابی تک: چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی کی حیرتانگیز داستان

ازقلم : ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
عصرِ حاضر میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور نینوٹیکنالوجی کی معرکہ آرائی نے بین الاقوامی سیاست و معیشت کےمحاذوں کو نئے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اس عظیم الشان دوڑ میں چین کی پیش قدمی ایک ایسی داستانِ حیرت ہے جس نے پابندیوں کے جال کوچاک کرتے ہوئے اپنی علمی برتری کے جھنڈے نصب کیے ہیں۔ امریکاکی جانب سے مسلط کردہ ہزاروں اقتصادی و تکنیکی پابندیوں کےباوجود، چین نے اپنی حکمتِ عملی، تحقیقی جوہر، اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مصنوعی ذہانت کے میدان میںایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ یہ سفر محض ٹیکنالوجی کی ترقی کامرقع نہیں، بلکہ عزمِ استقلال، قومی یکجہتی، اور دانش و حکمت عملی کی لازوال داستان ہے۔
سن2022ء میں امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کو جدید ترین نینوچپس کی درآمد پر پابندی عائد کر دی۔ یہ پابندیاں نہ صرف چینی کمپنیوں بلکہ عالمی سطح پر کسی بھی تنظیم کو چین کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے روکنے پر مرکوز تھیں۔ امریکا کا مقصد واضح تھا:چین کو مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ جیسے حساس شعبوں میںپیچھے دھکیلنا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکا نے چین پر 1000 سےزائد پابندیاں عائد کیں، جن میں سے 532 براہِ راست چینی ٹیکنالوجی اداروں کو نشانہ بنائی گئیں۔ تاہم، چین نے ان رکاوٹوں کو للکارتے ہوئےاپنے تحقیقی بجٹ میں اضافہ کر کے ایک نئے دور کا اعلان کیا۔
ٹیکنالوجی کے دائرے میں نینو چپس کی اہمیت حیاتِ انسانی میں دل کی دھڑکن کے مترادف ہے۔ یہ چپس کمپیوٹرز، فوجی نظاموں، طبی آلات،اور مصنوعی ذہانت کی بنیاد ہیں۔ امریکا نے چین کو جدید ترین چپس(جیسے 3 نینو میٹر ٹیکنالوجی) تک رسائی سے محروم رکھنے کی ہر
ممکن کوشش کی۔ تائیوان کی کمپنی TSMC، جو دنیا کی 70فی صدجدید چپس تیار کرتی ہے، کو بھی چین کے ساتھ کاروبار کرنے سےروک دیا گیا۔ مگر چین نے اپنی تحقیقی لیبارٹریز میں 7 نینو میٹر کیپرانی ٹیکنالوجی کو جدید ترین الگورتھمز کے ساتھ جوڑ کر ایک انقلاب
برپا کیا۔ 2023ء میں چینی کمپنی ڈیپ سیک (DeepSeek) نے محدودوسائل کے باوجود ایک ایسا ماڈل تیار کیا جو امریکی اربوں ڈالر کےمنصوبوں کو پیچھے چھوڑ گیا۔
ڈیپ سیک کی کہانی چین کی تخلیقی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔ مئی2023ء میں 37 سالہ لنگ وان فنگ کی قیادت میں شروع ہونے والےاس سٹارٹ اپ نے اوپن سورس ٹیکنالوجی کو اپنا محور بنایا۔ امریکا کی جانب سے جدید چپس کی عدم دستیابی کے باوجود، ڈیپ سیک نےپرانیnm7چپس کو جدید ترین سافٹ ویئر کے ساتھ جوڑ کر ایک ایساAI ماڈل تیار کیا جواستدلال و استنباط(Reasoning) کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ ماڈل، جسے R1 کا نام دیا گیا، نے محدود وسائل کےباوجود قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، یہ دعویٰ کہ اس نےامریکی ماڈلز کو مکمل طور پر پیچھے چھوڑ دیا، بعض مغربی ذرائع کے مطابق مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔
امریکا کے برعکس، چین نے اپنی مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو اوپن سورس (مفت اور قابلِ ترمیم) بنانے کی پالیسی اپنائی۔ ڈیپ سیک کےماڈلز کو بھی مفت میں دستیاب کرایا گیا، جس سے عالمی سطح پرڈویلپرز نے اسے اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا۔ یہ
حکمتِ عملی نہ صرف چین کو عالمی مارکیٹ میں مقبول بناتی ہے،بلکہ یہ ٹیکنالوجی کی عوامی ملکیت کے تصور کو بھی تقویت دیتی ہے۔سن 2022ء میں چین نے تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والی رقم سےزیادہ رقم سیمی کنڈکٹرز (چپس) پر صرف کی۔ یہ اعداد و شمار چین کی ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں۔ امریکی پابندیوں کے جواب میں چین نے اپنی صنعت کو خود کفیل بنانے کے لیے 2030ء تک 1.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2023ء تک چین نے 3 نینو میٹر چپس کی تیاری میں کامیابی حاصل کر لی، جوٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم سنگ میل ہے۔مصنوعی ذہانت کی دوڑ کا اگلا محاذ کوانٹم کمپیوٹنگ ہے۔ امریکا اس شعبے میں اب تک سب سے آگے تھا، مگر چین نے حالیہ برسوں میںشنگھائی اور بیجنگ میں کوانٹم ریسرچ سینٹرز قائم کیے ہیں۔ چینی سائنسدانوں نےجیوژانگ نامی کوانٹم کمپیوٹر تیار کیا ہے جو امریکیگوگل سیکامور کے مقابلے میں اضافی صلاحیتوں کا حامل ہے۔
چین کی اس کامیابی کا راز صرف حکومتی پالیسیوں میں نہیں، بلکہ اسکے نوجوانوں کی لگن میں پنہاں ہے۔ عالمی سطح پر شائع ہونے والے65% AI ریسرچ پیپرز چینی طلبا یا اداروں سے وابستہ ہیں (حوالہ:Stanford AI Index 2023)۔ چین نے اپنے تعلیمی نظام کو جدیدٹیکنالوجی پر مرکوز کیا ہے، جہاں ہر سال لاکھوں طلبا کو کوانٹم فزکس، ریاضی، اور الگورتھم ڈیزائننگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ڈیپ سیک کی کامیابی نے امریکی ٹیکنالوجی مارکیٹ کو متاثر کیا۔اینویڈیا جیسی کمپنیاں، جو AI چپس کی دنیا میں سرخیل ہیں، ایک ہفتےمیں 30 بلین ڈالر کی مارکیٹ ویلیو کھو بیٹھیں (حوالہ: Reuters2023)۔ یہ اقتصادی اتار چڑھاؤ چین کی تکنیکی ترقی کے عالمی اثرات کی غمازی کرتا ہے۔چین کی یہ کامیابی اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت میںمکمل طور پر امریکا سے آگے نکل گیا ہے، بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ پابندیوں کے باوجود ترقی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ چین نے ثابت کیا کہ تخلیقی سوچ، نوجوانوں کی صلاحیت، اور حکمتِ عملی سےکوئی بھی رکاوٹ عبور کی جا سکتی ہے۔ مستقبل میں یہ دوڑ کوانٹم کمپیوٹنگ، بائیوٹیکنالوجی، اور مصنوعی ذہانت کے نئے محاذوں پرشدت اختیار کرے گی۔
چین کا یہ سفر محض ایک ملک کی داستان نہیں، بلکہ انسانی عزم کی طاقت کی علامت ہے۔ جب نوجوانوں کو مواقع دیے جائیں، تحقیق کوفروغ دیا جائے، اور قومی یکجہتی کو ہتھیار بنایا جائے، تو کوئی بھی پابندی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علم وہ طاقت ہے جو دنیا کوبدل سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp