یوم جمہوریہ اور جمہوریت کا بدلتا نظام‎

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
چھبیس جنوری یوم جمہوریہ  بھارت کی ایک قومی تعطیل کا دن ہے، اس دن سارا ملک جشن کے ماحول میں ڈوبا نظر آتاہے۔ گاؤں دیہات ہوں یا شہر،گلیاں کوچے ہوں یا بازار،اسکول کالج ہوں یا یونیورسٹیاں یا پھر سرکاری ادارے و دفاتر،سبھی مقامات خوبصورت ترنگی جھنڈیوں سے سجے نظر آتے ہیں۔ ہر جگہ حب الوطنی کے نغمے گونجتے سنائی دیتے ہیں۔ آج کے دن ہر ہندوستانی کا دل حب الوطنی کے جذبے سے لبریز دکھائی دیتا ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں سبھی اپنے لباس پر مختلف طرز کے بنے ترنگے اسٹیکرس اور بیچس آویزاں کیے اپنی حب الوطنی پیش کرتے خوش و خرم نظر آتے ہیں ، حتیٰ کہ اسی جذبے میں ڈوبے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ہاتھوں میں ترنگے لیے خوشیاں مناتے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔
شاندار پریڈ کا انتظام:
یوم جمہوریہ کے موقع پر ملک بھر میں ثقافتی تقریبات منعقد کروائی جاتی ہیں۔ خصوصاً نئی دہلی میں راجدھانی ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اس دن کو حکومت کی طرف سے قومی تہوار کے طورپرمنایا جاتا ہے۔ انڈیا گیٹ پر صدر کے ہاتھوں پرچم کشائی ہوتی ہے اور وزارت دفاع کے تحت ایک شاندار پریڈ کا انتظام ہوتا ہے، جس کا انعقاد صدر کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ 21 توپوں کی سلامی، قومی پرچم کشائی اور قومی ترانہ گایا جاتا ہے۔ اس موقع پر بہادر سپاہیوں اور باہمت شہریوں کو پرم ویرچکر، اشوک چکر وغیرہ جیسے ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔
یوم جمہوریہ کی خصوصیت:
اس دن میں آخر ایسی کون سی خصوصیت ہے کہ جس کی بنا پر سارا ملک ایک ہی رنگ میں رنگا نظر آتاہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستان، 15 اگست 1947ء کو برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا تھا، لیکن 26 جنوری 1950ء  کو ہندوستانی تاریخ میں اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ اس دن ہندوستان کے آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان ایک خود مختار ملک بلکہ ایک ایسا جمہوری ملک بن گیا، جہاں سبھی مذہب و ملت، قوم و برادری اورہر رنگ و نسل کے افراد آزادانہ طور پر زندگی گذارتے ہیں۔ جہاں کوئی کسی کی نسل، اور مذہب کا دشمن نہیں ہے، جہاں امن،چین اور سکون کے ساتھ اخوت و محبت، یکجہتی و بھائی چارگی کے ساتھ زندگی بسر کی جاتی ہے۔
جمہوری آئین کا نفاذ کب اور کیسے ہوا:
ملک ہندوستان کے جمہوری دستور کی تشکیل کے لیے  69 سال پہلے یعنی آزادی ہند کے بعد 1957ء میں ماہرین قانون اور ہندوستان کے نامور اہل علم سیاست دانوں کی 12 رکنی آئین ساز کمیٹی بنائی گئی۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یعنی بابا صاحب امبیڈکر کی قیادت میں اس کمیٹی نے دو سال،گیارہ ماہ، اٹھارہ دن کی مدت میں 26 نومبر 1949ء کو دستور ہند کا مسودہ تیار کر کے پیش کیا جسے 26 جنوری 1950ء سے پورے ملک میں نافذ کیا گیا۔
پیغام یوم جمہوریہ:
یوم جمہوریہ ہر سال ہمیں ملک کے کونے کونے میں امن و شانتی،چین و سکون، آپسی محبت و یگانگت اور یکجہتی و بھائی چارگی کا ماحول قائم رکھنے اورتحفظ جمہوریت کا پیغام دیتا ہے، اور جمہوریت کے تحفظ کے عہد کی تجدید کراتا ہے، اور کہتا ہے کہ اگر جمہوریت محفوظ ہے تو پھرجشن یوم جمہوریہ یہ میرا اور تمہارا حق ہے، اگرجمہوریت خطرے میں ہے تو پھر جشن یوم جمہوریہ منانا کسی مذاق سےکم نہیں ہے، اس لیے یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر شہری کو دستور کی حفاظت اورجمہوریت کی بقا کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کا عہد کرنا چاہیے، اور یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے ہم نے آزادی کے لیے لڑائی لڑی تھی، اور اب دستور بچانے کے لیے جد و جہد کرنا ہے۔
اسلاف و علماء کی قربانیاں:
جمہوری ملک ہندوستان کو سونے کی چڑیا اور گنگا جمنا تہذیب کا گہوارہ بنانے کے لیے اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لیے ہمارے اسلاف و علمائے کرام نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا، جان و مال کی قربانیاں دیں تحریکیں چلائیں تختہ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات و حوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور حصول آزادی کی خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی ( انگریز ) ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوئے۔ غیرملکی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں کیں، رشوتیں دیں۔ پھوٹیں ڈلوائیں، آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں، تاریخ کو مسخ کیا انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور ناحق لوگوں کو تختہ دار پر ٹکایا، ہندوستانیوں پر ناحق گولیاں چلائیں، چلتی ریلوں پر سے اٹھا کر باہر پھینکا، انگریزوں کے ظلم و ستم کو روکنے اور طوق غلامی کو گردن سے نکالنے کے لیے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیا اور ملک کو آزاد کر کے ہی اطمینان کا سانس لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دن ہم سبھی ہندوستانی بلا امتیاز تفریق مذہب و ملت حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ترنگی ترنگ میں رنگے یوم جمہوریہ کا جشن مناتے ہیں۔
یوم جمہوریہ اور مدارس اسلامیہ:
یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے جشن کے حوالہ سے مدارس کے خلاف ایک بے اصل بیان کے ذریعہ مسلسل ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے حالانکہ تاریخ کا ادنی سے ادنی طالب علم بھی واقف ہے کہ جنگ آزادی میں مدارس کا کردار ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے کچھ مخالف مسلم طاقتوں نے ان مدارس کے خلاف انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیکر ایک سوالیہ نشان قائم کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اپنے دینی مدارس اورتعلیمی اداروں میں یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی تقاریب نہیں مناتے! جبکہ حقیقت یہ ہےکہ یہ تقاریب دینی مدارس، اقلیتی تعلیمی اداروں اورمسلم تنطیموں کے دفاتر میں بھی بڑے جوش و خروش کیساتھ منائی جاتی ہیں۔ اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان مدارس میں ان دونوں دنوں میں چھٹی رہتی ہے۔ ویسے بھی وطن عزیز کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار کسی سے مخفی نہیں ہے خاص طور پر علمائے کرام کا، لیکن ان مسلم مخالف طاقتوں کا ہم پر شک کرنا بیجا ہے اور بے ہودگی پن ہے۔لیکن ہمارے دینی مدارس میں غلطی یہ کی جاتی ہےکہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی تقاریب میں صرف اردو اخبارات کو ہی ترجیح دیتے ہیں، جن سے مخالفین کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اس لیے ضرورت ہےکہ یوم جمہوریہ کی تقریب میں دینی مدارس، اقلیتی تعلیمی اداروں اور مسلم تنطیموں کے نمائندے اس جانب غور کریں، اردو میڈیا کے ساتھ دیگر زبانوں کے میڈیا کو بلایا جائے اور پریس نوٹس بھی جاری کیے جائیں۔
یوم جمہوریہ اور جمہوریت کا بدلتا نظام:
ہمارے اسلاف و علمائے کرام نے یہ قربانیاں اس لئے پیش کیں تاکہ ہم آزاد فضا میں سانس لے سکیں، جب ہمیں آزادی ملی تو جوقانون ملک کے لئے بنایا گیا اس میں ہرمذہب وملت کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی عطا کی گئی، واقعی میں ہندوستان کا قانون اتنا اچھا ہے کہ اس میں کسی مذہب سے ٹکراؤ نہیں ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا، اس لئے دستور کی 42ویں ترمیم کی رو سے ہندوستان کو سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے جہاں ہر مذہب کا مساوی طور پر احترام لازمی قرار دے دیا گیا ہے، قانون ہند کے مطابق ہر ہندوستانی شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا کیوں نہ ہو، قانون کی نگاہ میں برابر ہے اور ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب کا حق حاصل ہے۔ دستور ہند میں اقلیتوں کو بھی ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں، اپنی تہذیب، تمدن اور زبان کو فروغ دے سکتی ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کرسکتی ہیں، لیکن افسوس ہوتا ہےکہ برابری حقوق کے باوجود بھی آج مسلمانوں پر ظلم کے ستم پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں، کبھی گھر واپسی کے نام پر ،کبھی لوجہاد کے نام پر ،کبھی گائے کے نام پر، کبھی این آر سی کا خوف دلاکر ظلم کیا جا رہا ہے، کبھی مساجد کی اذان پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو کبھی کچھ شدت پسندتنظیموں کے ذریعہ اپنے مذہبی نعرہ لگوانے پر مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہے، اس کے باوجود کسی شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے۔ الغرض ان حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتاہے کہ مسلم اقلیت کو آئین میں ملنے والے تمام حقوق سے محروم کر نے کی مکمل کوشش زور و شور سے جاری ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔
اس وقت ہرہندوستانی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور ہند کو جانیں اور دستور ہند سے متعلق جو کتابیں دستیاب ہیں ان کو پڑھنےکی کوشش کریں اور ایسے لوگوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دستور ہند کی روشنی میں ان کی ظالمانہ کوششوں کو ناکام بنائیں۔ انگریز یہاں سے چلے تو گئے لیکن افسوس اس کے نظریے کو ماننے والے ابھی بھی موجود ہیں جو انگریزوں کے اثرات بد کو قبول کرکے ہندوستان کو مذہب، علاقے، برادری اور غریبی و امیری اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر متعصبانہ رویہ کی تحریک چلائی جارہی ہے، اس کے باوجود بھی ہندوستان کا ہر مسلمان یہاں کی اس دم توڑتی ہوئی جمہوریت کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے، تمام مدارس اسلامیہ میں آج بھی 26 جنوری اور 15 اگست کو پرچم لہرانے کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔
 الله تعالٰی سے دعا ہے مولیٰ ملک میں امن و سلامتی عطا فرما، اور میل محبت سے رہنے کی توفیق عطا فرما آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp