کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
یوم وصال 22 رجب المرجب 60ھ
انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ تعظیم و توقیر کے لائق ہیں۔ یہ وہ مقدس ومبارک ہستیاں ہیں،جنہوں نے رسول اللہﷺ کی دعوت پر لبیک کہا، انہیں مقدس ہستیوں میں ایک ہستی صحابی رسولﷺ کاتب وحی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ جن کی سوانح درجہ ذیل ہے:
نام ونسب:
آپ کا نام معاویہ، کنیت ابو عبدالرحمن، لقب خال المؤمنین یعنی مؤمنوں کے ماموں اور کاتب وحی رسول اللہﷺ تھا۔ والد ماجد کا نام حضرت صخر اور کنیت ابو سفیان رضی اللہ عنہ تھی اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ اور والدہ ماجدہ کا نام ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا تھا۔ یہ دونوں فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے۔
آپ کا سلسلہ نسب والد ماجد کی طرف سے یہ ہے: حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔ والدہ ماجدہ کی طرف سلسلہ نسب یہ ہے: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بن ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
سلسلہ نسب میں حضورﷺ سے اتصال:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب والد اور والدہ دونوں طرف سے پانچویں پشت میں حضرت عبد مناف پر جا کر سرکار دوعالمﷺ سے مل جاتا ہے۔ اورعبد مناف وہ بزرگ ہیں کہ جن کا نام نبی کریمﷺ کے سلسلہ نسب میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔یعنی محمدﷺ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
ولادت باسعادت:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بعثت نبوی سے پانچ سال قبل 608 عیسوی میں ہوئی۔ ,,ولد قبل البعثة قبل بخمس سنین، وقیل بسبع، وقیل بثلاثة عشرة، والأوّل أشهر،،یعنی حضرت ابوسفیان نبی کریمﷺ کی بعثت سے5 سال قبل پیدا ہوئے۔
حلیہ مبارک:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شان وشوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبع میں زہد وورع،حلم وبردباری کے مالک انسان تھے، لحیم وشحیم،موٹی آنکھیں، گھنی داڑھی، گورے رنگ اور لمبے قد والے تھے، چہرہ نہایت وجیہ اور رعب و دبدبے والا تھا۔ چہرے سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی، زرد خضاب استعمال فرمانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ داڑھی مبارک سونے کی ہے۔
قبول اسلام:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ظاہری طور پر فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے قبل ہی اسلام قبول کرچکے تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “وحكی ابن سعد أنه كان یقول لقد أسلمت قبل العمرة القضیة ولكني كنتُ أخاف أن أخرج إلی المدینة ،لأن أمّي كانت تقول إن خرجت قطعنا عنك القوت” یعنی حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ فرماتے تھے کہ میں عمرۃ القضا یعنی7 ہجری سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا مگر اپنی والدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کے خوف سے مدینہ منورہ ہجرت نہیں کر سکا تھا کیونکہ وہ مجھے کہتی تھیں کہ اگر تو مدینہ کی طرف گیا تو ہم تیرا نفقہ بند کر دیں گے اور تجھ سے کوئی تعاون نہیں کریں گے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے 18 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔چنانچہ خطیب بغدادی رحمہ الله لکھتے ہیں: “أسلم وھو ابن ثماني عشرۃ سنة ، وکان یقول أسلمتُ عام القضية ولقیت رسول اللہﷺ فوضعت عنده إسلامی” معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو وہ اٹھارہ سال کے تھے،وہ یہ کہا کرتے تھے کہ میں نے عمرۃ القضاء کے وقت اسلام قبول کیا،میں نےرسول اللہﷺ سے ملاقات کی اورآپﷺ کے سامنے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔
کتابت وحی کے فرائض:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوبارگاہ رسالتﷺسے کتابت وحی کا منصب عطا ہوا۔ جو وحی آپﷺ پر نازل ہوتی، اسے قلمبند فرماتے اور جو خطوط و فرامین حضورﷺکے دربار سے جاری ہوتے، انھیں بھی آپ رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے۔
عہدے ومناصب اور خلافت:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ 18ھ سے 41ھ تک تقریباً 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے۔ آپ نے تقریباً 20سال تک بطور خلیفۃ المسلمین گذارے اور 64 لاکھ 65 ہزار مربع میل پر اسلامی خلافت کو قائم کیا۔
مروی احادیث کی تعداد:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے 163 احادیث مروی ہیں۔آپ سے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا، جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما، ابن عمررضی اللہ عنہما، ابن زبیر اور ابو درداءرضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
فضائل و مناقب:
حضرت معاویہ رضی الله عنہ اور نبی كریمﷺکے خاندان کے درمیان اسلام سے پہلے دوستانہ تعلقات تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے دار ابوسفیان کو دار امن قرار دے دیا تھا۔ اور ابو سفیان کی صاحبزادی اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول کریمﷺ کےحرم میں داخل تھیں۔
٭ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آپﷺ کے ہاں ایک خاص مقام حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے بہت سے مقامات پر آپ کو بشارت دی بلکہ آپ کے لیے دعا بھی فرمائی۔
سیدناعرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے میں نے سنا، آپﷺ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا فرمارہے تھے:”اللّٰہُمَّ عَلِّمْ معاویة الَکِتَابَ والْحِسَابَ وَقِه الْعَذَابَ” اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ کوکتاب وحساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچالے۔
تبرکات رسولﷺ:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت آپ کے پاس حضورﷺ کے تبرکات میں سے ازار(تہبند) شریف، ردائے اقدس،قمیص اطہر، موئے مبارک اور ناخن بابرکت کے مقدس تراشے تھے، تبرکات سے برکات حاصل کرنے اور اہل بیت وصحابہ کرام علیہم الرضوان کی خدمت کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ وقت نے سفر زندگی کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کردیا چنانچہ بوقت انتقال وصیت کی کہ مجھے حضورﷺ کے ازار شریف و ردائے اقدس و قمیص اطہرمیں کفن دینا، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخن بابرکت کے تراشے رکھ دینا اور پھر مجھے ارحم الراحمین کے رحم پر چھوڑ دینا۔(تاریخ ابن عساکر)
وصال و مدفن:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا وصال رجب المرجب 60ھ 64 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ صحابی رسولﷺ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، اور آپ کو دمشق کےمقبرہ باب الصغیر میں دفن کیا گیا۔