ہو علم تو پھر کیا نہیں امکاں میں تمہارے!‎

تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
ڈگری اسکالر: جامعہ دارالہدی اسلامیہ، ملاپورم، کیرالا
علم کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں اسلام نے جو اعلیٰ اور جامع تعلیمات دی ہیں، وہ دنیا کے کسی دوسرے مذہب یا فلسفے میں اس طرح نظر نہیں آتیں۔ دین اسلام نے تعلیم و تربیت اور درس و تدریس کو اپنی بنیادوں کا حصہ بنایا ہے۔ یہ اس دین کا لازمی جزو ہے، جس نے انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لایا۔قرآن مجید کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو رب العالمین نے نبی اکرم ﷺ کے قلبِ مبارک پر نازل فرمایا، وہ تھا ”اقرأ” یعنی ”پڑھ”۔ یہی علم کی اہمیت اور فضیلت کو اجاگر کرنے کا اولین اشارہ تھا۔ مزید یہ کہ قرآن کی پہلی پانچ آیات جو وحی کی صورت میں نازل ہوئیں، وہ بھی قلم اور علم کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”اقرأ وربک الأکرم، الذی علّم بالقلم، علّم الإنسان ما لم یعلم“۔ ترجمہ:”پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑاکریم ہے،جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا“۔(ترجمہ کنز الایمان)
اسلام نے ابتدا ہی سے انسان کو یہ درس دیا کہ علم کا حصول اور اس کے ذریعے زندگی کو سنوارنا ہی انسانیت کا اولین فریضہ ہے۔ علم ایک لازوال دولت ہے جو نہ کبھی ختم ہوتی ہے اور نہ کبھی اپنی اہمیت کھوتی ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے اور دنیا کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ علم کے ذریعے ہی بڑے بڑے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ مشکل ترین حالات میں صبر اور حکمت کے ساتھ فیصلے کرنے کی صلاحیت علم کی وجہ سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ دنیا کے کامیاب ترین افراد کی زندگیوں کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز علم ہی میں پوشیدہ تھا۔ علم کے بغیر کوئی بھی انسان کامیابی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ علم انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمیں حسن اخلاق سکھاتا ہے، چھوٹوں پر شفقت کرنے کا درس دیتا ہے، اور محتاجوں کی مدد کے لیے دل میں رحم پیدا کرتا ہے۔ علم دلوں کو نرم کرتا ہے اور انسان کو سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صحیح راہ دکھاتا ہے۔ یہی علم انسانیت کی روح کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعے نوعِ بشر نے ترقی کی راہیں ہموار کی ہیں۔
آج اگر ہم دنیا کے کسی بھی میدان میں کامیابی دیکھتے ہیں، تو وہ علم کے دم سے ہے۔ لہٰذا، علم کی طلب اور اس کے ذریعے دنیا کو سنوارنا ہی انسان کا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہیے۔ علم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی سب سے بڑی نعمت اور سب سے طاقتور تحفہ ہے، جو انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی بلند چوٹیوں پر پہنچاتا ہے۔ یہ وہ گوہرِ نایاب ہے جو انسان کو وقار، بلندی، اور عزت عطا کرتا ہے، اور اس کے ذریعے ہی انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں میں ایک منفرد مقام حاصل کرتا ہے۔دنیا کے وہ ممالک جو آج ترقی کی بلندیوں پر ہیں، ان کی کامیابی کی اصل وجہ علم ہے۔ علم کے بغیر وہ بھی دوسروں کی طرح بے سمت اور بھٹکتے رہتے، ناکامیوں کے سمندر میں ڈوب جاتے اور دوسروں کے محتاج ہوتے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس نے انسان کو عزت، ترقی، اور خود مختاری کا راستہ دکھایا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے انسان کو علم جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی، جس کے ذریعے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کی کامیابیاں بھی ممکن ہوئیں۔
آج کے دور میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا بھی بے حد ضروری ہے، کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے دلوں میں رسول اکرم ﷺ کی محبت موجزن ہے۔ دین اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کی فکر بھی کریں۔ دینی علم کا حصول ہمارے لیے لازم ہے تاکہ ہم اپنے روزمرہ کے معاملات، عقائد، اور عبادات کو صحیح طریقے سے انجام دے سکیں۔ علم ایک ایسی دولت ہے جو ہماری زندگی کا ستون ہے۔ ایک عالم باعمل انسان ہر میدان میں کامیاب ہوتا ہے۔ مشکل ترین راستوں کو بھی علم کی روشنی میں آسانی سے عبور کر لیتا ہے۔ لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور اس کی رحمت سے مدد مانگے۔ علم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر کامیابی اور فتح کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم علم کی اہمیت کو سمجھیں، اسے حاصل کریں، اور اپنی زندگی کو اس کے ذریعے کامیاب بنائیں، تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔
رسول اکرم ﷺ نے علم کی فضیلت اور اہمیت کو امت کے لیے ایک واضح ہدایت کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم“یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس فرمان میں علم دین کا حصول بنیادی طور پر مراد ہے، تاکہ ہمارے عقائد درست ہوں، عبادات بہتر طریقے سے ادا ہوں، اور ہماری زندگی دین کے اصولوں کے مطابق بسر ہو۔ مزید برآں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اطلبوا العلم ولو بالصین“کہ علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین جیسی دور دراز جگہوں پر ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ علم کی جستجو کسی بھی قیمت پر ترک نہ کی جائے۔ علم وہ روشنی ہے جس نے دنیا کو ضلالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت اور روشنی کے راستے پر گامزن کیا۔ اگر اس دنیا میں علم کے چراغ روشن نہ کیے جاتے تو انسانیت تاریکی اور گمراہی کی دلدل میں پھنس جاتی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے انسان کو علم کی دولت سے نوازا اور اس کی قدر و منزلت کو واضح کیا، جس کی بدولت آج انسانیت ہر میدان میں ترقی کرتی نظر آتی ہے۔
خالقِ کائنات نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: ”قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون“ترجمہ: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں (ترجمہ کنز العرفان)۔ یہ آیت مبارکہ علم کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ بلند مرتبہ اور عظیم مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ علم والے لوگ ہی معاشرتی ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں اور دوسروں کو سیدھے راستے کی طرف لے جاتے ہیں، جبکہ علم سے محروم لوگ اکثر اپنی زندگی کے مقصد سے دور اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ علم کے حامل افراد اور علم سے محروم لوگوں کا فرق اسی طرح ہے جیسے چاند کی چاندنی اور سورج کی روشنی، یا زمین اور آسمان کی خصوصیات۔ علم رکھنے والے لوگ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بہتر زندگی کی طرف رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو نیکی، ہدایت، اور ترقی کی جانب لے جاتا ہے۔ لہٰذا، ہر مسلمان کو چاہیے کہ علم کی طلب کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنائے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی محنت اور قربانی کیوں نہ کرنی پڑے۔ علم کی روشنی نہ صرف دنیاوی کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ آخرت کی فلاح و کامیابی کا بھی سبب بنتی ہے۔
جب سے میں نے شعور کی آنکھ کھولی ہے، ایک بات میرے دل و دماغ پر نقش ہے کہ علم وہ قیمتی خزانہ ہے جو دنیا کی ہر طاقت پر غالب ہے۔ علم کی روشنی سے کائنات کے تمام راز عیاں ہوتے ہیں، اور ہر جاندار کی زندگی کا محور علم ہی ہے۔ زندگی کے تمام اصول، خواہ وہ رہنے سہنے کا سلیقہ ہو، بڑوں کی عزت کرنا ہو، والدین کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ ہو، یا دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا ہو، سب کا انحصار علم پر ہے۔ علم نہ صرف ہماری زندگی کو خوبصورت بناتا ہے بلکہ ہمیں اس قابل بھی بناتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھ سکیں اور اس میں اپنی جگہ بنا سکیں۔اگر علم کی دولت سے ہم محروم ہوتے تو ہمارا حال بھی بے زبان حیوانوں کی مانند ہوتا، جو نہ بول سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ علم ہی وہ نعمت ہے جو ہمیں شعور دیتی ہے، اچھے اور برے میں تمیز کا فرق سکھاتی ہے، اور انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔
میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جب سے میں نے علم کی شمع سے روشنی حاصل کی ہے، میری زندگی بدل گئی ہے۔ میرے دل کو روشنی ملی، اچھائی اور برائی میں تمیز کا شعور پیدا ہوا، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نیکیوں کا راستہ اپنانے کا عزم پیدا ہوا۔ مجھے اس علم کے ذریعے غریبوں کی مدد کا جذبہ، یتیموں کا سہارا بننے کا ارادہ، اور مسکینوں کی حاجت پوری کرنے کا شوق ملا۔ اس کے ساتھ ہی اپنے اساتذہ کی عزت کرنے اور پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل میں محفوظ رکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ یہ تمام نعمتیں صرف علم کی بدولت ممکن ہوئیں۔ اگر علم نہ ہوتا تو شاید میں ان تمام خوبیوں سے محروم ہوتا۔ ان شاء اللہ، میں ہمیشہ نیک اعمال میں آگے بڑھنے کی کوشش کروں گا اور علم کی روشنی سے اپنی زندگی کو مزید منور کرنے کی جستجو جاری رکھوں گا۔ علم کی یہ دولت ہمیں دین و دنیا دونوں میں کامیاب بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
میری اس پاک ذات رب ذوالجلال سے بس یہی عاجزانہ دعا ہے کہ وہ میرے دل کو قرآن کریم کی تلاوت کی محبت سے بھر دے اور مجھے دین اسلام کے راستے، یعنی سنت مصطفی ﷺ پر چل کر اپنی زندگی گزارنے کی توفیق اور مدد عطا فرمائے۔ یہ راستہ وہی ہے جو دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ میں اپنی بات کو حکیم الامت علامہ اقبال کے اس دلنشین شعر کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گا:
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا ر ب
علم کی طاقت وہ روشنی ہے جو نا ممکن کو ممکن بنا سکتی ہے۔ علم کی روشنی سے دل و دماغ منور ہوتے ہیں، اور انسان کے لیے ہر مشکل راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو علم کی دولت سے نوازے اور اس کے نور سے ہمارے دلوں کو روشن کرے۔ آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp