پارلیمنٹ عوام کے مسائل حل کرنے کا پلیٹ فارم ہے یا ذاتی مفادات کی جنگ کا اکھاڑہ؟
ترتیب: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ،ملاپورم ،کیرالا
پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری نظامِ حکومت کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ادارہ ہے جو قانون سازی، پالیسی سازی اور حکومت کی نگرانی جیسے اہم فرائض انجام دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی نمائندہ حیثیت ہے، کیونکہ یہ مختلف طبقات، مذاہب اور علاقوں کے افراد کی آواز کو حکومت تک پہنچاتی ہے۔پارلیمنٹ کا بنیادی کام قوانین بنانا اور حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔ یہ ایک ایسا فورم فراہم کرتی ہے جہاں عوامی مسائل پر بحث ہوتی ہے اور ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی بجٹ کی منظوری ہوتی ہے، جس کے تحت ملک کے وسائل کو منظم کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی میں پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہوتا ہے، کیونکہ یہ حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ بناتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ طاقت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام فراہم کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ اقلیتوں کے حقوق، آزادی اظہار، اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ یوں، پارلیمنٹ جمہوریت کی روح سمجھی جاتی ہے۔
لیکن افسوس کہ پارلیمنٹ کے حالیہ سرمائی اجلاس کا اختتام ایسے خطرناک ماحول میں ہوا کہ الفاظ ان کی شدت کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ جمہوریت کا یہ عظیم قلعہ، جو نظریاتی اور عملی آزادی کا محور سمجھا جاتا تھا، اب سیاسی بدعنوانی اور انا کے زخموں سے لہولہان ہے۔ ماضی میں اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی آواز بلند کرتی تھی، لیکن موجودہ وقت میں یہ ذمہ داری بھی حکمراں جماعت نے خود سنبھال لی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے امبیڈکر کے حوالے سے راجیہ سبھا میں دیے گئے توہین آمیز بیان نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ نہ صرف اپوزیشن بلکہ دیگر تمام پارٹیوں نے بھی اس بیان کی سخت مذمت کی ہے اور وزیر داخلہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے بیانات نہ صرف جمہوری اقدار کے خلاف ہیں بلکہ قومی یکجہتی کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امت شاہ کو اپنے بیان پر معافی مانگ کر معاملہ ختم کرنا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو ترجیح دی۔ حکمراں جماعت کے اراکین کو اپوزیشن کے خلاف کھڑا کر دیا ، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا ماحول مزید خراب ہوگیا اور بات جھگڑے تک پہنچ گئی۔یہ تمام واقعات جمہوری روایات کے لیے باعث شرم ہے اور اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ سیاسی مفادات جمہوری قدروں پر حاوی ہو چکے ہیں۔ عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا پارلیمنٹ عوام کے مسائل حل کرنے کا پلیٹ فارم ہے یا ذاتی مفادات کی جنگ کا اکھاڑہ؟۔
19دسمبر کو ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جب کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران امبیڈکر کی مورتی سے نئی پارلیمنٹ کے صدر دروازے کی طرف احتجاجی مارچ کر رہے تھے۔ اس دوران بی جے پی کے ارکان نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں دھکا مکی اور ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اس جھڑپ کے دوران بی جے پی کے دو ارکان کو معمولی خراشیں آئیں، لیکن اسے غیر ضروری طور پر ایک بڑے مسئلے میں تبدیل کر دیا گیا۔ معمولی چوٹوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہوئے ان ممبران کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا، جہاں مرکزی وزراء ان کی عیادت کے لیے مسلسل پہنچتے رہے۔ اس پورے معاملے کو نہ صرف سیاسی رنگ دیا گیا بلکہ راہل گاندھی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانے میں باقاعدہ ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ حیران کن طور پر اس ایف آئی آر میں اقدام قتل جیسی سنگین دفعات شامل کی گئیں، جو سراسر بے بنیاد معلوم ہوتی ہیں۔بی جے پی کی ایک خاتون ممبر نے بھی راہل گاندھی پر اوچھے الزامات لگا کر ان کے خلاف محاذ کھولنے کی کوشش کی ہے۔ یہ الزامات نہ صرف اخلاقی گراوٹ کی عکاسی کرتی ہے بلکہ سیاسی رقابت کو ذاتی حملوں تک لے جانے کا واضح ثبوت ہے۔ معاملے کو کرائم برانچ کے سپرد کیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحقیقات غیر جانبدار ہوں گی یا پھر وزیر داخلہ امت شاہ کی قیادت والی دہلی پولیس مزید سیاسی کھیل کھیلے گی؟
یہ تمام حالات جمہوری نظام کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہیں، جہاں معمولی واقعات کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے اقدامات نہ صرف اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش ہیں بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کھیل کب ختم ہوگا اور کیا انصاف کا بول بالا ہو سکے گا؟پارلیمنٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی معاملے کو تھانے تک لے جایا گیا، اور یہ حقیقت جمہوری نظام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال اسی نئی پارلیمنٹ کے دروازے پر پیش آئی، جسے مودی سرکار نے بڑے دعوؤں کے ساتھ تعمیر کیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ یہ عمارت نہ صرف پارلیمانی جمہوریت کو نیا رخ دے گی بلکہ اسے ایک ایسی مضبوط بنیاد فراہم کرے گی جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوگی۔2014 میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر جھک کر اس کی تعظیم کی اور جمہوریت کے وقار کو بلند کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے عوام کو امید دی کہ پارلیمانی اقدار اور جمہوری روایات کو ایک نیا عروج ملے گا۔ لیکن آج، حالات اس کے بالکل برعکس نظر آ رہے ہیں۔
نئی پارلیمنٹ، جو بلند و بانگ دعوؤں کی علامت تھی، اب سیاسی کھینچا تانی اور ذاتی مفادات کی جنگ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس عرصے میں پارلیمنٹ کا وقار بڑھنے کے بجائے مسلسل مجروح ہوا ہے۔ وہ ایوان، جو عوامی مسائل کے حل کا پلیٹ فارم تھا، اب الزام تراشی، ہنگامہ آرائی، اور سیاسی انتقام کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔یہ سوال ہر باشعور شہری کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ جمہوریت کے اس قلعے کو کیا واقعی اس کا وقار واپس مل سکے گا؟ کیا وہ وعدے، جو 2014 میں کیے گئے تھے، کبھی حقیقت کا روپ دھار سکیں گے؟ یا پھر یہ عمارت محض ایک یادگار بن کر رہ جائے گی، جہاں جمہوریت کے خواب دم توڑتے رہیں گے؟
اس زوال پذیر جمہوریت کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار راجیہ سبھا کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ ان پر اپوزیشن ارکان کو نظرانداز کرنے اور ایک پارٹی کے نمائندے کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حالانکہ یہ تحریک ناکام رہی، لیکن اس کے ذریعے جو سنگین سوالات اٹھائے گئے، وہ آج بھی جواب طلب ہیں۔یہ بھی قابل غور ہے کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین یا وزیر اعظم مودی کے ایوان میں داخل ہوتے وقت بی جے پی ارکان زور زور سے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ پارلیمنٹ کو ہمیشہ جمہوریت کا عظیم قلعہ کہا گیا ہے، نہ کہ کسی مخصوص مذہب کی علامت۔ لیکن آج، اس قلعے میں مذہبی نعروں کا شور سنائی دیتا ہے، جو نہ صرف جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ پارلیمنٹ کی غیرجانبداری کو بھی مشکوک بناتا ہے۔
یہ تبدیلیاں اس بات کی غماز ہیں کہ پارلیمنٹ اب نظریات کی جنگ کا میدان کم اور طاقت کی نمائش کا اکھاڑہ زیادہ بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس زوال کو روکنے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں؟ کیا پارلیمنٹ اپنی اصل روح کو بحال کر سکتی ہے؟ یا پھر یہ ادارہ رفتہ رفتہ صرف ایک یادگار بن کر رہ جائے گا؟ اس بار پارلیمنٹ کا اجلاس جب شروع ہوا تو ایک ہلکی سی امید جاگی تھی کہ ہمارے سیکولر اور جمہوری آئین کے متعلق کوئی سنجیدہ اور کارگر بحث ہوگی۔ وجہ یہ تھی کہ ہم آئین کے نفاذ کی پچھترویں سالگرہ منا رہے تھے۔ توقع تھی کہ یہ موقع ملک کی جمہوری بنیادوں کو مستحکم کرنے اور آئین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ دونوں ایوانوں میں آئین پر بحث تو ہوئی، اور مختلف پارٹیوں نے اپنی رائے پیش کی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بحث کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔
اپوزیشن نے حکومت پر آئین کو مجروح کرنے کے الزامات لگائے، تو بی جے پی ارکان نے کانگریس کو نشانہ بنایا۔ حسب روایت، بحث کا رخ ایک بار پھر پنڈت جواہر لال نہرو کی طرف مڑ گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، کیونکہ بی جے پی کی سیاست کا بڑا حصہ کانگریس پر حملوں اور ماضی کے رہنماؤں پر تنقید پر مبنی ہے۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آئین پر ہونے والی اس بحث کو محض الزام تراشی کا میدان بنا دیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اس موضوع پر کوئی ٹھوس جواب یا ویژن نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ہمارے آئین کے کئی اصولوں سے اختلاف رکھتی ہے۔ یہ آئین جس کی بنیاد سیکولرازم، سوشلزم، مساوات، اور جمہوریت پر رکھی گئی ہے، ایک ایسے سماج کی ضمانت دیتا ہے جہاں ہر شہری کو برابری کے مواقع اور انصاف فراہم کیا جائے۔ لیکن حکومت کا ایجنڈا ان اصولوں کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ وہ آئین میں بھاری رد و بدل کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ ملک کے جمہوری ڈھانچے کو مکمل طور پر تبدیل کیا جا سکے۔
آج، ایک زبان، ایک مذہب، اور ایک کلچر کی اجارہ داری قائم کرنے کا مشن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس ایجنڈے کے تحت ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو سماجی اور ثقافتی طور پر بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ان کی تہذیب، تاریخ، اور عبادت گاہیں مسلسل حملوں کی زد میں ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے بلکہ اس ملک کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہے۔یہاں تک کہ عدلیہ جیسے ادارے بھی متنازع بیانات دینے لگے ہیں، جن میں اقلیتوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ عدلیہ کے بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک کو اکثریتی نظریات کے مطابق چلنا چاہیے، اور اقلیتوں کو اپنے وجود کے لیے جگہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ صورتحال آئینی جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، اور یہ سوال ہر محب وطن کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا ہم اپنی سیکولر بنیادوں کو بچا پائیں گے؟ یا پھر یہ ملک ایک ایسے راستے پر چل پڑے گا جہاں مساوات، انصاف، اور ہم آہنگی محض کتابوں کا حصہ بن کر رہ جائیں گی؟
اطمینان کی ایک بات یہ ہے کہ آئین پر ہونے والی بحث کے دوران کچھ ایسی تقریریں سننے کو ملیں جو برسوں سے مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتی رہی تھیں۔ ان میں ایک قابل ذکر تقریر سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کی ہے، جو لوک سبھا میں کی گئی۔ یہ تقریر کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ اکھلیش یادو گزشتہ کچھ برسوں سے مسلمانوں سے سیاسی فاصلہ بنائے ہوئے تھے، شاید اس خوف سے کہ کہیں ان پر مسلمانوں کی خوشامد کا الزام نہ لگ جائے۔ تاہم، 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کی زبردست حمایت کے باعث سماج وادی پارٹی کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، اور یہ سیاسی حقیقت اکھلیش یادو کے لہجے اور رویے میں واضح تبدیلی کا باعث بنی۔ اس کی ایک جھلک حالیہ دنوں میں ان کی سنبھل معاملے پر سرگرمیوں میں بھی نظر آئی، جہاں انہوں نے مسلمانوں کے حق میں واضح موقف اختیار کیا۔
اکھلیش یادو نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس ملک میں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ ان کے یہ الفاظ نہ صرف حقیقت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس حقیقت کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ ہندوستان میں آئینی اصولوں کے برعکس ایک مخصوص طبقے کو سماجی، سیاسی، اور ثقافتی طور پر پسماندہ کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ بیان اس وقت اور بھی زیادہ معنی رکھتا ہے جب سیاسی رہنما ایسے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، خاص طور پر انتخابات کے قریب۔ اکھلیش یادو کی یہ جرات مندانہ تقریر ان کے سیاسی کردار میں ایک مثبت پہلو کا اضافہ کرتی ہے، اور یہ امید پیدا کرتی ہے کہ شاید ہندوستانی سیاست میں اقلیتوں کے مسائل پر کھل کر بات کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو۔ مسلمانوں کے مسائل پر اکھلیش یادو کی یہ گفتگو ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور ان کے مسائل کو قومی ایجنڈے سے دور رکھا جا رہا ہے۔ یہ تقریر نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک امید کی کرن ہے بلکہ دیگر رہنماؤں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ حق بات کہنے سے سیاسی ساکھ متاثر نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے۔
اکھلیش یادو نے اپنی تقریر میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کو کھل کر بیان کیا اور حکومت پر سنگین الزامات عائد کیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’آئین کو بچانے کے لیے ہمیں دوبارہ ’کرو یا مرو‘ کا نعرہ اپنانے کی ضرورت ہے، جو 1942 کی بھارت چھوڑو تحریک کے دوران وجود میں آیا تھا۔‘‘ انھوں نے حکومت پر اقلیتوں کو منظم انداز میں نظرانداز کرنے اور ان پر مظالم ڈھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اقلیتوں کی جائیدادوں کو لوٹا جا رہا ہے، ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، اور ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ حکومت اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے، اور اقلیتوں کے لیے زندگی گزارنا دن بہ دن دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ اکھلیش یادو نے مزید کہا کہ ’’ یہاں تک کہ اقلیتوں کو ان کے جمہوری حق، یعنی ووٹ دینے کے حق سے بھی محروم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘ یہ الزام خاص طور پر قابل غور ہے، کیونکہ ووٹ دینے کا حق ہندوستانی جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ اگر کسی طبقے کو اس حق سے محروم کیا جاتا ہے، تو یہ جمہوری اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہ بیانات ایک ایسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں جسے حکومت اکثر نظرانداز کرتی ہے۔ اقلیتوں کی جائیدادوں اور عبادت گاہوں پر قبضے جیسے معاملات نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہیں بلکہ ایک جمہوری ملک کے لیے بدنامی کا باعث بھی ہیں۔ اکھلیش یادو کا یہ موقف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئین اور اقلیتوں کے حقوق کو بچانے کے لیے ہمیں اپنی جدوجہد کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ ان کی تقریر ایک بیدار قوم کے لیے پیغام ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اپنے مخصوص انداز میں حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور مسلمانوں کے حقوق سے متعلق اہم نکات پیش کیے۔ انھوں نے ہندوستانی آئین کی دفعات 26 اور 29 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان دفعات میں مذہب اور زبان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ دفعہ 26 ہر مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور آزادانہ طور پر انھیں چلانے کا حق دیتی ہے، جبکہ دفعہ 29 زبان، رسم و رواج اور ثقافتی شناخت کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ اویسی نے کہا کہ موجودہ حکومت اقلیتوں کی ان آئینی ضمانتوں کو نظرانداز کر رہی ہے اور اقلیتی شناخت کی حامل چیزوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے مساجد، وقف بورڈ، اردو زبان اور مسلم ثقافت کے تحفظ پر زور دیا اور کہا کہ ان سب کو دانستہ خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ حکومتی رویہ اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے اور ان کے آئینی حقوق کو پامال کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔
اویسی نے حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ مسلمانوں کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلمانوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں، تاکہ وہ انتخاب نہ لڑ سکیں اور نہ ہی جیت سکیں۔‘‘ یہ الزام نہ صرف اقلیتوں کے سیاسی حقوق کے خلاف ایک سنگین خطرہ ہے بلکہ جمہوری نظام کے بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ آئین سچا اور مضبوط ہے، لیکن حکمراں طبقہ اسے نافذ کرنے کے بجائے اس کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔ اویسی نے کہا کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے مزید بیدار ہونا ہوگا اور جمہوری عمل میں مضبوطی سے اپنی موجودگی درج کرانی ہوگی۔ بیرسٹر اویسی کی تقریر اقلیتوں کے لیے ایک امید کی کرن تھی، جو ان کے آئینی حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے جو جمہوریت اور آئین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
گزشتہ دس برسوں میں پہلی بار پارلیمنٹ میں مسلم مسائل کو اتنی شدت اور سنجیدگی کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔ یہ یقیناً مسلمانوں کے لیے ایک حوصلہ افزا لمحہ ہے، کیونکہ وہ طویل عرصے سے یہ محسوس کر رہے تھے کہ سیکولر پارٹیاں ان کے ووٹ تو حاصل کرتی ہیں، لیکن ان کے مسائل سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ حکومت نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے اور ان کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ اس مہم کے تحت ان کی ثقافت، تعلیم، اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی تاکہ انھیں بے یار و مددگار بنایا جا سکے۔ مسلمانوں کے حقوق کے خلاف جاری اس حکمت عملی کے باوجود، حکومت مسلمانوں کو مکمل طور پر ناکارہ بنانے میں ناکام رہی۔ ان کے عزم اور جمہوری نظام میں ان کی شراکت داری نے انھیں اب بھی سماجی اور سیاسی میدان میں ایک مضبوط قوت بنائے رکھا ہے۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جانب سے مسلم مسائل کو اجاگر کرنا ایک خوش آئند قدم ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم برادری کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور انھیں ملکی ترقی کے عمل سے الگ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ آواز نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اہم ہے بلکہ ہندوستان کی جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ وقت مسلمانوں کے لیے اپنی شناخت اور حقوق کے تحفظ کے لیے مزید بیدار ہونے کا ہے۔ پارلیمنٹ میں اٹھنے والی یہ آواز ان کے لیے نہ صرف ایک فال نیک ہے بلکہ ان کے حوصلے کو تقویت دینے کا ذریعہ بھی ہے۔