کیا دوسرے مذہب کا نعرہ لگانا محب وطن ہونے کی شناخت ہے ؟
محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ،ملاپورم ،کیرالا
مدھیہ پردیش کے رتلام شہر سے ہندوتوا کی مسلم دشمنی کا ایک انتہائی ظالمانہ واقعہ سامنے آیا ہے، جس کی ویڈیو نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ اس واقعے میں کچھ ہندو نوجوان تین چھوٹے مسلمان بچوں کو گھیرا ڈال کر بے دردی سے مار تے ہیں اور انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگائیں۔ یہ سانحہ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب مجرم کی عمر پر نظر ڈالی جائے، کیونکہ وہ خود بھی کوئی بڑے لوگ نہیں بلکہ نوجوان ہیں۔ یہ بات اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ہندو معاشرے کے بچوں اور نوجوانوں میں مسلم دشمنی ایک خطرناک حد تک سرایت کر چکی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف انسانی اقدار کے لیے ایک لمحہ فکرہے بلکہ یہ سوال بھی پیدا کرتا ہے کہ آخر کب تک معصوم بچوں کو اس قسم کے نفرت انگیز حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اور کب تک ہمارے اس ملک کی عظمت کو کھٹانے کو شش کی جائیگی ؟یہ رویہ نہ صرف ملک کے سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔میری حساب سے اس کے ۵ بنیادی اسباب ہیں:-
۱: مسلم مخالف بیان بازی اور سیاست میں حکومتی عہدداران کی مداخلت بھارت میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا اہم سبب ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ، اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، اور آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما جیسے اعلیٰ حکومتی عہدداروں کے بیانات اور مسلم مخالف سیاست کے رجحانات نے سماج میں تقسیم کو ہوا دی ہے۔ ان کے بیانات اکثر عوام کو اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کے خلاف بھڑکاتے ہیں، جس کے نتیجے میں فرقہ واریت اور نفرت کے ماحول کو تقویت ملتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر پولیس اور انتظامیہ پر پڑتا ہے جو ایسے واقعات کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ حکومتی سرپرستی کے زیرِ اثر نفرت پھیلانے والے گروہ آزادی کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں، جبکہ قانونی ادارے ان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں نہ صرف اقلیتوں کے تحفظ پر سوالات اٹھتے ہیں بلکہ بھارت کے سیکولر نظام پر بھی گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بھارت کی سما جی ہم آہنگی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے کیوں کہ اس ملک کے ہندوؤں کا دعوا ہے کہ جو شری رام کا نعرہ لگاتا ہے اور لگائیگاوہ ہی اصل ہندوستانی ہے جو نہایت بے ہودہ حرکت ہے اور قابلِ مذمت بھی ہے ۔
۲: سنگھ پریوار، ہندوتوا بریگیڈ اور گودی میڈیا نے مسلم مخالف مہمات کو ایک منظم طریقے سے فروغ دیا ہے۔ ان کے شب و روز کا محور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا، جھوٹے بیانیے گھڑنا، اور معاشرتی تفریق کو ہوا دینا بن چکا ہے۔ نفرت انگیز بیانات اور پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ عناصر اپنی انتقامی نفسیات کے تحت مسلمانوں کو معاشرتی، سیاسی، اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ گودی میڈیا اپنی متعصب رپورٹنگ کے ذریعے عوامی رائے کو مسلم مخالف بنانے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ ہندوتوا بریگیڈ اور سنگھ پریوار اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نفرت اور اشتعال کو عام کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف یہ منفی رویہ نہ صرف سماجی توازن کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ قومی اتحاد کے لیے بھی خطرہ ہے۔ نفرت پر مبنی اس سیاست کا مقصد ایک مخصوص نظریے کو مسلط کرنا اور اقلیتوں کو خوف زدہ کرنا ہے، جو ایک جمہوری معاشرے کی روح کے خلاف ہے۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے عوامی شعور اور قانونی کارروائی ناگزیر ہے۔
۳: ہندو سماج میں مسلم مخالف ہندوتوادی نظریات کی بڑھتی ہوئی لہر پر ہندو دھرم گروؤں، پنڈتوں اور مذہبی رہنماؤں کی خاموشی ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ ہندو معاشرہ جو کبھی مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا مظہر تھا، آج مسلم دشمنی کے زہر میں ڈوبتا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے، انہیں اذیت دینے اور نفرت کی بنیاد پر سکون حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، لیکن اس کے خلاف ہندو دھرم گروؤں کی جانب سے کوئی قابل ذکر مزاحمت نظر نہیں آتی۔ ہندو مذہبی رہنما، جو سماج کے اخلاقی معمار سمجھے جاتے ہیں، ان نفرت انگیز رویوں پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ خاموشی نہ صرف سماجی بگاڑ کو تقویت دے رہی ہے بلکہ ہندو مذہب کو بھی شدت پسند سیاسی نظریات کے زیر اثر لا رہی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس جیسے تنظیمیں ہندو مذہب کو مسلم دشمنی کی بنیاد پر استوار کر رہی ہیں، لیکن دھرم گرو اس خطرناک تبدیلی پر کوئی آواز بلند نہیں کر رہے ہیں۔
ہندو دھرم گروؤں کا یہ رویہ مذہبی تاریخ میں ایک شرمناک مثال بنتا جا رہا ہے۔ انہیں چاہیے کہ ہندو معاشرے میں نفرت کے اس زہر کے خلاف کھڑے ہوں اور مذہب کے حقیقی اصولوں، یعنی امن، بھائی چارے اور انصاف کی تبلیغ کریں۔ اگر وہ اسی طرح خاموش رہے تو ہندو سماج اپنی روحانی بنیادیں کھو دے گا اور نفرت پر مبنی سیاست کا غلام بن جائے گا۔
۴:مسلم قیادت اور ہندوستان کے سیکولر ہندو سیاستدانوں کے درمیان ایک سنگین مسئلہ سامنے آیا ہے، جس میں مسلم قیادت، مسلم کمیونٹی کے حقوق کے دفاع میں کمزوری دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں، ہندوتوا کی شدت پسندی اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کا تسلسل جاری ہے، مگر مسلم قیادت کی جانب سے ان حملوں کے جواب میں کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں اپنائی گئی ہے ۔ سیکولر ہندو سیاستدانوں کا رویہ بھی اتنا ہی متنازعہ ہے کیونکہ وہ اس حساس مسئلے پر خاموش رہ کر ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے اثرات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ ہندوتوا کی حمایت کرنے والی بھیڑیں، جو کہ دراصل حکومت کی طاقت کے نشے میں بدمعاشی کر رہے ہیں، مسلمانوں کو کمزور اور بے دفاع سمجھ کر ان پر حملے کر رہے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد مسلمانوں میں خوف اور غیرت کی کمی پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھا سکیں۔ ان حملوں کے بعد مسلم قیادت کی جانب سے جو ردعمل آتا ہے، وہ محض رسمی اور لفظوں تک محدود ہوتا ہے۔ اس سے نہ تو ہندوتوا کی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونے کی جرات پیدا کی جا سکتی ہے۔
مسلم قیادت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ مسلمانوں میں قانون کے تحت ’’سیلف ڈیفنس‘‘ کی تربیت فراہم کریں اور انہیں اپنے دفاع کے لئے تیار کریں تو یہ ہندوتوا کی شدت پسندی کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں میں مقابلے کی ہمت پیدا کرنی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرسکیں اور ان کی عزت نفس محفوظ رہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والی دہائیوں میں مسلمانوں کی تعداد میں کمی آ سکتی ہے اور وہ ہندو بننے پر مجبور ہو سکتے ہیں، کیونکہ جب تک ایک فرد یا گروہ اپنی عزت اور حقوق کے لیے کھڑا نہ ہو، وہ دوسروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن جاتا ہے۔
مسلمانوں میں اس جذبے کو بیدار کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلم قیادت اس بات کا شعور دے کہ مار کھانا صرف ذلت کا باعث نہیں، بلکہ یہ ان کے وجود اور آزادی کے خلاف سازشوں کی اجازت دینا ہے۔ اگر مسلمانوں نے خود کو مضبوط نہیں کیا، تو ان کے لیے سیاسی اور سماجی میدان میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے مسلم قیادت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی حقوق کے لیے لڑنے کی تربیت دے تاکہ وہ ہندوتوا کی اس طاقت کو چیلنج کر سکیں۔
۵: مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کا بڑھنا ایک خطرناک مسئلہ بن چکا ہے، اور اس پر نہ تو عدالتیں، نہ پولیس، اور نہ ہی انتظامیہ کسی سنجیدہ کوشش میں نظر آتی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور گناہوں کے معاملے میں ہندو طبقہ بے قابو اور بے پرواہ ہوتا جا رہا ہے، اور اس پر نہ کوئی سزا کا خوف ہے نہ احتساب کا عمل نظر آتا ہے۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جہاں ان کے حقوق کی پامالی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔مساجد اور درگاہوں میں مندروں کی کھدائی جیسے دعوے اب معمول بن چکے ہیں،اور ان دعووں کی سیاسی سطح پر حمایت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں شاہی جامع مسجدسنبھل اور اجمیر شریف کا سانحہ ہمارے سامنے ہے ۔ اعلیٰ سیاسی قیادت کی سرپرستی نے ان دعووں کو تقویت دی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ، ماب لنچنگ جیسے واقعات میں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے، لیکن ان قاتلوں کو کسی قسم کی سزا نہیں مل رہی۔ یہ حالات نہ صرف مسلمانوں کے لیے خوفناک ہیں بلکہ یہ ایک منظم حملے کی نشاندہی کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال اس نفرت انگیز مہم کو مزید بڑھا رہا ہے۔ ’’ہندو دھرم یُدھ‘‘ جیسے نعرے اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ نفرت کی لہر کو مزید ہوا دی جا رہی ہے۔ ان تمام واقعات کی موجودگی میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس نفرت کی سیاست کو روکا جا سکے۔نریندر مودی، امیت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور دیگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں نفرت پھیلانے والے عناصر کی باضابطہ حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ روز بروز سنگھ پریوار کے نفرتی کارکنوں اور ہندوتوا کے علمبرداروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان حکومتوں کی پالیسیوں اور تقاریر نے نفرت کو جڑ پکڑنے میں مدد دی ہے، جس کے نتیجے میں کئی ہندو بچے بھی اب مسلم دشمنی کو اپنے فخر اور کامیابی کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔ ان افراد کو ایسی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ ہندوتوادی سرگرمیوں اور مسلم مخالف حملوں کو اپنی کامیابی کی علامت سمجھتے ہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ، ہندوستان کی عدالتیں بھی ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہیں، جس سے یہ لوگ بے خوف ہو کر اپنے نفرت پھیلانے کے ایجنڈے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نتیش رانے، ٹی۔راجا، کاجل ہندوستانی، سریش چوہانکے، سنجے دجشت، اجیت بھارتی، ایم۔آر سِنہا جیسے ہندوتوادی لیڈران مسلسل مسلم مخالف بیان بازی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ تقریباً گیارہ سال سے اس نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی سخت قانونی کارروائی یا قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔ان افراد کی سرگرمیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ ایک عام ہندو نوجوان بھی ان سے متاثر ہو کر مسلم دشمنی کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہندوستان بھر میں مسلم مخالف واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حالات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اگر حکومت اور عدالتیں اس نفرت کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہیں اٹھاتی ہیں، تو یہ صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔
اگر مسلمانوں نے آئینی اور جمہوری طریقے سے ہندوتوادی نفرت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہ کی تو پورا ملک مسلم دشمن وارداتوں کا مرکز بن جائے گا۔ آج جو لوگ خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں، انہیں بھی ایک دن اپنی حفاظت کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہوگا۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہندو نسلیں مسلم دشمنی اور نفرت کے نظریات کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہیں۔ اس نفرت کا اثر اتنا گہرا ہے کہ یہ نوجوان نسلیں مسلمانوں کے خلاف جنون کی حد تک پہنچ کر غیر انسانی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتی ہیں۔
نفرت کا یہ نشہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ جو آج اس کا شکار ہیں، وہ کل اتنے بے قابو اور جنونی ہو جائیں گے کہ خود حکومتیں بھی انہیں قابو نہیں کر پائے گی۔ مودی، امیت شاہ اور آر ایس ایس جیسے لوگ بھی اس پھیلتی ہوئی نفرت کو روکنے میں ناکام ہو سکتے ہیں، کیونکہ نفرت کا ایک سونامی پیدا ہو چکا ہوگا جس کی شدت بہت زیادہ ہوگی۔ ایسی صورتحال میں، مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جمہوری طریقوں اور آئینی اصولوں کو اپناتے ہوئے اس بڑھتی ہوئی نفرت کا مقابلہ کریں، تاکہ ملک میں امن، ہم آہنگی اور بھائی چارے کا ماحول قائم رہے۔ اگر مسلم کمیونٹی اس وقت نہیں جاگتی ہے اور ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت نفرت کے اس سیلاب کا مقابلہ نہیں کرتی ہے تو اس کے نتائج پورے ملک کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔