عدلیہ سے سیاست تک: ناانصافی اور بقا کی جنگ
سید واصف اقبال گیلانی
بہار شریف، نالندہ
ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ حالت نہ صرف ایک سیاسی مسئلہ ہے بلکہ اس کے گہرے سماجی اور قانونی پہلو بھی ہیں، جو ملک کے بقا پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔ تاریخی طور پر، مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی کے ذریعے ثقافت، علم، اور تعمیرات میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آزادی کے بعد، آئین نے اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی، لیکن عملی میدان میں مسلمانوں کو مسلسل مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
بابری مسجد کیس کا فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کیسے عدالتی نظام اقلیتوں کے لیے غیر منصفانہ ہو سکتا ہے۔ جسٹس آر ایف ناریمن جیسے سابق جج نے اس فیصلے کو “انصاف کا مذاق” قرار دیا اور اس پر تنقید کی کہ مسلمانوں کے حق میں شواہد ہونے کے باوجود زمین ہندو فریق کو دی گئی۔ اس کے علاوہ، مسجد کی جگہ دوسری جگہ زمین دینے کو بھی ایک غیر متوازن حل قرار دیا گیا، جو مسلمانوں کے جذبات اور ان کے آئینی حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے۔
یہ معاملہ صرف ایک عدالتی فیصلے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں مذہبی تنازعات نے جنم لیا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی پالیسیاں، جن میں اقلیتوں کو خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، نے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔ لنچنگ، طلبہ پر تشدد، مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، اور مساجد کی بے حرمتی جیسے واقعات نہ صرف مسلمانوں کی حالت زار کو واضح کرتے ہیں بلکہ ہندوستان کی فرقہ وارانہ سیاست کی سنگینی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
جج شیکھر یادو کا اک اجلاس میں دیا گیا بیان عدلیہ کی غیرجانبداری پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ ان کے متنازعہ ریمارکس، جن میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی گئی، واضح کرتے ہیں کہ عدالتی نظام میں تعصب کتنا گہرا ہے۔ جج کے اس بیان نے عدلیہ کی غیرجانبداری اور سیکولرزم کے اصولوں کو متاثر کیا ہے، جو کہ ہندوستانی آئین کا بنیادی حصہ ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو انصاف اور مساوات کی ضرورت ہے، ایسے بیانات نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں بلکہ فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ رویہ عدلیہ میں موجود ان مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو اقلیتوں کے اعتماد کو کمزور کرتے ہیں اور انصاف کے نظام کو مشکوک بناتے ہیں۔
سمبھل مسجد کے واقعے نے نہ صرف پولیس فورس کی بے رحمی کو بے نقاب کیا بلکہ یہ بھی ظاہر کیا کہ کس طرح مسلمانوں کے خلاف تعصب ہر ادارے میں سرایت کر چکا ہے۔ اس واقعے میں پولیس نے مسجد میں داخل ہو کر نہ صرف عبادت گاہ کی بے حرمتی کی بلکہ مسلمانوں کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اب نظام کا حصہ بن چکا ہے۔
یہ رویہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں تک محدود نہیں بلکہ عدلیہ، تعلیمی اداروں، میڈیا، اور دیگر اہم شعبوں میں بھی مسلم مخالف تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔ پولیس کے اس قسم کے اقدامات نہ صرف آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ مذہبی آزادی پر براہِ راست حملہ ہیں۔
مسلمانوں کو مجرم کے طور پر پیش کرنا اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد انہیں خوفزدہ کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کو دبانا ہے۔ سمبھل مسجد کا واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمانوں کو اب اپنے حقوق اور وقار کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر مضبوط حکمت عملی اپنانا ہوگی، ورنہ یہ ظلم اور جبر کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اتر پردیش میں ایک تاریخی مسجد کو انہی حالات میں مسمار کیا گیا جب کیس ابھی نچلی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ یہ کارروائی ایک سڑک کی توسیع کے منصوبے کے تحت کی گئی، جس کا مقصد مسجد کو مکمل طور پر مسمار کرنا تھا۔ یہ عمل نہ صرف عدلیہ کی موجودہ کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، بلکہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے حوالے سے بھی سنگین تشویش کا باعث بن چکا ہے۔
مسجد کو مسمار کرنے کا یہ واقعہ ایک اور گہرے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے، جہاں حکومتی منصوبے اور عدلیہ کے فیصلوں کا اثر مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پڑ رہا ہے۔ جب کیس ابھی عدالت میں چل رہا تھا اور مسجد کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی تھا، تو اس طرح کا غیر قانونی عمل اور جابرانہ قدم ایک تشویش ناک علامت ہے کہ کس طرح مذہبی اقلیتوں کو جان بوجھ کر ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس واقعے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مسلمان صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ عدالتوں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس طرح کے اقدام سے باز آنا ہوگا اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔
ایسے میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانونی، سماجی، اور سیاسی سطح پر اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے منظم ہوں، تاکہ ان کے وجود اور ان کی شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔
مسلمانوں کی ہندوستانی تاریخ ایک عظیم تہذیبی اور سیاسی ورثے کی حامل ہے، جس نے صدیوں تک برصغیر کو نہ صرف حکومت بلکہ علم و فن کی روشنی سے بھی منور کیا۔ مغل سلطنت کے عروج کے دوران ہندوستان دنیا کا ایک عظیم علمی و ثقافتی مرکز بن گیا تھا، جہاں معاشی خوشحالی، تعمیراتی شاہکار، اور علمی ترقی نے ایک سنہری دور کی بنیاد رکھی۔ تاج محل، قطب مینار، لال قلعہ، اور فتح پور سیکری جیسی یادگاریں نہ صرف فن تعمیر کا شاہکار ہیں بلکہ ان کے ذریعے تہذیب و تمدن کے اعلیٰ معیار کا اظہار ہوتا ہے۔
علم و ادب کے میدان میں مسلمانوں نے نہایت قابل قدر کام کیا، جس میں فارسی اور اردو زبانوں کو فروغ ملا اور ہندوستانی ثقافت کو گہرائی ملی۔ مسلمانوں نے نہ صرف علمی ادارے قائم کیے بلکہ زراعت، تجارت، اور صنعت و حرفت میں بھی اہم خدمات انجام دیں، جس سے برصغیر عالمی معیشت کا ایک اہم مرکز بن گیا۔
آزادی کے بعد، اگرچہ مسلمانوں کو آئین کے تحت مساوی حقوق دیے گئے، لیکن عملی طور پر ان کی حالت زار مختلف رہی۔ سیاسی اقتدار سے محرومی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی، اور سماجی تفریق نے مسلمانوں کو ایک کمزور طبقے میں تبدیل کر دیا۔ سیاسی جماعتوں نے انہیں صرف ووٹ بینک کی حد تک محدود رکھا، اور ان کی ترقی کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی جیسی تنظیموں کی فرقہ وارانہ سیاست نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ پروان چڑھایا۔ لنچنگ، مساجد کی بے حرمتی، اور تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک نے مسلمانوں کے سماجی حالات کو مزید خراب کر دیا۔ ان کے خلاف یہ اقدامات نہ صرف انفرادی نقصان کا باعث بنے بلکہ ہندوستان کی جمہوری شناخت اور سیکولر اصولوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
مسلمانوں کی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ان کی شناخت، حقوق، اور مساوات کے لیے مؤثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ تاریخی شعور مسلمانوں کو موجودہ حالات میں مضبوط بننے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم فراہم کر سکتا ہے۔
بابری مسجد کیس ہندوستان کی عدلیہ، سیاست، اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے ملک کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچے کو چیلنج کیا۔ 2019 میں سنایا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ، جس میں زمین ہندو فریق کو دی گئی، نہ صرف مسلمانوں کے لیے مایوس کن ثابت ہوا بلکہ ہندوستان کے عدالتی نظام پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔
فیصلے میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا کہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت غیر قانونی اور مجرمانہ عمل تھا۔ اس کے باوجود زمین کا فیصلہ ہندو فریق کے حق میں کیا گیا، حالانکہ مسلمانوں کے پاس مضبوط شواہد موجود تھے۔ سابق جج جسٹس آر ایف ناریمن نے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے “انصاف کا مذاق” قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ہندوستان کے سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق، متبادل زمین کی پیشکش ایک ناکافی اور غیر منصفانہ حل تھا، جو مسلمانوں کے آئینی حقوق کے تحفظ میں ناکام رہا۔
بابری مسجد کیس کا فیصلہ ہندوستانی آئین کے بنیادی سیکولر اصولوں کے منافی نظر آتا ہے۔ آئین کی دفعہ 14 تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور انصاف کی ضمانت دیتی ہے، جبکہ دفعہ 25 مذہبی آزادی کو یقینی بناتی ہے۔ اس کیس میں، مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا، جو ایک اقلیتی طبقے کے لیے خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔
“مقامات عبادت ایکٹ 1991” کے تحت مذہبی مقامات کی 1947 کی حالت کو برقرار رکھنے کا عہد کیا گیا تھا، تاکہ اس قسم کے تنازعات کو روکا جا سکے۔ تاہم، اس ایکٹ کا بابری مسجد کیس میں مؤثر نفاذ نہ ہونا ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔ اگر اس ایکٹ کو مضبوطی سے نافذ کیا جاتا تو شاید اس نوعیت کے تنازعات پیدا نہ ہوتے۔
بابری مسجد کیس کا فیصلہ ہندوستان کی سماجی ساخت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس فیصلے نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور ہندو مسلم تنازعات کو مزید تقویت دی۔ فیصلے کے بعد، کئی دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جس نے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھایا۔ یہ رجحان نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوستان کی مجموعی سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس فیصلے نے عدلیہ کے غیر جانبدار ہونے پر عوامی اعتماد کو کمزور کیا۔ جب عدالتوں سے انصاف کی توقع کی جاتی ہے، ایسے فیصلے اقلیتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا عدالتی نظام ان کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو چکا ہے۔
بابری مسجد کیس اور اس سے جڑے تنازعات نے بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے ایجنڈے کو تقویت دی۔ یہ تنظیمیں ہندو تو کے نظریے کو فروغ دیتی ہیں اور اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر بی جے پی کے سیاسی بیانیے کا ایک اہم حصہ رہی ہے، جس نے انتخابات میں ان کے ووٹ بینک کو مضبوط کیا۔
یہ سیاسی حکمت عملی نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتی ہے بلکہ ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر بنیادوں کو بھی کمزور کرتی ہے۔ یہ اقلیتوں کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلتی ہے اور سماجی عدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔
بابری مسجد کیس اور اس سے جڑے مسائل ہندوستان کے لیے ایک اہم سبق ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ، اور عدلیہ کی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
“مقامات عبادت ایکٹ 1991” کا سخت نفاذ ضروری ہے تاکہ اس قسم کے تنازعات دوبارہ نہ پیدا ہوں۔ عدلیہ کو اپنے فیصلوں میں آئینی اصولوں اور اقلیتوں کے حقوق کو مقدم رکھنا ہوگا۔
مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تعلیم، معیشت، اور سماجی شعور کے میدان میں ترقی کریں تاکہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے زیادہ مؤثر طریقے سے آواز اٹھا سکیں۔ ان کی تاریخ اور ثقافت ان کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے، جس کی روشنی میں وہ اپنے موجودہ مسائل کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
بابری مسجد کیس کا فیصلہ ایک تاریخی واقعہ ہے، جس نے ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے اور سماجی ہم آہنگی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس کیس سے سبق سیکھتے ہوئے تمام فریقین کو ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر کی طرف قدم بڑھانا ہوگا جہاں تمام مذاہب کے پیروکار مساوی حقوق اور احترام کے ساتھ رہ سکیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست نے ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقوں کے لیے گہرے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ ان جماعتوں کی پالیسیوں اور بیانیے نے نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت اور تقسیم کو بڑھایا ہے۔ ان تنظیموں کے لیے ہندو تو کے نظریے کو پروان چڑھانا ایک اہم مقصد رہا ہے، اور اسی راستے پر چلتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کو متعدد مواقع پر نشانہ بنایا ہے، جن میں گائے کے گوشت پر پابندی، مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کی مذہبی مقامات کی بے حرمتی جیسے واقعات شامل ہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست نے مسلمانوں کو ایک “دوسری جماعت” کے طور پر پیش کیا ہے، جس سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور نفرت انگیز رویے کو فروغ مل رہا ہے۔ ان جماعتوں نے مختلف مواقع پر مسلمان لڑکیوں کو نشانہ بنایا ہے، خاص طور پر جب انہیں ہندو لڑکوں کے ساتھ تعلقات بنانے یا شادی کرنے کے لیے دھمکایا گیا۔ یہ پالیسیاں اور رویے مسلمانوں میں خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بڑھاتے ہیں اور ان کی معاشرتی حیثیت کو مزید کمزور کرتے ہیں۔
ہندوستان میں تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں، جہاں مسلم طلبہ کو ہراساں کیا جاتا ہے یا انہیں تعلیمی سرگرمیوں سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ تعلیم کا میدان، جو اقلیتی طبقے کے لیے ترقی کے دروازے کھولتا ہے، اب ان کے لیے ایک اور میدان جنگ بن چکا ہے۔ طالب علموں کو مختلف فورمز پر اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے مذہب یا ثقافت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، کشمیر میں ہونے والے مظاہروں میں مسلم طلبہ کو بے دردی سے مارا گیا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعہ بھی فرقہ وارانہ سیاست کا نتیجہ تھا۔
اسی طرح مسلم خواتین بھی اس فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ نہ صرف ان کے ساتھ جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف نفرت انگیز بیانات بھی دیے جا رہے ہیں۔ کچھ مسلم لڑکیاں، جنہیں مختلف مواقع پر نشانہ بنایا گیا، ان کے بارے میں یہ افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ وہ ہندو لڑکوں کے ساتھ تعلقات میں ہیں یا انہوں نے ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے۔ ایسی گمراہ کن اور دھوکہ دہی پر مبنی اطلاعات مسلم خواتین کی زندگی کو مزید پیچیدہ اور مشکل بناتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلم خواتین کو معاشرتی اور مذہبی لحاظ سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات کے تحت، مسلم لڑکیاں خاص طور پر ہدف پر ہیں۔ ان کو یا تو دباؤ ڈال کر یا زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، یا پھر ان کے ساتھ جنسی تشدد اور دیگر غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرقہ وارانہ سیاست نے کتنی گہرائی سے سماجی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے اور مسلمان خواتین کو کیسے گھٹیا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح سے بعض سیاسی جماعتیں اقلیتی طبقوں کو اپنی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں، چاہے اس سے ان کی سماجی حیثیت اور حقوق پر سوالات اٹھیں۔ اس فرقہ وارانہ بیانیے نے مسلم کمیونٹی کے اندر ایک احساسِ عدم تحفظ پیدا کیا ہے، اور وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کے حقوق اور آزادیوں کو مزید سلب نہ کر لیا جائے۔ ان کی معاشرتی حیثیت میں کمی آئی ہے، اور وہ مختلف شعبوں میں پسماندہ ہو گئے ہیں، چاہے وہ تعلیم ہو یا معیشت یا سیاسی نمائندگی۔
یہ حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست نے فرقہ وارانہ سیاست کو ہندوستان کے ہر حصے میں دراندازی کی ہے۔ ان کی پالیسیاں، جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقوں کے خلاف ہیں، نہ صرف انہیں جکڑ کر رکھتی ہیں بلکہ ہندوستان کے سیکولر، جمہوری معاشرے کو بھی کمزور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے ذریعے پھیلائی جانے والی نفرت اور تقسیم کے باعث ہندوستان کی اکثریتی آبادی اور اقلیتی فرقوں کے درمیان خلا بڑھ رہا ہے۔
یہ فرقہ وارانہ سیاست ہندوستان کی یکجہتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ ایک ایسا ملک جو ہزاروں سالوں سے مختلف ثقافتوں، مذاہب اور زبانوں کا حامل ہے، وہاں مذہبی عدم رواداری اور فرقہ وارانہ نفرت کی سیاست ملکی ہم آہنگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعے مسلم کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جس سے ملک کی جڑیں متاثر ہو رہی ہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست نے ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک غیر محفوظ ماحول پیدا کیا ہے۔ ان کی پالیسیاں اور بیانات نہ صرف مسلمانوں کی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ ملک کی سماجی ہم آہنگی اور جمہوری ڈھانچے کو بھی کمزور کر رہے ہیں۔ ان تنظیموں کی طرف سے پھیلائی جانے والی نفرت انگیز سیاست نے مسلمانوں کو ایک دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے، جس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ اگر ہندوستان کو ترقی اور یکجہتی کی راہ پر گامزن رہنا ہے، تو اسے فرقہ وارانہ سیاست سے باہر نکل کر، ہر شہری کے حقوق کی ضمانت دینے والی پالیسیوں کو فروغ دینا ہوگا۔
مسلمانوں کی موجودہ پوزیشن ایک پیچیدہ اور تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، جہاں سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر ان کے حقوق اور مواقع میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں واضح کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کے مفادات کے لیے آواز اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ سیاست میں مسلمانوں کی فعال شرکت اور موثر نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اکثر انتخابی مہموں کا محض ایک ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے۔ انتخابی سیاست میں مسلمانوں کو اپنے حقوق کی بجائے محض ایک عدد کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو ان کے لیے ترقی کے مواقع کی کمی اور ان کی سیاسی طاقت کے کمزور ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ اس سیاسی عدم نمائندگی کے نتیجے میں مسلمانوں کو مختلف پالیسیوں میں نظرانداز کیا جا رہا ہے، جو ان کے لیے مزید چیلنجز پیدا کرتی ہیں۔
مسلمانوں کو معاشی اور تعلیمی میدان میں مسلسل پسماندہ رکھا جا رہا ہے، جو ان کے مجموعی معیار زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ تعلیم میں کمی، ملازمتوں میں امتیازی سلوک، اور معاشی وسائل کی کمی نے مسلمانوں کو ترقی کی راہوں سے دور کر دیا ہے۔ خصوصاً تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے مواقع محدود ہیں اور جب انہیں داخلے کے لیے جگہ ملتی ہے تو اکثر انھیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح، ملازمتوں اور کاروباری مواقع میں بھی مسلمانوں کو دیگر اقلیتی گروپوں کے مقابلے میں کم موقع ملتا ہے، جس سے ان کی معیشتی پوزیشن مزید کمزور ہو رہی ہے۔
یہ حالات مسلمانوں کی زندگی میں بدحالی، فرقہ وارانہ تقسیم اور سماجی تنہائی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں، جس سے ان کے لیے آگے بڑھنا اور اپنے حقوق کا تحفظ کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
موجودہ حالات میں، جہاں مسلمانوں کو سماجی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر مسلسل چیلنجز کا سامنا ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کریں اور مختلف محاذوں پر کام کریں۔ فلسطین کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ جب اقلیتوں کو اپنی حفاظت کے لیے مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، تو ان کے اتحاد اور اجتماعی جدوجہد کے بغیر وہ اپنی پوزیشن مستحکم نہیں کر پاتے۔
مسلمانوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے سب سے اہم بات اتحاد ہے۔ یہ حقیقت کہ مسلم قیادت اور تنظیمیں مختلف محاذوں پر کام کر رہی ہیں، لیکن آپس میں تعاون کی کمی ہے، ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر مسلمانوں کو سیاسی، سماجی اور قانونی سطح پر اپنے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، تو انہیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آ کر اپنی آواز بلند کرنا ہوگی۔ اس کے لیے مسلم قیادت کو نہ صرف مضبوط بلکہ منظم بھی ہونا چاہیے تاکہ ان کے مسائل اور ضروریات کو زیادہ موثر طریقے سے اجاگر کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مسائل میں دلچسپی رکھنی ہوگی اور یکجہتی کے اصولوں کو اپنانا ہوگا تاکہ وہ اپنی معاشرتی پوزیشن کو مضبوط کر سکیں۔
مسلمانوں کو سیاست اور سماجی سرگرمیوں میں فعال طور پر شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔ انہیں محض انتخابی مہمات کا حصہ نہ بن کر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانا ہوگا۔ نوجوانوں کو خاص طور پر سیاسی اور سماجی میدان میں تعلیم دینے اور انہیں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی کمیونٹی کی نمائندگی بہتر طریقے سے کر سکیں۔ نوجوان قیادت کو ابھارنا اور انہیں اس بات کا شعور دینا کہ ان کی سرگرمیاں کس طرح مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، ایک اہم قدم ہو گا۔
“مقامات عبادت ایکٹ 1991” کا سخت نفاذ ایک اہم اقدام ہے تاکہ مذہبی مقامات پر کسی قسم کی بے حرمتی اور تنازعات سے بچا جا سکے۔ اسی طرح، عدلیہ کو غیر جانبدار اور شفاف بنایا جائے تاکہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتی کمیونٹیز کو انصاف مل سکے۔ یہ ضروری ہے کہ عدلیہ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ ہو اور ان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ عدالتوں کا کام فقط انصاف کی فراہمی نہیں بلکہ سماج میں انصاف کی فضا قائم کرنا بھی ہے، اس لیے اقلیتی کمیونٹیز کو اعتماد دینے کے لیے عدلیہ کی فعالیت میں شفافیت اور غیر جانبداری کی ضرورت ہے۔
آئینی ضمانتوں کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے تاکہ اقلیتوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔ آئین میں دی گئی آزادیوں اور مساوات کے اصولوں کو ہر سطح پر عملی جامہ پہنانا لازمی ہے۔ حکومت کو ان حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے اور تمام اقلیتی گروپوں کو برابر کے حقوق دینے کا وعدہ نبھانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ ان حقوق کا دفاع کر سکیں۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انہیں نہ صرف داخلی سطح پر اتحاد اور تنظیم کی ضرورت ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔ فلسطین کی صورت حال نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اقلیتی کمیونٹیز اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور عالمی سطح پر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں تو ان کے مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو عالمی سطح پر اپنی آواز کو بلند کرنا اور اپنے حقوق کے دفاع کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہوگی تاکہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرے یا بحران کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ختم کیا جائے اور انہیں ایک مشترکہ مقصد کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ اجتماعی طور پر اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ہر سطح پر، چاہے وہ سیاسی ہو یا سماجی، اپنی جدوجہد کو بڑھا کر اپنے حقوق کا دفاع کریں اور انہیں حاصل کرنے کے لیے مستعد رہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال نہ صرف تشویشناک بلکہ سنگین خطرے کی علامت ہے۔ ایک ایسی قوم، جس نے صدیوں تک ہندوستان کی تہذیب، ثقافت، فنون، اور علم و دانش میں اپنی عظمت کے نشان چھوڑے، آج سیاسی، سماجی، اور عدالتی ناانصافیوں کا شکار ہے۔ آزادی کے بعد دیے گئے آئینی حقوق محض کاغذی رہ گئے ہیں، جبکہ عملی طور پر مسلمانوں کو منظم سازش کے تحت پسماندگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
بابری مسجد کا فیصلہ ہندوستانی عدالتی نظام پر ایک بدنما داغ ہے، جہاں مسلمانوں کے حق میں مضبوط شواہد کے باوجود زمین ہندو فریق کے حوالے کر دی گئی۔ جسٹس آر ایف ناریمن جیسے جج نے بھی اس فیصلے کو “انصاف کا مذاق” قرار دیا۔ یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عدلیہ بھی سیکولرزم کے اصولوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی متعصبانہ سیاست نے مسلمانوں کو ایک کمزور طبقے میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں وہ نہ صرف معاشی اور تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں بلکہ انہیں اپنی شناخت کے لیے بھی مسلسل جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اپنی موجودہ حالت کا گہرائی سے جائزہ لیں اور مضبوط اقدامات اٹھائیں۔ اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مساجد، مدارس، اور سماجی تنظیموں کو فعال کر کے قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اپنی آواز عالمی سطح پر بلند کرنی ہوگی اور آئینی ضمانتوں کے تحفظ کے لیے قانونی محاذ پر بھرپور جدوجہد کرنی ہوگی۔ یاد رکھیں، خاموشی ظلم کو تقویت دیتی ہے؛ مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے سبق لے کر اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی، ورنہ فلسطین جیسا انجام ان کا بھی منتظر ہو سکتا ہے۔