اگہنی فصل کے موقع پر جامعہ سلفیہ جنکپور کے علمائے کرام کا دورۂ جرہیا، اور ٹھیلہ بھٹین
تحریر عبدالباقی عبداللہ
جامعہ سلفیہ جنکپور کے معزز علمائے کرام کا اگہنی فصل کے موقع پر جرہیا ، اور ٹھیلہ بھٹین کا دورہ ایک یادگار اور بابرکت سفر تھا، جس میں کئی اہم ملاقاتیں اور علمی و دینی مجالس کا انعقاد ہوا۔ یہ سفر نہ صرف مساجد کی رونق بڑھانے کا سبب بنا بلکہ اہل حدیث کی عظیم بستیوں کے دینی تعلق کو مزید مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی ثابت ہوا۔
جرہیا ، جو علمی ، و ادبی اور ، ثقافتی کے نام سے بہت مشہور و معروف، بستی ہے، وہاں پہنچنے پر دو اہم مساجد میں خطبہ جمعہ ہوا۔ ایک مسجد میں شیخ الجامعہ محمد بشیر حبیب مدنی ، نے خطبہ دیا، جبکہ دوسری مسجد میں شیخ عبد الوہاب مدنی نے اپنی پرمغز گفتگو سے سامعین کو محظوظ کیا۔ خطبات کے بعد، ان مساجد کے نمازیوں کے ساتھ علمائے کرام کی ملاقاتیں ہوئیں، جن میں دینی مسائل اور اصلاحی امور پر بات چیت ہوئی۔
اس دورے کی ایک اہم یادگار لمحہ میرے مشفق و مربی استاد محترم فیصل عزیز عمری مدنی صاحب کے والد محترم سے ملاقات ہوئ۔ جب انہوں نے یہ جانا کہ میں ان کے فرزند کا شاگرد ہوں، تو انہوں نے محبت و شفقت سے گلے لگا لیا۔ ان کی محبت اور دعاؤں نے اس ملاقات کو میرے لیے ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔
والد محترم صاحب نے کئی سالوں تک برگنیاں سلفیہ میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیاہے،
جرہیا سے آگے ہمارا قافلہ ٹھیلہ پہنچا، اورعصر نماز ادا کرنے کے بعد شیخ حبیب الرحمن مدنی، سے ملاقات ہوئی
دوران گفتگو میں اپنا تعارف پیش کیا، میرا نام “عبدالباقی عبداللہ ” ہے، اور میرا گھر کانہر پٹی ہے , یہ سن تے ہی ان کی زبان سے بے ساختہ الفاظ نکل پڑا کیا؟ تم عبداللہ کے لڑکا ہو وہ میرا خاص شاگرد رشید تھا میں جامعہ سلفیہ جنکپور میں عربی چہارم تک پڑھیا ہوں یہ سنتے ہی میرا دل پھر آیا،
ٹھیلہ اہل حدیث کی ایک بڑی بستی ہے۔ اس بستی کی دینی و علمی فضا دیکھ کر دل خوش ہوا۔ یہاں علمائے کرام کی آمد نے عوام الناس کو علم و دین کی طرف متوجہ کیا اور ان کے دلوں میں محبت و عقیدت کے جذبات پیدا کیے۔ دورے کے دوران، میں نے اپنے پھوپھا کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی اور چاۓنوشی کا لطف اٹھایا۔ یہ گھریلو ملاقات بھی دلوں کے رشتے مضبوط کرنے اور اپنائیت کو بڑھانے کا ذریعہ بنی۔
ٹھیلہ سے آگے بھٹین چوک پر عبد الستار مدنی حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔
علیک سلیک کے بعد چاۓنوشی ہوئ ان کی محبت اور اصرار پر ہم نے ایک زیر تعمیر مسجد کا دورہ کیا۔ یہ مسجد علمائے کرام اور مقامی عوام کی کاوشوں کا عکاس تھی۔ اس موقع پر شیخ الجامعہ بشیر حبیب مدنی ،ڈاکٹر مقیم صاحب، شیخ انیس الرحمن مدنی، شیخ عبد الوہاب صاحب، رقم الحروف اور دیگر علاقے لوگ جیسے معتبر علماء بھی موجود تھے۔
یہ دورہ نہ صرف دینی اور اصلاحی حوالے سے اہم تھا بلکہ باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ثابت ہوا۔ علمائے کرام کی موجودگی نے ہر مقام پر علم و ہدایت کے چراغ روشن کیے، اور لوگوں کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کی۔ یہ سفر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دین کی اشاعت اور تعلقات کی مضبوطی کے لیے سفر کرنا اور ملاقاتیں کرنا کتنا اہم ہے۔