حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
خداوند قدوس نے اپنے دین کی حفاظت و صیانت کے لیے بے شمار علمائے کرام پیدا فرمائے جنہوں نے اپنے علم نور سے جہاں کی تاریکی کو روشن اور ایمان کو جگمگایا ہے، انہیں تاریخ ساز شخصیات میں ایک نام جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کا ہے، جنہوں نے ایک ایسا چراغ جلایا جو پوری دنیا کو روشن کیے ہوئے ہے۔ لوگ آج بھی اس چراغ کی روشنی سے ہدایت کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
نام و نسب:
آپ کا نام عبد العزیز، لقب حافظ ملت ہے، جبکہ سلسلہ نسب عبدالعزیز بن حافظ غلام نور بن مولانا عبدالرحیم رحمہم اللہ تعالٰی ہے۔
ولادت باسعادت:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت بروز دوشنبہ 1312ھ 1894ء صبح کو ضلع مرادآباد اترپردیش کے موضع بھوج پور میں ہوئی۔
دادا کی پیشن گوئی:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے دادا مولانا عبد الرحیم علیہ الرحمہ نے دہلی کےمشہورمحدث شاہ عبد العزیز علیہ الرحمہ کی نسبت سے آپ کا نام عبد العزیز رکھا تاکہ میرا یہ بچہ بھی عالم دین بنے۔
والدکی خواہش:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے والدحضرت حافظ غلام نور علیہ الرحمہ کی شروع سے یہی تمنا تھی کہ آپ ایک عالم دین کی حیثیت سے دین متین کی خدمت سر انجام دیں لہٰذا بھوجپور میں جب بھی کوئ بڑے عالم شخ تشرف لاتے توآپ اپنے صاحبزادے حضور حافظ ملت کو ان کے پاس لے جاتے اور عرض کرتےحضور! مرے اس بچے کے للئےدعا فرمادیں۔
والدین:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد ایک خدا پرست درویش،نہایت دین دار،متبع سنت، احکام شریعت پر عامل اور صوم و صلوۃ کے سخت پابند تھے۔ بڑے جید حافظ قرآن تھے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھے ہر وقت قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ آپ بڑے حافظ جی کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ پیپل سانہ (ضلع مرادآباد) میں ایک مدرسہ کے مدرس تھے۔ مرادآباد اور قرب و جوار میں آپ ہی کے شاگرد اعلیٰ درجے کے حافظ مانے جاتے تھے تقریباً سوسال کی عمر پائی۔ حج وزیارت سے بھی مشرف ہوئے 28 ذی قعدہ بروز جمعرات 1370ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ حضور حافظ ملت کی والدہ ماجدہ بھی نہایت نیک،صوم و صلوۃ کی پابند اور بنت رسول سیدہ زہرا کے اسوۂ حسنہ کی عملی نمونہ تھیں۔ پڑوس کا اتنا خیال رکھتیں کہ اپنا کھانا اکثر ایک بیوہ پڑوسن کو کھلا دیتیں اور خود یونہی وقت گزاردیتی تھیں۔
ابتدائی تعلیم اورحفظ قرآن:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم ناظرہ اور حفظ قرآن کی تکمیل گھر پر ہی والد صاحب سے کی۔ اس کے علاوہ اردو کی چار جماعتیں وطن عزیز بھوجپور میں پڑھیں، جبکہ فارسی کی ابتدائی کتب بھوجپوراور پیپل سانہ (ضلع مرادآباد) سے پڑھ کر گھریلو مسائل کی وجہ سے سلسلہ تعلیم موقوف کیا اور پھر قصبہ بھوجپور میں ہی مدرسہ حفظ القرآن میں مدرس اوربڑی مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دئیے۔
سلسلہ تعلیم منقطع ہو جانے پر اظہار جذبات:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا سلسلہ تعلیم منقطع ہو گیاتوکبھی کبھار غمگین ہوکر والدہ ماجدہ سے عرض کرتے: آپ تو دادا کا یہ فرمان کہ تم عالم بنوگے سنایا کرتی تھیں لیکن میں عالم نہ بن سکا۔ یہ سن کر والدہ ماجدہ کی آنکھیں پر نم ہوجاتیں اوردعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیتیں۔
سلسلہ تعلیم کا دوبارہ آغاز:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا سلسلہ تعلیم کا دوبارہ آغاز اس طرح ہوا کہ کچھ عرصے بعد حالات بدلے اوروالد ماجد حافظ غلام نور کی خواہش اور دادا مولانا عبد الرحیم کی پیشن گوئی پوری ہونے کا سامان یوں ہوا کہ حضرت علامہ عبد الحق خیر آبادی علیہ الرحمہ کے شاگرد رشید،طبیب حاذق مولانا حکیم محمد شریف حیدر آبادی علیہ الرحمہ علاج معالجہ کے سلسلے میں بھوجپورتشریف لانے لگے اور جب بھی آتے تو حضور حافظ ملت کی اقتدا میں نماز ادا کرتے۔ ایک دن کہنے لگے: آپ قرآن مجید تو بہت عمدہ پڑھتے ہیں اگرعلم طب پڑھنا چاہتے ہیں تو میں پڑھا دوں گا، آپ نے جواب دیا: میرا ذریعہ معاش امامت اور تدریس ہی ہے اور روزانہ مرادآباد آنا جانا میری استطاعت سے باہر ہے،حکیم صاحب نے کہا: آپ ٹرین سے مرادآباد چلے جایا کریں اورسبق پڑھ کربھوجپور سے واپس آجایا کریں، اخراجات کی ذمہ داری میں اٹھاتا ہوں۔ والد صاحب نے اس کی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: روز کا آنا جانا مناسب نہیں لہٰذا مرادآباد میں رہ کر ہی تعلیم مکمل کرو۔یوں آپ امامت و تدریس چھوڑ کر مرادآباد تشریف لے گئے اورکچھ عرصہ حکیم صاحب سے طب پڑھا۔
اعلیٰ تعلیم:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اعلیٰ تعلیم اور منتہی کتابوں کی تحصیل کے لیے شوال المکرم 1342ھ میں دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف جہاں صدرالشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ اپنے علم و فضل کے گوہر لٹا رہے تھے۔ پہنچنے کے بعد داخلہ کی کاروائی مکمل ہوئی۔ آپ اپنے رفقا کے ساتھ تحصیل علم میں مشغول ہو گئے۔ پھرحضور صد الشریعہ جب اجمیر شریف سے بریلی آگئے حضور حافظ ملت اور آپ کے دیگر رفقاے درس بھی بریلی آگئے۔حضور حافظ ملت کی دستار بندی دارلعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے 1351ھ مطابق 1942ء کو ہوئی۔
صدر الشریعہ کے حکم کی تعمیل:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ فارغ التحصیل ہونے کے بعدکچھ عرصے بریلی شریف میں حضور صدر الشریعہ کی خدمت میں رہے۔ شوال المکرم 1352ھ میں حضرت صدر الشریعہ نے آپ کو مبارک پورضلع اعظم گڑھ یوپی میں درس و تدریس کا حکم دیا توآپ نے عرض کی: حضور! میں ملازمت نہیں کروں گا۔ صدر الشریعہ نے فرمایا:میں نے ملازمت کا کب کہاہے؟ میں توخدمت دین کے لئے بھیج رہا ہوں۔
مبارک پور میں آمد اور درس وتدریس:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ 29 شوال المکرم 1352ھ بمطابق 14 جنوری 1934ء کو مبارکپور پہنچے اور مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم میں تدریسی خد مات میں مصروف ہوگئے۔ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ آپ کے طرز تدریس اور علم و عمل کے چرچے عام ہوگئے اور تشنگان علم کا ایک سیلاب امنڈ آیا جس کی وجہ سے مدرسے میں جگہ کم پڑنے لگی اورایک بڑی درسگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ آپ نے اپنی جدو جہدسے 1353ھ میں دنیائے اسلام کی ایک عظیم درسگاہ کی تعمیر کا آغازگولہ بازارمیں فرمایا جس کا نام سلطان التارکین حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی نسبت سے دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم رکھاگیا۔
اشرفیہ سے استعفا و واپسی:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ شوال 1361ھ میں کچھ مسائل کی بناپر استعفا دے کر جامعہ عربیہ ناگپور تشریف لے گئے،چونکہ آپ مالیات کی فراہمی اور تعلیمی امور میں بڑی مہارت رکھتے تھے لہٰذا آپ کے اشرفیہ سےچلے جانے کے بعدوہاں کی تعلیمی اور معاشی حالت انتہائی خستہ ہوگئی تو حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے حکم خاص پر 1362ھ میں ناگپور سے استعفا دے کر دوبارہ مبارکپور تشریف لے آئے اورتا دم حیات دارالعلوم اَشرفیہ مبارکپور سے وابستہ رہ کر تدریسی و دینی خدمات کی انجام دہی میں مشغول رہے۔آپ کی کوششوں سے مفتیٔ اعظم ہند شہزادہ اعلیٰحضرت مفتی محمد مصطفےٰ رضا خان علیہ الرحمہ کے دست مبارک سے 1392ھ بمطابق 1972ء میں مبارک پور میں وسیع قطع ارض پر الجامعۃ الاشرفیہ عربی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
نکاح اور اولاد:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا نکاح اول آپ کے ماموں کی لڑکی سے ہوا۔ جو نہایت نیت،اطاعت شعار اور فرماں بردار تھیں۔ ان سے چار اولاد ہوئیں۔ جن میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ نکاح ثانی سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں کل چھ اولاد پیدا ہوئیں۔ آپ کے فرزنداکبرحضرت علامہ عبدالحفیظ صاحب قبلہ ہیں۔
بیعت و خلافت:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ حضور شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے کے مرید و خلیفہ ہیں۔حضور صدر الشریعہ سے بھی آپ کو اجازت و خلافت حاصل تھی۔
سفر حجاز:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو حرمین شریفین کی زیارت 1967ھ میں نصیب ہوئی۔ آپ نے یہ حج اس وقت ادا فرمایا جب پاسپورٹ کے ساتھ تصویر شرط تھی، مگر اللہ کے اس مقرب بندے نے بغیر فوٹو کے حج بیت اللہ اور زیارت روضہ اطہر فرمائی۔
وصال و مدفن:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ یکم جمادی الآخر 1396ھ مطابق 31مئی 1972ء بروزدو شنبہ گیارہ بج کر 55 منٹ پر شب میں اہل مبارک پور اور جہان سنیت کو روتا بلکتا چھوڑ کر مبارک پور کے باغ فردوس سے حقیقی باغ فردوس کی طرف روانہ ہوئے (اِنااللہ واِناالیہ راجعون) نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ عبدا لحفیظ صاحب قبلہ نے پڑھائی۔ جامعہ اشرفیہ ہی کے صحن میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
جس نے پیدا کیے کتنے لعل و گوہر
حافظ دین و ملت پے لاکھوں سلام