سید قُطب احمد کبیر رفاعی کی زندگی اور تصوف کی حقیقت اور ان کی روحانی تعلیمات
تحریر ؛محمد طارق اطہر حسین
جامعہ دار الہدی اسلامیہ کیرلا
دُنیا فانی میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسکی عبادت کرنے کے لیے بھیجا اور اس مخلوق کو ہدایت کی طرف لے جانے کے لیے ہر زمانے اور ہر قوم میں ایک نبی یا ایک رسول کوانتیخاب کیا تاکہ وہ انسان یا بشر کی رہنمائی کر سکے اور انہیں ہدایت کی طرف لے جا سکے اور گمراہی کی راہ سے بچاسکے۔ اور جب نبی اور رسول کا سلسلہ ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا تو پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ہدایت کی طرف لے جانے کے لیے ولیوں کا انتخاب کیا اور ہرزمانے میں ایک ولی کو بھیجا تاکہ وہ ان کی حمایت کر سکے اور انہیں جنت کی طرف لے جا سکے اورگمراہی سے بچا سکے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بے شمار ولیوں کو اس دنیائے فانی میں بھیجا، جن میںسے ایک اللہ کا مقرب بندہ اور مؤمنوں کے لیے بہت متقی اور پرہیزگار، اور مشرف ولی حضرت احمد سیدقطب احمد الرفاعی ہیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کردی اور لوگوں کو ہدایت کی طرف دعوت دی اور انہیں آخرت سے تنبیہ بھی دلائی۔
آپ کا نام و نسب
آپ کا اسم مبارک احمد بن علی بن یحییٰ بن حازم بن علی بن رفائی ہے۔ اور آپ حسینی سید ہے۔ ۔ آپ سَیِّدُالشُّہدا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اولاد میں سے ہیں،آپ کی کُنیت ابو العباس اورلقب مُحْیُ الدین ہےجبکہ مسلک کے اعتبار سے شافعی ہیں حضرت سَیِّدناعلی بن یحیٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کانکاح حضرت سَیِّدمنصور بَطائحی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی کی ہمشیرہ سے ہوا تھا جو کہ نہایت پرہیزگار خاتون تھیں انہی کے بطن سے۱۵ رجبُ المرجب ۵۱۲ ھ بمطابق یکم نومبر1118ء میں حضرت سَیِّد احمدکبیر رَفاعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی کی ولادت ہوئی آپ کے والدابوالحسن سلطان علی (متوفی:519 ھ) بغداد کے سفر پرتھے کہ غیبی بلا آپہنچی اور وہیں بغداد میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ ابن مسیب نے آپ کی قبر بہت خوبصورت تعمیرکرائی،اُس کے بغل میں آپ کے نام سے معنون ایک مسجد بھی تعمیر کی۔ بغداد شارعِ رشید پرآپ کا مزار پر اَنوارآج بھی زیارتِ گاہِ خلائق ہے ان کے والد سید علی ابوالحسن تھے۔ ان کی والدہ فاطمہ الانصاری بنت یحییٰ نجری تھیں۔ ان کے شیخ علی الوصیطی تھے۔ ان کے ماموں، جنہوں نے ان کی پرورش میں مددکی، شیخ منصور ربانی تھے۔معمولی سی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے باعث آپ کے ماموں شیخ منصور کی آغوشِ تربیت میں آپ کی نشوو نماشروع ہوئی، جہاں آپ کو زیورِ اَدب اور حلیہ اخلاق سے آراستہ ہونے کا سنہراموقع میسر آیا۔ پھر آپ کی تعلیم وترتیب کے اُمور علامہ مقری شیخ علی ابوالفضل واسطی کے سپرد ہو گئے،جن کی کامل سرپرستی میں آپ کو جہانِ فقہ وتصوف کی سیر کی سعادت نصیب ہوئی اور ان کے پاس سے آپ کندن بن کرنکلےاحمد رفائی کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب ان کا بیٹا 7 سال کا تھا۔ سید علی کی وفات519ھ میں ہوئی اور بغداد میں مدفون ہوئے۔ احمد رفائی کے ماموں نے چھوٹے بچے کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کو چچا کی نظر کے مطابق شیخ وسیطی کے پاس بھیج دیا گیا۔احمد رفائی نے اپنی عمر سے بڑھ کر قابلیت اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا جب اس نے شیخ واسطی کےماتحت تعلیم کا آغاز کیا۔ انہوں نے شافعی مکتب کی کتاب تنبیح کی تشریح کر کے ایک اعلی مقام حاصل کیا۔شیخ منصور نے کہا کہ احمد رفائی کے ساتھ رہنے کے دوران میں نے اس لڑکے کے ذریعےبہت سے معجزات دیکھے اور اس کے ذریعے ہر ایک کے لیے بہت سی برکتیں آئیں۔سےوابستہ سب سے زیادہ مشہور معجزات میں سے ایک۔ شیخ رفائی وہ ہیں جنہوں نے انہیں ابوالعلمین کا نام دیا۔ احمد رفائی کا تعلق اپنے والد اور والدہ دونوں طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خون سے تھا۔ ان کا شجرہ نسب سید احمد رفائی، ابن سید علی، ابن سید یحییٰ، ابن سید ثابت، ابن سید حازم، ابن سید علی، ابن سید ابیلمکرم روفیل حسن المکی، ابن السیط مہدی، ابن السیط مہدی، ابن السیطی مہدی، ابنی السیطی، ابنی السیطی، ابنی السیطی، ابنی سید حازم، ابن سیّد علی، ابن سید ابوالمکرم، روفیل حسن المکی، ابن السیط مہدی، ابن السیطی مہدی، ابن السیطی مہدی، ابنِ السیطی مہدی، ابنِ السّیط، ابنِ سیّد حازم، ابنِ سیّد علی، ابنِ سیّد ابلِمکرم، روفیل حسن المکی، ابنِ السّیط مہدی، ابنِ السّیط مہدی، ابنِ السّیط، ابنِ السّیط، ابنِ السّیط، ابنِ سیّد حازم۔ اصیل الحسین، ابنی اسیئت احمد، ابنی اسییت موسیٰ الثانی، ابنی اسییت امام ابراہیم المرتضیٰ، ابن امام موسیٰ الکاظم، امام جعفری صادق، ابنی امام محمد باقر، ابنی امام زینلابدین، ابن ام المومنین علی المرتضی تو آپ کاشجرہ نسب ملتا ہے
علمی میں مہارت آپ بچپن سے ہی کافی ذہین اور عقل مند تھے، آپ نے سات برس میں ہی قرآن حفظ کر لیا تھا۔ پھرقرآن حفظ کرنے کے بعد آپ نے عقلی اور نقلی علوم میں بھی کافی مہارت حاصل کی۔ پھر آپ نے فقہ اور تصوف میں بھی کافی مہارت حاصل کی اور ایک روایت کے مطابق آپ نے شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے بھی علم حاصل کیا۔ سید احمد کبیر رفاعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی نے صرف بیس سال کی عمر میں ہی تفسیر، حدیث، فقہ ، معانی،منطق وفلسفہ اورتمام مروجہ علومِ ظاہری کی تکمیل کرلی اور ساتھ ہی اپنے ماموں جان شیخ منصور بَطائحیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی سے علومِ باطنی بھی حاصل کرنے لگے لُطفِ خداوندی اور مناسبتِ طبعی کی وجہ سے آپ نے باطنی عُلوم میں بھی بہت جلد کمال حاصل کرلیاعلّامہ ابنِ جوزیؒ کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے کہ’’ مَیں ایک مرتبہ ۱۵شعبان کواُم عبیدہ میں آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو اُس دن وہاں تقریباً ایک لاکھ افراد جمع تھے اور سب کے قیام و طعام کا انتظام آپؒ ہی کی جانب سے تھا۔‘‘کہا جاتا ہے کہ انتقال کے وقت آپؒ کے خلفاء کی تعداد ایک لاکھ سے زاید تھی اورعراق کی شاید ہی کوئی ایسی بستی ہو، جہاں آپؒ کا کوئی مرید نہ ہو۔خلفاء اور مریدین باقی علاقوں میں بھی پھیل گئے، جس سے آپؒ کے رفاعی سلسلے کو عرب دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی یہ وہاںکا ایک مقبول سلسلہ ہے۔
درس اور تدریس کا سلسل
جب آپ نے علم حاصل کرنے کا سلسلہ مکمل کیا، پھر آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اورآپ کو بہت سے علم میں مہارت حاصل تھی، اسی لیے آپ سے لوگوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ آپ اکثر صبح و شام فقہ، تفسیر، حدیث، تصوف اور علمِ کلام جیسے فنون میں درس دیتے اور لوگ اس سےاستفادہ حاصل کرتے تھے۔ آپ نے کچھ دن معین کر رکھے تھے، جیسے پیر اور پنج شنبہ کو خاص طور پر لوگوں سے خطاب کرتے اور سوال و جواب کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے۔ آپ لوگوں کو تشفی بخش جواب بھی عنایت فرماتے تھے اور سب سوالات قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیتے تھے۔ایک روایت کے مطابق یہ ملتا ہے کہ ایک مجلس میں تقریباً دو سو سوالات پوچھے گئے، اور آپ
نےخندہ پیشانی کے ساتھ قرآن و حدیث کی روشنی میں تشفی بخش جواب دیا اور محض 35 برس کی عُمر میںآپؒ کے مریدین کی تعداد سات لاکھ ہوگئی۔آپ کا ہر ایک عمل سنتِ نبوی اور شریعت کے طریقے پر مبنی تھا اور آپ فرماتے تھے کہ اللہ سےسب سے قریب کرنے والی چیز اگر کوئی ہے تو وہ سنتِ نبوی ہے۔ اسی لئے آپ کا ہر ایک عمل سنتِ نبوی کے مطابق ہوتا تھا اور آپ لوگوں کو بھی یہ بات بتاتے تھے کہ اخلاص کے ساتھ اورسنتِ نبوی کے مطابق زندگی گزارو۔ آپ کا کہنا تھا کہ ایک شیخ وہ ہوتا ہے جو سنتِ نبوی کے مطابق زندگی گزارے اور اخلاص کے ساتھ زندگی گزارنے کی تربیت دے، اور بدعات جیسے کاموں سےانہیں بچائے۔ آپ فرماتے تھے کہ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں بدعات سے بچوں اور سستی سے دوررہوں، مجھ پر کوئی بھی شر غالب نہ ہو اور خواہشات سے بھی دور رہوں۔ آپ ہمیشہ سنتِ نبوی کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے تھے، اور ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سنتِ نبوی
پر عمل کرو اور صحابہ کرام کی زندگیوں کو پڑھو اور ان کی طرح عمل کرنے کی کوشش کرو۔ آپ ہمیشہ آلِ نبی سے محبت کرنے، لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنے، نرمی سے پیش آنے، اور کسی کو برا نہ سمجھنے کی نصیحت کرتے تھے۔حضور سیدی سرکار غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے جس وقت میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے فرمایا تو حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ اپنی گردن جھکا کر عرض کی میری گردن پر بھی آپ کاقدم ہے حاضرین نے عرض کی! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا اس وقت بغداد میںحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اعلان فرمایا اور میں نے گردن جھکا کر تعمیل ارشاد کی۔
آپ کی کرامتیں
ہجری میں جب آپ کی عمر 43 سال تھی۔ رفائی حج پر گیا تھا۔ اس نے سیدوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا سفری لباس نہیں پہنا تھا (سید ان کے لباس سے پہچانے جاتےتھے)۔ مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا ایک خاص حصہ ہے جہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خونی رشتہ دار ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ دروازے پر موجود گارڈ نے اسے اندرجانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ اس بات کا ثبوت حاصل کرنا چاہتا تھا کہ احمد رفائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے۔آپ دلبرداشتہ ہو گ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف پکارا،السلام علیکم، یا جدی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا،وعلیکم السلام، یا ولید (اور سلام ہو میرے بیٹے) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قبر سے نکلا اور ہمارے پیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ جب لوگوں نے یہ معجزہ دیکھا تو وہ وجد کی حالت میں آگئے اور اپنی تلواروں اورچھریوں سے اپنے آپ پر وار کرنے لگے۔، وہاں لوگ خون سے لت پت پڑے تھے، اور احمدرفائی نے انہیں ان کی معمول کی حالت میں واپس کر دیا۔ اس کے بعد ہمارے پیر یہ ہدیہ رکھنے میں مشہورہوئے۔ ایک دن کسی نے عبدالقادر گیلانی سے پوچھا ’’یا حضوری، محبت کیا ہے؟‘‘ حضور غوث پاک نے اس شخص سے کہا کہ یہ سوال سید احمد رفائی سے کرو۔ اس نے احمد رفاعیسے عرض کیا ،محبت کیا ہے احمد رفائی نے جب یہ سوال سنا تو وہ کھڑا ہو گا اور کہنے لگے : محبتآگ ہے، محبت آگ ہے۔ وہ گھومنےلگے یہاں تک کہ وہ غائب ہو گیا۔ جب اس شخص نے یہ دیکھا تو وہ پریشان ہو گیا کیونکہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اسی لمحے عبدالقادر گیلانی کی روحانی موجودگی نمودار ہوئی اور ان سے کہا کہ وہ اس جگہ کو تلاش کریں جہاں سے ان کے کزن احمدرفائی غائب ہو گئے تھے اور اس جگہ پر عرق گلاب ڈالیں۔ اس شخص نے یہ کیا اور چند ہی لمحوں میں سیداحمد رفائی عین اسی جگہ گھومتے ہوئے نمودار ہوئے۔ جب وہ شخص واپس بغداد گیا تو اس نے ہرز کادورہ کیا۔ گیلانی، جس نے اس سے پوچھا، "کیا تم نے محبت دیکھی ہے؟ میرا بھائی سید رفائی ان اسٹیشنوں پر پہنچ گیا ہے جہاں بہت سے ولی (دوستوں کی حفاظت؛ اولیاء) نہیں پہنچ سکے ہیںابو موسیٰ الحدادی کہتے ہیں کہ شہر حدادیہ میں ایک عورت رہتی تھی جس کے بچے ہمیشہ مردہ پیدا ہوتےتھے۔ اس خاتون نے کہا کہ اگر میرےیہاں بچہ ہوا تو میں اس بچے کو احمد رفائی کی خدمت میں دے دوںگی۔ کچھ سالوں بعد اس کی ایک بیٹی ہوئی جو کبڑا اور لنگڑی تھی، اور گاؤں کے دوسرے بچے ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ ایک دن احمد رفائی اس بستی کا دورہ کر رہےتھے اور سارے گاؤں والےاسے دیکھنے سڑک پر گئے۔ چھوٹی بچی نے اپنے آپ کو رفائی کے قدموں میں گرا دیا اور چیخ کر کہا،
آپ میری والدہ کے شیخ ہیں؛ براہِ کرم مجھے ان پریشانیوں سے شفا دے! اور رویا. جب آپ نےاس کی حالت دیکہی تو وہ بھی رو پڑی اور پ نے اس کے لیے دعا کرتے ہوئے اس کی کمر اور سر پرہاتھ رکھ دیا۔ لڑکی کی کمر اور ٹانگ دونوں ٹھیک ہو گئ۔ یہی وجہ ہے کہ احمد رفائی کو ابوالعرق، کہا جاتا ہے۔
آپ کی اولاد
اللہ رب العزت نے آپ کو ایک صاحب زادہ اور دو صاحب زادیوں سے نوازا تھا۔ صاحب زادہ کا انتقال سترہ سال کی عمر میں ہی ہو گیا تھا لہذا صاحبزادیوں سے آپ کا سلسلہ نسل چلا جن کی اولاد میں بڑے بڑے عالم فاضل اور باکمال بزرگ ہوئے۔
آپ کا وصال
آپ کے وصال سے پہلے سیدی سرکار احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورایک ماہ تک اس مرض میں گرفتار رہے، جبکہ بیس دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ زندگی کے آخری لمحات میں آپ پرشدید رقت طاری تھی، آپ اپنا چہرہ اور ڈاڑھی مبارک مٹی پر رگڑتے اور روتے رہتے۔ آپ کی زبان پر یہ دعا جاری تھی یا اللہ، عفو و درگزر فرما، یا اللہ مجھے معاف فرما دے، یا مجھے اس مخلوق پر آنے والی مصیبتوں کے لئے چھت بنا دےبالآخر، 66 سال تک اس دارِ فانی میں رہ کر مخلوقِ خدا کی رہنمائی اورہدایت کا فریضہ ادا کرنے کے بعد، بروز جمعرات 22 جمادی الاولی 578 ہجری مطابق 13 دسمبر1182 عیسوی، بوقت ظہر آپ نے اس عالمِ فانی سے عالمِ بقا کا سفر اختیار کیا۔ آپ کے آخری الفاظ یہ تھے: اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدًا عبدہ و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم۔