چاچا نہرو: بچوں ہندستان کے حقوق اور ان کی تعلیم کے لیے ایک عظیم رہنما”

تحریر؛ محمد طارق اطہر
جامعہ دار الھدی کیرلا
یہ بات سے ہم بالکل باخبر ہیں کہ اس عظیم ملک ہندوستان کو آزاد کرانے میں ہمارے اکابر اور ہمارے بہترین جنگجوؤں کا کتنا بڑا کردار تھا۔ اگر اس دن وہ بہادر جنگجو آگے نہ بڑھتے تو آج ہمارا عظیم ملک ہندوستان اتنی ترقی نہ پاتا اور انہی مشہور اور معروف جنگجوؤں میں سے ایک بہادر اور شجاع جنگجو ڈاکٹر جواہر لال نہرو بھی تھے جنہوں نے اپنا تن، من، دھن سب کچھ اپنے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے میں لگا دیا اور بغیر اپنی ذات کی فکر کیے اس ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے باہر نکالا اور ایک کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع دلایا۔
ڈاکٹر جواہر لال نہرو کی ولادت 14 نومبر کو ایک کشمیری برہمن خاندان میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام موتی لال نہرو تھا اور آپ کی والدہ کا نام سوروپ رانی تھا۔ آپ کے والد ایک بہت ہی قابل برطانویبیریسٹر تھے اور آپ کی والدہ بہت خوش مزاج خاتون تھیں۔ آپ کی ایک بہن جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر تھیں۔ آپ کا پورا چلن و کردار آپ کے والد کی طرح تھا اور آپ ہمیشہ اپنے والد کی طرح سوچ و فکر میں مشغول رہتے تھے۔ آپ ہمیشہ یہی سوچتے تھے کہ انگریزوں کے چنگل سے کیسے ملک کو آزاد کرایا جائے۔ آپ کو پڑھنے لکھنے میں بھی کافی دلچسپی تھی اور آپ کو بہت سی زبانیں بھی آتی تھیں جیسے فارسی، اردو، سنسکرت، ہندی، عربی اور بھی دیگر زبانیں۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم انگریزی، ہندی، سنسکرت اپنے گھر سے ہی حاصل کی اور آپ کو انگریزی میں کافی دلچسپی حاصل تھی۔ پھر آپ نے اپنی باقی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ماریس کوورٹ اسکول میں داخلہ لیا اور آپ نے وہاں صرف 6 مہینے پڑھا، پھر آپ نے وہ اسکول بھی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد آپ نے ایک استاد، فریڈنٹ بروکس کو تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے منتخب کیا اور آپ ان سے گھر پر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ کا رخ کیا اور آپ نے وہاں اپنی تعلیم کو برقرار رکھا۔ پھر آپ نے 1905 میں ہیروو کی طرف مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر شروع کیا اور تقریباً 15 سال کی عمر میں فیمس پبلک اسکول سے مزید تعلیم حاصل کی، مگر آپ کو اس دوران بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور آپ نے اپنے آپ کو وہاں اکیلا محسوس کیا، لیکن پھر آپ نے اپنا ذہن لگا کر پڑھنا شروع کر دیا۔ اسی دوران آپ رائٹ برادرز سے بھی بہت متاثر ہوئے۔ پھر آپ نے 1907 میں تقریباً 18 سال کی عمر میں ٹرینیٹی کالج کیمبرج میں داخلہ لیا اور آپ نے وہاں سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران آپ بہت سے لوگوں سے ملے اور ان کی ثقافتی لحاظ سے بہت متاثر ہوئے اور دھیرے دھیرے آپ کی دلچسپی سائنس میں بڑھتی گئی۔ آپ نے پھر فزکس، کیمسٹری اور جیالوجی جیسے مضامین کا انتخاب کر کے ان میں دل لگا کر پڑھنا شروع کیا اور آپ کا مقصد تھا کہ سول سروس میں شامل ہوں، مگر آپ نے کیمبرج یونیورسٹی میں بہت آرام سے اور خوشی کے ساتھ زندگی گزاری اور آپ نے اپنی تعلیم کیمبرج یونیورسٹی سے مکمل کی۔ پھر 1910 میں آپ نے انر ٹیمپل میں قانونی تعلیم کے لیے داخلہ لیا اور 1912 میں آپ نے وہاں سے بھی تعلیم مکمل کی اور اسی دوران آپ نے ایک کتاب لکھی اور پھر اپنے پیارے ملک ہندوستان کا رخ کیا۔
ہندوستان میں واپسی
آپ نے اگست 1912 میں ہندوستان کا رخ کیا اور آپ نے بھی اپنے والد کی طرح برطانیہ میں وکالت کرنے کے لیے اللہ آباد کے ایک کورٹ میں عرضی دالی، مگر وہ عرضی منظور نہ ہوئی۔ پھر آپ نے دیکھا کہ ہندوستان میں لوگ آزادی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں تو آپ نے ان کا ساتھ دینا شروع کیا اور اس ہندوستان کو آزادی دلانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ آپ نے لوگوں کے ساتھ بہت سے احتجاج شروع کیے اور اسی دوران آپ کی کملا دیوی سے شادی بھی ہوئی۔
آپ نے 1919 میں انڈیان نیشنل کانگریس (INC) میں شمولیت اختیار کی اور اب ان کی دلچسپی سیاست میں پہلے کے مقابلے میں اور بھی بڑھ گئی تھی۔ وہ ایک بہترین رہنما بن کر اچھی رہنمائی بھی کرتے تھے اور آپ نے اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھ کر لوگوں کی خدمت بھی کی۔ آپ اکثر مہاتما گاندھی سے مشورہ لیتے اور ان کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیا کرتے تھے۔ اسی دوران 1945 میں آپ کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا اور کچھ سال بعد آپ کے والد کا بھی انتقال ہو گیا جس سے آپ کو کافی بڑا صدمہ پہنچا۔
جواہر لال نہرو کی قیادت میں ہندوستان
14 اگست 1947 کو ہندوستان کو برطانوی استعمار سے آزادی حاصل ہوئی، اور 15 اگست 1947 کو جواہر لال نہرو نے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ نہرو کی قیادت میں ہندوستان نے نہ صرف آزادی کی جدوجہد کے اثرات سے نجات پائی بلکہ انہوں نے ایک جدید، جمہوری اور خودمختار ہندوستان کی بنیاد بھی رکھی۔ ان کی قیادت میں ہندوستان میں کئی سماجی، اقتصادی اور سیاسی تبدیلیاں آئیں جو آج بھی ہندوستان کے ترقی کے راستے پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔نہرو کے دور میں ہندوستان نے پہلی پانچ سالہ منصوبہ بندی کا آغاز کیا، جس کا مقصد ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا اور غربت میں کمی لانا تھا۔ نہرو نے زراعت اور صنعت کے شعبے میں ترقی کے لیے جدید تکنیکی بنیادوں پر کام کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سٹیل، بجلی، آٹوموبائل اور دیگر بھاری صنعتوں کے قیام کے لیے متعدد منصوبوں کی بنیاد رکھی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ہندوستان میں بڑے صنعتی اداروں کا آغاز ہوا۔
ہرو نے تعلیم اور سائنس کے شعبے میں بھی انقلاب لانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ علم اور تحقیق کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ ان کے دورِ حکومت میں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور دیگر تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا، جو آج ہندوستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے سائنسی تحقیق کو بھی فروغ دیا اور اس مقصد کے لیے متعدد تحقیقی اداروں کا قیام کیا۔ ان کی قیادت میں ہندوستان میں خلائی تحقیق کے شعبے کا آغاز بھی ہوا، جو بعد میں ایک عالمی سطح پر اہم شعبہ بن گیا۔
نہرو کے دور میں غریبی اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ وہ ایک ایسا سماج چاہتے تھے جہاں امیر اور غریب کے درمیان فرق کم سے کم ہو۔ اس مقصد کے لیے نہرو نے زراعت کے شعبے میں اصلاحات کیں، خواتین کی تعلیم اور حقوق کو فروغ دیا، اور عوامی فلاح کے مختلف منصوبوں کی بنیاد رکھی۔ ان کے اقدامات سے ہندوستان میں ایک نئے سماجی نظام کا آغاز ہوا، جہاں غربت کے خاتمے کی کوششیں تیز ہوئیں۔نہرو کی خارجہ پالیسی نے ہندوستان کو عالمی سطح پر ایک اہم مقام دلوایا۔ ان کی پالیسی ”عدم جھکاؤ” (Non-Alignment) پر مبنی تھی، جس کا مقصد تھا کہ ہندوستان کسی عالمی طاقت کے بلاک میں نہ شامل ہو، بلکہ اپنی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی امن کے لیے کام کرے۔ نہرو نے اقوامِ متحدہ میں فعال طور پر حصہ لیا اور دنیا بھر میں ہندوستان کے موقف کو مستحکم کیا۔
نہرو کی قیادت میں، کانگریس پارٹی کا کردار بہت غالب رہا۔ انہوں نے کانگریس کو ایک ایسی سیاسی طاقت کے طور پر قائم کیا جو ملک کے اہم سیاسی اور انتظامی فیصلوں میں مرکزی کردار ادا کرتی تھی۔غربت اور عدم مساوات کے چیلنجزنہرو کے دور میں ملک میں غربت اور سماجی عدم مساوات بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کئی اسکیمیں شروع کیں، لیکن ان مسائل کا مکمل حل ممکن نہیں ہو سکا۔ زراعت اور دیہی ترقی پر خاص توجہ دی گئی، لیکن صنعتی کاری اور شہری ترقی کے نتیجے میں کچھ علاقوں میں دیہی غربت میں اضافہ ہوا۔
نہرو کے ل?بچوں کی محبت
بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ نہرو کا ماننا تھا کہ بچے کسی بھی قوم کا روشن مستقبل ہوتے ہیں اور ان کی تربیت، تعلیم اور نشوونما پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ وہ ہمیشہ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتے تھے اور ان سے ایک خاص تعلق رکھتے تھے۔نہرو کو بچوں کے درمیان ”چچا نہرو” کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ بچوں کو نہ صرف ایک سیاسی شخصیت کے طور پر بلکہ ایک دوست اور رہنما کے طور پر بھی دیکھتے تھے۔ ان کی محبت کا یہ خاص اظہار تھا کہ انہوں نے بچوں کی فلاح کے لیے مختلف اقدامات کیے، جیسے کہ اسکولوں کی ترقی، بچوں کی صحت کی سہولتیں، اور ان کے حقوق کا تحفظ۔نہرو نے اپنے دورِ حکومت میں تعلیم کے شعبے میں بہت سی اصلاحات کیں۔ انہوں نے ملک بھر میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک کو مستحکم کیا اور بچوں کو تعلیم کی بہترین سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ بچے ہی ملک کے ترقی کی بنیاد ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت ہی اصل میں ملک کی ترقی کا راستہ ہے۔نہرو نے 14 نومبر کو ”چچا نہرو کا دن” یا ”بچوں کا دن” کے طور پر منانے کا آغاز کیا تھا، جو آج بھی بھارت میں ہر سال بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ دن بچوں کی محبت، خوشی اور فلاح کے لیے مخصوص ہوتا ہے اور نہرو کی بچوں کے لیے محبت کا ایک خاص نشان تھا۔
نہرو اور گلاب
نہرو کا گلاب سے ایک خاص تعلق تھا۔ انہیں پھولوں سے خاص محبت تھی، خاص طور پر گلاب سے۔ گلاب نہ صرف ایک خوبصورت پھول تھا بلکہ اس کا ایک خاص معنٰی بھی تھا۔ نہرو کا ماننا تھا کہ گلاب زندگی کی خوبصورتی اور محبت کی علامت ہے۔خوبصورتی کی تلاش نہرو ایک بہت حسین ذاتی ذوق کے حامل تھے اور ان کے پاس گلاب رکھنے کا مقصد محض خوبصورتی سے محبت نہیں تھا، بلکہ یہ ان کی زندگی کی خوبصورتی، احساسات اور اُمیدوں کی علامت بھی تھی۔ وہ زندگی میں ہمیشہ نئی چیزیں دیکھنے اور سیکھنے کے لیے پرجوش رہتے تھے، اور گلاب ان کے لیے اس جمالیاتی لحاظ سے ایک خاص علامت تھا۔
نہرو کو ہندوستانی باغات، خاص طور پر دہلی کے مشہور ”گارڈن آف نیشنز” (جو آج کل نہرو پارک کے نام سے جانا جاتا ہے) کا قیام بہت عزیز تھا۔ اس پارک میں گلاب کے پھولوں کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی تھی۔ نہرو نے اس پارک کے ذریعے لوگوں کو قدرتی خوبصورتی سے روشناس کرانے کی کوشش کی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ قدرتی ماحول اور پھولوں کی خوبصورتی انسان کے ذہنی سکون کے لیے ضروری ہے۔ دکتر نہرو اور گلاب دونوں کا تعلق ایک علامتی نوعیت کا ہے۔ نہرو کی شخصیت اور گلاب کے پھول کی خوبصورتی میں ایک قدرتی ہم آہنگی نظر آتی ہے جو امن، محبت، اور ترقی کی علامت ہے۔ نہرو نے اپنے ملک کو ایک نئے دور کی طرف رہنمائی کی، بالکل ویسے ہی جیسے گلاب اپنے حسین رنگوں اور خوشبو سے ماحول کو معطر کرتا ہے۔اس طرح، دکتر نہرو اور گلاب کے درمیان تعلق ایک گہری فکری اور ثقافتی نوعیت کا ہو سکتا ہے جو محبت، خوبصورتی اور امن کی علامتوں سے جڑا ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp