احتساب: اختلافات کا احترام اور تہذیب و تحمل کے اصول – ۱

سید واصف اقبال گیلانی
بہار شریف، نالندہ
‘کیا بکواس ہے؟’ یہ جواب ہمیں اکثر تب سننے کو ملتا ہے جب ہمیں توقع ہوتی ہے کہ سوالوں کے جواب احترام کے ساتھ دیے جائیں گے۔ انسانی فطرت میں اختلاف کا عنصر موجود ہے، جو مختلف افراد کے خیالات اور تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے نمایاں ہو جاتا ہے۔ ہر فرد کی زندگی کا سفر اور اس کے تجربات الگ ہوتے ہیں، جو ان کے خیالات، نظریات اور فیصلے کرنے کے طریقوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر دو دوست ایک ہی موضوع پر گفتگو کر رہے ہوں تو ممکن ہے کہ ایک کا نقطہ نظر تجربے پر مبنی ہو، جبکہ دوسرے کا نظریہ کتابی علم پر انحصار کرتا ہو۔ اس طرح کے اختلافات نہ صرف زندگی کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں بلکہ ہمیں دوسروں کے خیالات کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔
معاشرتی و ثقافتی عوامل بھی اختلافات کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہیں۔ ہر فرد کا معاشرتی پس منظر، ثقافتی روایات اور تعلیمی تجربات اس کے نظریات کو تشکیل دیتے ہیں۔ مثلاً، ایک فرد جو ایک دیہی علاقے میں پلا بڑھا ہے، اس کی سوچ شہر کے ایک نوجوان سے مختلف ہو سکتی ہے جو جدید تعلیم حاصل کر چکا ہے۔ یہ فرق ان کے نظریات میں گہرائی لاتا ہے اور مختلف طریقوں سے مسئلوں کے حل کی کوششوں میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔
مزید برآں، مذہبی اور سیاسی اختلافات بھی انسانی تعلقات میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف مذہبی عقائد اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً، اسلامی تعلیمات کے مختلف مکاتب فکر میں مختلف تفاسیر پائی جاتی ہیں، جو کئی بار بڑی بحثوں کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح، کسی ملک میں سیاسی پارٹیوں کے مختلف نظریات بھی لوگوں کے بیچ اختلافات کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ اختلافات اکثر بات چیت اور مباحثے کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں، جس سے معاشرتی ہم آہنگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ذاتی مفادات بھی اختلاف کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ افراد کبھی کبھار اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر دوسروں کے خیالات کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک کاروباری شخص اپنے مفاد میں کسی نئے قانون کی مخالفت کر سکتا ہے جبکہ اس کے خلاف کچھ دوسرے افراد اسی قانون کی حمایت کر سکتے ہیں۔ یہ ذاتی مفادات نہ صرف تعلقات میں کشیدگی پیدا کر سکتے ہیں بلکہ بڑی بحثوں اور مباحثوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں اور اختلافات کو تعمیری انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں۔
مختلف نقطہ نظر سے کسی مسئلے کو دیکھنے کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یہ ہماری سمجھ کو بڑھاتا ہے اور ہمیں ایک وسیع تر نظریہ فراہم کرتا ہے۔ جب ہم ایک مسئلے پر مختلف زاویوں سے غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کی پیچیدگیوں کا بہتر اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً، کسی معاشرتی مسئلے جیسے غربت یا تعلیم کے فقدان کو دیکھتے وقت مختلف افراد کے تجربات اور خیالات ہمیں ایک جامع تصویر پیش کرتے ہیں، جو ہمیں بہتر فیصلے کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
نئے حل تلاش کرنے میں مختلف نقطہ نظر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب لوگ اپنے خیالات اور تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں، تو ان میں نئے اور منفرد حل ڈھونڈنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ٹیم میں شامل مختلف پس منظر کے افراد جب مل کر کام کرتے ہیں تو وہ اپنے منفرد خیالات کی مدد سے ایسے حل پیش کر سکتے ہیں جو کسی ایک فرد کے ذہن میں نہیں آ سکتے۔ اس طرح، مختلف نقطہ نظر سے نہ صرف مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے بلکہ نئے مواقع بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
خلاقیت کو فروغ دینے میں بھی مختلف نقطہ نظر کی اہمیت نمایاں ہے۔ اختلاف رائے اور مختلف سوچیں نئی تخلیقی سوچ کو جنم دیتی ہیں۔ جب افراد مختلف نظریات کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو یہ ان کے دماغ میں نئے خیالات کو جگانے کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، آرٹ اور ادب میں مختلف ثقافتوں کے عناصر کو ملانا ایک نئی تخلیق کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے، جو نہ صرف فن کے میدان میں بلکہ معاشرتی مسائل کے حل میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بھی مختلف نقطہ نظر کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف قوموں اور ان کے طریقوں زندگی کا ذکر موجود ہے، جو مسلمانوں کو مختلف نقطہ نظر سے سوچنے اور سمجھنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں دوسروں کی آراء کا احترام کرنا چاہیے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں بہتری لا سکیں اور ایک متوازن معاشرہ قائم کر سکیں۔
اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ احترام نہ صرف باہمی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہیں، تو ہم ایک مثبت ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں لوگ آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں اختلافات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے، اور ان کے حل تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ایک سالم معاشرہ رواداری اور ہمدردی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ جب افراد ایک دوسرے کے خیالات اور جذبات کا احترام نہیں کرتے، تو یہ معاشرتی تناؤ اور اختلافات کا باعث بنتا ہے۔ رواداری کی بنیاد پر معاشرے میں امن و سکون کی فضاء پیدا ہوتی ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی معاشرے میں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں، تو ان کے درمیان رواداری اور ہمدردی کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم کر سکیں۔
ہمیں دوسروں کی بات سننے اور سمجھنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ یہ عادت ہمیں مختلف نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور ہمارے ذہنی افق کو وسیع کرتی ہے۔ جب ہم دوسروں کی باتیں سنتے ہیں، تو ہمیں ان کے احساسات اور تجربات کا پتہ چلتا ہے، جو ہمیں ہمدردی کی طرف مائل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک استاد جب اپنے طلباء کی باتیں سنتا ہے تو وہ ان کی ضروریات اور مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے، جس سے وہ ایک مؤثر طریقے سے ان کی مدد کر سکتا ہے۔
تعصب اور جزمیت سے بچنا بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمیں دوسروں کی رائے کو سننے اور سمجھنے سے روکتی ہیں۔ تعصب ہمیں ایک خاص سوچ تک محدود کرتا ہے، جبکہ جزمیت ہمیں نئی معلومات کے قبول کرنے میں دشواری پیش کرتی ہے۔ ایک متوازن معاشرتی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نظریات کو کھلے ذہن سے دیکھیں اور دوسروں کی آراء کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
اسلامی تعلیمات میں رواداری اور ہمدردی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں مختلف قوموں اور ان کے عقائد کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر فرد کی رائے اور عقیدہ کا احترام کیا جائے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں بھی رواداری اور ہمدردی کی بہترین مثالیں موجود ہیں، جو ہمیں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور ہمیں ایک مثالی معاشرتی زندگی کی طرف گامزن کرتی ہیں۔
آج کے دور میں اختلاف کے آداب کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا کے اثرات کے سبب۔ سوشل میڈیا نے اختلاف کو ایک کھلا میدان بنا دیا ہے، جہاں لوگ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے بغیر کسی غور و فکر کے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فوری طور پر رائے زنی کی اجازت دیتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اکثر غیر ذمہ دارانہ انداز میں بات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹوئٹر یا فیس بک پر ایک بحث کی شکل میں لوگ ایک دوسرے کے خیالات کو رد کرنے کے بجائے ذاتی حملوں کا سہارا لیتے ہیں، جو کہ عدم برداشت کی علامت ہے۔ اس کے نتیجے میں اختلافات کو حل کرنے کی بجائے وہ مزید بڑھ جاتے ہیں اور سماجی ماحول میں تلخی پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح، قطبی سیاست بھی اس مسئلے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی حریف جماعتوں کو بدنام کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں، جس سے معاشرے میں دو طرفہ تقسیم بڑھ جاتی ہے۔ اس قسم کی سیاست افراد کو صرف دو جماعتوں کے ارد گرد منظم کرتی ہے، جہاں ہر شخص اپنے نظریات کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے کے نظریات کو رد کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف سیاسی اختلافات بڑھتے ہیں بلکہ افراد کے درمیان نفرت اور عدم برداشت بھی بڑھتی ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو کہ ایک صحت مند سیاسی بحث کو ختم کر دیتا ہے اور عوامی سطح پر تقسیم پیدا کرتا ہے۔
تعصب اور جزمیت بھی اس مسئلے میں ایک اہم عنصر ہیں۔ بہت سے افراد اپنے خیالات کو حتمی اور ناقابل تردید سمجھتے ہیں، جس کے باعث وہ دوسروں کی رائے کو سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ تعصبی رویہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم دوسرے لوگوں کی باتوں کو سمجھیں یا ان کے تجربات کا احترام کریں۔ جب ہم اپنی رائے کو مکمل طور پر صحیح سمجھنے لگتے ہیں تو یہ معاشرتی اختلافات میں مزید شدت پیدا کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک شخص اپنے عقیدے یا نظریے پر اصرار کرتا ہے تو اس کے ارد گرد کے لوگ اس سے دور ہو سکتے ہیں، جس سے معاشرتی تعلقات میں دراڑ پیدا ہوتی ہے۔
ان تمام عوامل کے پیش نظر، یہ واضح ہے کہ آج کے دور میں اختلاف کے آداب کی کمی ایک بڑی چیلنج ہے، جس کے لیے ہمیں ذمہ دارانہ رویے اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک مزید متوازن اور باہمی احترام پر مبنی معاشرہ قائم کر سکیں۔
اختلاف کی رواداری کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ تعلقات کو مضبوط بناتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کے خیالات اور نظریات کا احترام کرتے ہیں، تو ان کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ٹیم میں جب مختلف افراد اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکتے ہیں، تو اس سے نہ صرف تعلقات میں مضبوطی آتی ہے بلکہ افراد کے درمیان باہمی احترام بھی بڑھتا ہے۔ یہ رواداری افراد کو اپنی خامیوں اور طاقتوں کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی اجازت دیتی ہے، جو کہ ایک صحت مند معاشرتی ماحول کے لیے ضروری ہے۔
مسائل کے حل کے حوالے سے، اختلاف کی رواداری بات چیت اور سمجھوتے کے ذریعے مسائل کے حل تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب لوگ اپنے اختلافات کو کھل کر بیان کرتے ہیں، تو وہ نئے خیالات اور حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دو دوست جو ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں، اگر وہ اپنے اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ایک ایسا حل تلاش کر سکتے ہیں جو دونوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس طرح، مسائل کے حل کی یہ رواداری ایک مؤثر طریقہ ہے جس کے ذریعے اختلافات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اختلاف کی رواداری ایک سالم اور پرامن معاشرے کی بنیاد بھی ہے۔ جب افراد ایک دوسرے کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں، تو اس سے معاشرتی امن و امان قائم ہوتا ہے۔ لوگ اپنی آراء کا اظہار کرنے میں آزاد ہوتے ہیں اور اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرتی ترقی اور خوشحالی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ یہ رواداری افراد کے درمیان آپسی تعاون کو بھی فروغ دیتی ہے، جس سے معاشرت میں اتحاد کی فضا قائم ہوتی ہے۔
سلامی تعلیمات میں اختلاف کی رواداری کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں مختلف قوموں اور ان کے عقائد کے احترام کی تاکید ہے، جو رواداری کا واضح پیغام ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں بھی رواداری اور ہمدردی کی بہترین مثالیں موجود ہیں، جو ہمیں سکھاتی ہیں کہ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ اس طرح، اختلاف کی رواداری نہ صرف معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرتی ہے بلکہ ایک خوشحال معاشرہ قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اختلاف کی صورت میں کئی ایسی باتیں ہیں جن سے پرہیز کرنا ضروری ہے تاکہ ہم ایک مثبت ماحول میں رہ سکیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اختلاف کو ذاتی حملے میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ جب ہم کسی کے خیالات یا رائے پر تنقید کرتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ہم اس کی شخصیت کو نشانہ نہ بنائیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کے نظریات سے اختلاف ہے تو ہمیں اس کے خیالات پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ اس کی شخصیت پر۔ ذاتی حملے کسی بھی بحث کو غیر مؤثر بنا دیتے ہیں اور معاشرتی تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
دوسری جانب، ہمیں غلط فہمیاں پیدا کرنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ اکثر، اختلاف کی صورت میں بات چیت کی کمی یا عدم وضاحت کی وجہ سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ ان غلط فہمیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی بات کو واضح طور پر بیان کریں اور دوسروں کی بات کو بھی اچھی طرح سنیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ہم کسی بات کا اندازہ لگانے سے پہلے پوری معلومات حاصل کریں۔ اس طرح ہم اختلافات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ان کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔
تشدد کا سہارا لینا بھی ایک بڑی غلطی ہے جس سے اختلاف کی صورت حال بگڑ سکتی ہے۔ چاہے وہ جسمانی تشدد ہو یا زبانی، دونوں ہی صورتوں میں مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تشدد کا استعمال کسی بھی اختلاف کو حل کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ صورتحال کو مزید بگاڑ دیتا ہے اور متاثرہ افراد کے درمیان نفرت کی بنیاد رکھتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ پرامن طریقے سے اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت نرم رویہ اختیار کریں۔
اختلاف کی صورت میں ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے خیالات کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، بلکہ دوسروں کی رائے سننے اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ عمل ہمیں ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کرنے کی تربیت دیتا ہے اور ایک صحت مند بحث کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس طرح، ہم ایک مثبت اور تعمیری ماحول میں اختلافات کو سمجھنے اور حل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
انسانی معاشرت میں اختلافات کا وجود ایک فطری حقیقت ہے، مگر بعض اوقات یہ اختلافات کی شدت بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بھی بنتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم کردار منافقت اور تعصب کا ہوتا ہے۔ منافقت اور تعصب دونوں ہی انسانی فطرت کے کمزور پہلو ہیں، جو کہ معاشرت میں نفاق، عدم اعتماد، اور تقسیم کا باعث بنتے ہیں۔ ان عوامل کی موجودگی میں لوگوں کے درمیان باہمی احترام، رواداری، اور ہمدردی کی جگہ نفرت اور تعصب کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ یہ مضمون ان عناصر کے کردار کا تفصیل سے جائزہ لے گا، جو کہ اختلافات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
منافق لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ افراد اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے دوسروں کے ساتھ دھوکہ دہی کرتے ہیں۔ جب کسی مسئلے پر ان کی رائے مخالف ہو، تو وہ اس اختلاف کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی پوزیشن کو مستحکم بنا سکیں۔ مثال کے طور پر، کسی سیاسی جماعت کے ممبر کو اپنی پارٹی کی کامیابی کی خاطر مخالف جماعتوں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں مصروف رہنے کا موقع ملتا ہے، جو کہ نہ صرف ان کے ذاتی مفادات کے حصول میں مددگار ہوتا ہے بلکہ اس سے معاشرت میں نفرت اور تقسیم بھی بڑھتی ہے۔ اس طرح کے رویے سے نہ صرف معاشرتی توازن بگڑتا ہے بلکہ یہ افراد کی خود اعتمادی کو بھی متاثر کرتا ہے، جو کہ انسانی تعلقات میں اہمیت رکھتی ہے۔
منافق لوگ جھوٹ اور چال بازی کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ افراد اپنی بات چیت میں مخلص نہیں ہوتے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف چالیں چلتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کا یہ عمل انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی نے کسی معاملے میں اپنی رائے دی ہے، تو ایک منافق شخص اس رائے کو تبدیل کرنے کے لیے جھوٹے شواہد پیش کر سکتا ہے تاکہ اپنی بات کو درست ثابت کرسکے۔ اس طرح کی چال بازی لوگوں کے درمیان عدم اعتماد پیدا کرتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی باتوں پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جو کہ ایک صحت مند معاشرتی ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔
منافق لوگ تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں اور حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تعصب کی حالت میں، افراد اپنے نظریات کو اتنا اہم سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ دوسروں کی رائے کو سننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی سوچ کے خلاف کسی بھی دلیل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے معاشرت میں تقسیم اور تفرقہ بڑھتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی شخص کا سیاسی نظریہ ایک خاص جماعت کے حق میں ہے تو وہ اس جماعت کے مخالفین کی باتوں کو سننے سے گریز کرتا ہے، جس سے ایک ایک طرفہ سوچ کی بنیاد رکھتا ہے۔ تعصب کے اس شکار ہونے کی حالت میں، انسان اپنے معاشرتی تعلقات کو متاثر کرتا ہے اور معاشرت میں غیر متوازن رشتے پیدا کرتا ہے۔
منافقیت اور تعصب معاشرتی اختلافات کی شدت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ذاتی مفادات کی خاطر اختلافات کو ہوا دینا، جھوٹ اور چال بازی کا سہارا لینا، اور تعصب کا شکار ہونا، یہ سب عناصر انسانی معاشرت میں نفرت اور عدم اعتماد کی فضا قائم کرتے ہیں۔ ان مسائل کا حل معاشرتی باہمی احترام اور سمجھوتے میں ہے، جس کی بدولت ہم ایک خوشحال اور متوازن معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رویوں کا جائزہ لیں اور منافقت اور تعصب سے دور رہنے کی کوشش کریں تاکہ ہم ایک بہتر معاشرتی ماحول میں رہ سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp