حضور سید علی احمد صابر کلیری کی حیات و خدمات
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
اللہ تعالیٰ کے بعض مقدس بندوے اپنی عبادت و ریاضت، زہد وتقویٰ، علم وعمل اور کمال صبر سے بام عروج پر پہنچے، جن کو بھلانے سے دنیا قاصر ہے۔ انہیں مقدس ہستیوں میں سے ایک ہستی پروردہ آغوش ولایت، گنجینہ علم و معرفت، وارث علوم و معارف شیخ العالم، جگر گوشہ غوث الاعظم، آفتاب چشتیاں، تاج الاولیاء، سلطان الاصفیاء، منبع جود و سخا، عاشق ذات الٰہ، لحضرت شیخ علاء الدین سید علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ۔
نام و نسب:
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام: سید علی احمد، لقب:علاء الدین صابر، والد کا نام:سید عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہم۔
آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے: سید علاء الدین علی احمد صابر بن سید عبدالرحیم بن سید عبدالسلام بن سید سیف الدین بن سید عبد الوہاب بن غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی بن سید ابو صالح موسٰی جنگی دوست بن سید ابوعبداللہ بن سید یحیٰی بن سید محمد بن سیدداؤد بن سید موسٰی ثانی بن سید عبداللہ بن سید موسٰی جون بن سید عبداللہ محض بن سید امام حسن مثنٰی بن سید امام حسن بن سیدنا علی المرتضٰی بن طالب بن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ تھیں، اور سلسلہ نسب امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ تک منتہی ہوتاہے۔(تذکرہ اولیائے بر صغیر، جلد دوم:207)
سلسلہ نسب میں حضورﷺ سے اتصال:
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے اور انیسویں پشت میں عبد المطلب پر جا کر حضورﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے۔
ولادت باسعادت:
حضور صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 19 ربیع الاول 592ھ بمطابق 19 فروری 1196ء بروز جمعرات بوقت تہجد ہرات افغانستان میں ہوئی۔
تعلیم وتربیت:
حضور صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم ہرات (افغانستان) میں ہی حاصل کی، پھر جب آپ کے والدصاحب کا انتقال ہوگیا تو آپ کی والدہ نے آپ کو اپنے بھائی حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے سپر د کردیا ۔ آپ نے اپنی حیرت انگیز صلاحیت کی بنا پر صر ف تین سال کے مختصر عرصے میں کئی علوم ظاہری حاصل کیے جیسا کہ حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں: علاء الدین علی احمد صابر نے تین سال میں عربی و فارسی کی کتب متداولہ، فقہ، حدیث، تفسیر، منطق و معانی وغیرہا علوم کی تکمیل کی۔ یہ سب علوم اتنی جلدی حاصل کر لئے کہ کوئی دوسرا بچہ پندرہ سال میں بھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔(حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری، ص،48)
بیعت و خلافت:
حضور صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں شیخ شیوخ العالم، زہدالانبیاء،حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے، مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت سےمشرف ہوئے۔
کلیر شریف آمد:
حضور صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ جب 10 ذوالحجۃ 646ھ یا 650ھ میں 33 سال کی عمر میں کلیر تشریف لائے تو یہ ایک عظیم الشان اور بارونق شہر تھا۔ دولت کی فراوانی، وسیع و عریض عمارتیں اور مزین و آراستہ مکانات نے اس شہر کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا لیکن اس شہر کا ظاہرجس قدرروشن تھا اس شہر کے مکینوں کا باطن اسی قدر تاریک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حضرت سیدنا علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ انتہائی بدسلوکی سے پیش آئے۔(محفل اولیاء، ص، 383 ملخصاً، حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری، ص،68،ماخوذاً)
کمال صبر نے صابر بنا دیا:
سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم بزرگ حضرت بابافریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگا ہ میں آپ کے سعادت مند بھانجے اور مرید تربیت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے سب سے پہلے فرض اورنفل نمازوں پر استقامت اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی اور انہیں لنگرخانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ چونکہ مرشد نے لنگر کی تقسیم کا حکم فرمایا تھا اس میں سے کھانے کی صراحت نہیں کی تھی لہٰذا یہ سعادت مند مرید حکم مرشد کی بجا آوری کرتے ہوئے لنگر خانے سے کھانا تقسیم فرماتا لیکن خود ایک لقمہ بھی نہ کھاتا۔ پورا دن روزے سے رہتا اورجنگلی درخت کے پتوں، کونپلوں، پھلوں اور پھولوں سے افطار کرلیا کرتا۔ ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اس مجاہدے کی وجہ سےجسم نہایت کمزور اور لاغر ہوگیا۔ جب حضرت بابافریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سعادت مند بھانجے اور کامل مرید کی یہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو آپ نے پوچھا: آپ کھانا تقسیم کرکے خود بھی کچھ کھاتے ہیں یا نہیں؟سعادت مند مرید نے نظریں جھکالیں اور یہ خوبصورت جواب بارگاہ مرشد میں عرض کیا: عالی جاہ! آپ نے کھلانے کا حکم ارشاد فرمایا تھا، مجھ میں اتنی جرأت کہاں کہ مرشد کی اجازت کے بغیر ایک دانہ بھی کھا سکوں؟یہ جواب سن کر حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ سعادت مند بھانجے اور کامل مرید کے کمال صبر سے بہت خوش ہوئے اور سینے سے لگا کر صابر کا لقب عطا فرمایا۔(اللہ کے خاص بندے،ص،578 ملخصاً، سیرالاقطاب، ص،200،ملخصاً، خزینۃالاصفیاء، 2/ص153 ملخصاً، اقتباس الانوار، ص،498،ملخصاً، بہاء الدین زکریا ملتانی، ص،86)
شب و روز کے معمولات:
حضور صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ کے شب وروز اللہ کی یاد میں گزرتے، لوگوں کی صحبت سے کنارہ کش رہتے، آپ اکثر خاموش رہا کرتے، آپ کی خاموشی میں بھی ایک کشش تھی اور جب کبھی آپ کچھ ارشاد فرماتے تو فقط ایک جملے میں کئی سوالوں کے جوابات عطا فرمادیتے۔آپ اپنی کرامتوں کو چھپاتے، اگر کوئی اس کا ذکربھی کرتا تو اسے نہایت خوبصورتی سے ٹال دیتے، آپ تارک الدنیا بزرگ تھے لیکن دنیا کی اصلاح کو اپنا فرض سمجھ کر ادا فرماتے، ان قیمتی اوصاف کی بناء پر آپ دنیا کی رونق تھے۔(حضرت مخدوم علاءالدین علی احمد صابر کلیری، ص،81،ماخوذاً)
غذا اور لباس:
حضرت سیدنا علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ اکثر روزے سے رہتے، آپ اکثر پانی میں ابلا ہوا بے نمک گولر تناول فرماتے، بس یہ ہی آپ کی خاص غذا تھی۔اور آپ کا لباس کرتا، تہبند اورعمامہ شریف پرمشتمل ہوا کرتا۔(کتاب المفردات، ص، 424،سیر الاقطاب مترجم، ص،200،ملخصاً،صفات الکاملین،ص،141،حضرت مخدوم علاءالدین علی احمد صابر کلیری، ص،80،ملتقطاً)
سیرت و خصائص:
آپ شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم، تلمیذ ارشد، حقیقی بھانجے، اور داماد اور سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے بانی ہیں۔
حضرت غوث الاعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے نسبی تعلق ہے۔آپ مادر زاد ولی اللہ تھے۔ زندگی کے پہلے سال میں آپ ایک دن دودھ پیتےتھے اور دوسرے دن دودھ نہیں پیتے تھے، گویا اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب زندگی کا دوسرا سال شروع ہوا تو تیسرے دن دودھ پیتے تھے اور دو روز دودھ نہیں پیتے تھے گویا دو دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ دو سال کے ہوگئے تو دودھ پینا چھوڑ دیا، جب چوتھا سال شروع ہوا اور آپ کی زبان کھلی تو سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا۔ لَامَوجُودَاِلَّااللہ
جب چھ سال کے ہوئے تو کھانا پینا برائے نام رہ گیا۔ رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارنے لگے۔ جب ساتواں سال شروع ہوا تو آپ نے نماز تہجد پابندی سے پڑھنا شروع کر دی۔ (تذکرہ اولیاء پاک وہند:63)
انتقال سے باخبر کرنا:
حضور صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا: جب آپ سے کوئی کرامت ظاہر ہو تو سمجھ لیجیے گا کہ میر ا انتقال ہوگیا ہے۔جس دن حضرت سیدنا شمس الدین ترک سے کرامت ظاہر ہوئی فورا کلیرشریف حاضرہوئے اور آپ کی تجہیز و تکفین، تدفین خود فرمائی۔(محفل اولیاء، ص،386،ملخصاً)
وصال و مدفن:
حضور صابر پاک رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 13 ربیع الاول 690ھ بمطابق 15 مارچ 1291ء کو ہوا۔ آپ کا مزار پر انوار کلیر شریف ضلع سہارنپور یوپی ہند میں نہر گنگ کے کنارے مرجع الخلائق ہے۔(خزینۃ الاصفیاء ج،2 ص، 159،محفل اولیاء،ص، 386،ملخصا)