کیا قائداعظم محمد علی جناحؒ سیکولر ذہن کے مالک تھے؟؟؟
(25دسمبریوم قائداعظم کے موقع پر خصوصی تحریر
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے عام تصور یہ پھیلایا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادین ذہن کے مالک تھے،جبکہ انکی زندگی کےمتعدد واقعات اس غلط تصوراور فرضی خیال کی مکمل نفی کرتے ہیں۔بہت اوائل اور نوجوان عمری میں جب کہ انسان کی اپنی سوچ ابھی پختہ نہیں۔
ہوئی ہوتی اور گھریلوتربیت کا بہت سا اثر باقی ہوتا ہے جب قائداعظم محمد علی جناحانگلستان پہنچے اور قانون کی تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے کےانتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو دواداروں میں سے اس ادارے کا انتخاب کیا جس کے باہر دنیا کے مشہور قانون دانوں کی فہرست میں سب سے اوپرمحسن انسانیت ﷺ کا نام مبارک لکھا تھا۔قانون کی تعلیم سے فارغ ہوئے لندن کے ایک ڈرامیٹک کلب (سٹیج ڈرامہ)میں شمولیت اختیار کر لی اوران سے ادائگی کا چیک بھی وصول کر لیا۔ایک ڈرامے کی مشق کے دوران قائد اعظم سے کہا گیا کہ ایک لڑکی کے چہرے پر بوسہ لیں،اس وقت ان کی عمر19برس کی تھی،ہندوستان کے ایک نوجوان کے لیے یہ محض ایک حسین خیالی بات تھی کہ وہ لندن جیسے شہر میں برطانوی لڑکی کا بوسہ لے لیکنقائداعظم نے محض یہ کہ کر ڈرامے کا یہ منظر مشق کرنے سے انکار کر دیا کہ میرے مذہب میں اسکی اجازت نہیں ہے۔ہندوستان میں اپنے والد بزرگوار محترم پونجا جناح کو خط لکھا کہ میں قانون کی تعلیم میں آگے بڑھنے کی بجائے ڈرامے کے میدان کاانتخاب کیا ہے اور ایک کلب میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔والد نے جوابی خط میں سختی سے اس بات سے منع کیا اور حکم دیا کہ فوراََ کلب سےمستعفی ہو کر تو قانون کی مزیدتعلیم جاری رکھو۔قائد اعظمؒ نے ابھی وہ چیک بھنوایا نہ تھا اور بغیر کسی پس وپیش کے یہ کہ کر کلب والوں کو لوٹا دیاکہ یہ میرے والد کا حکم ہے اور میرے مذہب میں والدین کی نافرمانی کی گنجائش نہیں۔قانون کی تعلیم کے بعد ہندوستان لوٹے اوربمبے میں وکالت کاآغاز کیا۔بمبے آزاد خیالی میں اس زمانے کے دوران بھی لندن اورپیرس سے کسی طور کم نہ تھا،ایک نوجوان اور خوبصورت مجوسی لڑکی قائداعظمپر فریفتہ ہو گئی،ہر طرح سے مایوس ہو چکنے کے بعدجب اس نے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو قائداعظم نے کہا مذہب کا اختلاف اسکی اجازت نہیں دیتا۔وہ مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئی تو اٹھارہ سال کی قانونی مدت پوری ہونے تک اسے ایک سال کا انتظار کرنا پڑا۔ایک برس بعد وہ عدالت سے مسلمان ہونے کی ڈگری لائی تب قائداعظم نے اس سے نکاح کیا۔
ہندوستان کے حالات سے مایوس ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر انگلستان سدھار گئے کہ اب نہ لوٹیں گے۔لیکن آفریں ہو علامہ ڈاکٹر
محمداقبال پرجنہوں نے خط لکھ کر انہیں واپس بلایا اور غلامی کے اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے تیار کیا۔سوال یہ ہے کہ قائداعظم اگر سیکولراور لادین ذہن کے مالک تھے تو علامہ اقبال جیسا درد دل رکھنے والا بنیاد پرست مسلمان کی نظر انتخاب ان پر کیوں پڑی؟کیاعلامہ محمد اقبال جیسا راسخ العقیدہ مسلمان کہ جس کا ہاتھ تاریخ کی نبض پر تھا وہ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایک لادین شخص کا انتخاب کرتا؟ہرگز نہیں گزشتہ مذکورہ واقعات اور ان صفحات میں آئندہ آنے والی تحریری شہادتیں اس امر کی قطعی نفی کرتی ہیں۔
تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی تقاریر جہاں پاکستان کو نظریاتی اساس فراہم کرتی ہیں وہاں انکے ذہن تک رسائی کا بھی ایک وقیع ذریعہ ہیں،ذیل میں انکی تقاریر سے چند اہم اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں:
”کوئی شبہ نہیں کہ لوگ ہمارا مدعا پوری طرح نہیں سمجھتے،جب ہم اسلام کا ذکر کرتے ہیں تو اسلام صرف چندعقیدوں،روایتوں اورروحانی تصورات کا مجموعہ نہیں۔اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اسکی زندگی اور کردار کو سیاست اورمعیشیت تک کے معاملات میں انظبات عطا کرتا ہے“قائد اعظم(کرم حیدری،قائداعظم کا اسلامی کردار،صفحات101,102مکتوبات حرمت راولپنڈی1984ء(”قرآن مجید کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔زندگی کا روحانی پہلو ہو یاسیاسی معاشرتی اور معاشی غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔“قائداعظم(کرم حیدری،قائداعظم کا اسلامی کردار،صفحہ103)”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفا کیش کا مرجع خدا کی ذات ہے۔۔۔۔قرآن مجیدکے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول واحکام کی حکمرانی ہے۔“قائداعظم(کرم حیدری،قائداعظم کا اسلامی کردار،صفحہ103(”وہ کونسا رشتہ ہے جس میں تمام مسلمان منسلک ہو کر جسد واحد کی طرح ہو جاتے ہیں۔وہ رشتہ خدا کی کتاب قرآن مجیدہے،ایک خدا ایک رسول ایک امت“قائداعظم(سعیدراشد،قائداعظم گفتاروکردار،صفحہ513،مکتبہ میری لائبریری لاہور1986(”ہماری اسلامی تہذیب کو کوئی نہیں مٹا سکتا،اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ہمارا نور ایمان زندہ ہے،ہمیشہ زندہ رہے گا۔دشمن بے شک ہمارے اوپر ظلم کرے،ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھے لیکن ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کر لیا ہے اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مریں گے“قائداعظم(آغا اشرف۔مرقع قائد اعظم صفحی41مقبول اکیڈمی لاہور1992)
”مسلمان ایک جھوٹے احساس سلامتی میں مبتلائے فریب رہے اور اقلیت کی اصطلاح کو تاریخی،آئینی اور قانونی سمجھا جانےلگا لیکن مسلمان کسی حیثیت سے بھی یورپی ممالک کی اقلیت نہیں ہیں،ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی طرح بھی اقلیت نہیں ہیں بلکہ ہم اپنےنصب العین کے ساتھ بجائے خود ایک علیحدہ اور ممتاز قوم ہیں“قائداعظم(ڈاکٹر اسعد گیلانی،اقبال،قائداعظم اور مولانا مودودی،صفحہ75)”پاکستان اس دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا،مسلمانوں کی قومیت کا بنیادی کلمہ توحید ہے وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کی جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ نہ ہندؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔“
قائداعظم کے ان فرمودات واضع طور پر یہ پتہ دیتے ہیں کہ وہ کبھی بھی سیکولر نہیں رہے،زمانہ طالب علمی اور پیشہ ورانہ زندگی کےواقعات اور تحریک پاکستان کے دوران تقریروں کے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں اسلامی تعلیمات پوری طرح راسخ تھیں۔ایک بارانہوں نے قرآن مجید کو بھی پوری طرح پڑھ چکنے کا عندیہ دیا تھالیکن اردو،عربی اور فارسی سے بہت زیادہ واقفیت نہ ہونے کے باعث وہ ہندوستان کی روایتی مذہبیت سے دور ہی رہے۔پھرکیایہ ایک تاریخی شہادت نہیں ہے کہ غازی علم دین شہیدؒکامقدمہ قائداعظم نے اس وقت مفت لڑا تھاجب کہانکاشمار ہندوستان بھر کے مہنگے ترین وکیلوں میں ہوتاتھا۔قائداعظمنے پیرصاحب آف مانکی شریف کو تحریک پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دی۔پیرصاحب فرماتے ہیں کہ میں بہت پریشان ہواکہ بغیرداڑھی والے کی قیادت کیونکرقبول کی جائے،انہوں نے ذہنی کشمکش کے باعث استخارہ کیااوردیکھاکہ میدان عرفات میں آپﷺبے شمارحاجیوں کے درمیان کھڑے ہیں اورسب حجاج نے سفیداحرام زیب تن کیے ہوئے ہیں لیکن ایک شخص بدیسی لباسمیں آپ ﷺکے ساتھ کھڑاہے اور آپﷺ اس کی طرف بہت التفات اور محبت فرمارہے ہیں،پیرصاحب کہتے ہیں کہ میری طرف اس شخص کی پشت تھی پھرجب میں نے آگے بڑھ کر دیکھاتووہ قائداعظم محمعلی جناح تھے۔
تحریک پاکستان کے دوران ہندو قیادت نے انگریز سے مراعات لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں نہرو کی بیوی سے تعلقات تک کا ذکر بھی کیا ہے،لیکن اس طرح کے ماحول میں رہنے اور طویل جنگ لڑنے کے باوجودمحترمہ فاطمہ جناح کو مردوں سےہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ تھی،حتی کہ کسی نے انہیں ننگے سر بھی نہ دیکھا۔تقسیم ہندمیں اس طرح کے رویے سے مسلمانوں کا نقصان بھی ہوا لیکن قائداعظم نے یہ ثابت کیا کہ ایک سچے مسلمان کے لیے ایمان اورشرم و حیا سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا۔زیارت ریذیڈنسی میں قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے،انکے خدمت گار سے جب ان ایام کا احوال پوچھا گیا تو اس نے بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ انکی آخری نماز کا بھی تذکرہ کیا،اس کے بقول قائداعظم باقائدگی سے فقہ حنفی کے مطابق نماز ادا کرتے تھے آخری نمازجو انہوں نے ادا کی اس کا حال خدمگار کی زبانی سنئے”ظہر کی نمازکی ادائگی کے بعد انہوں نے کہا کہ عصر کا وقت ہوتے ہی مجھے بیدار کر دینا میں نے کہا جی اچھا،لیکن آنکھ کھلنے پر انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ابھی عصر کا وقت نہیں ہوا؟ میں کہا ہو چکا ہے لیکن آپ ابھی آرام کر لیں،میں تھوڑی دیر بعد آپ کو نماز پڑھا دوں گا کیونکہ نقاہت بہت زیادہ تھی،انہوں نے فرمایا کہ نہیں اول وقت میں نماز کی ادائگی پسندیدہ ہے پس تکیہ میری کمر کے نیچے کر دو تو میں نماز پڑھ لوں،وضو کےبعد، یہ انکی زندگی کی آخری نماز تھی جس کے بعد وہ قومے میں چلے گئے اور بالآخر اللہ تعالی سے جا ملے“۔قائداعظمؒ کے اس خدمگارکی یہ روایت ہمارے استاد محترم مولانا عبدالمجید اخوان مرحوم کے ذریعے براہ راست ہم تک پہنچی۔
قائد اعظم کی اولادچونکہ اسلام سے گریزاں رہی اسی لیے قائد اعظم بھی ان سے گریزاں رہے اور پورا بڑھاپا کنواری بہن کے کندھے پر
ہاتھ رکھ کر گزار دیا۔جب انتقال ہوا تو وصیت میں یہ لکھ کر گئے کہ ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق چونکہ مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا اس لیے میرے ترکے میں سے ایک پائی بھی میری اولاد کو نہ دی جائے اور اپنی کل جائدارجس کی کثرت کا اندازہ اس بات سےلگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں انکے پاس اپنا ذاتی ہوائی جہاز تھا،ساری کی ساری نوزائدہ اسلامی مملکت پاکستا ن میں مدرسۃ الاسلام سندھ اوراسلامیہ کالج پشاور کے نام کر گئے۔قائداعظم اگر سیکولراور لادین خیالات کے مالک ہوتے توعلامہ شبیر احمد عثمانی جیسے جید عالم دین انکی نمازجنازہ کیوں پڑھاتے؟،علامہ صاحب مرحوم سے منقول ہے کہ مجھے خواب میں حکم ہواتھاکہ یہ مراسپاہی ہے اورآپ اس کاجنازہ پڑھائیں۔ٹھیک ہےوہ اس طرح سے مذہبی انسان نہ تھے جس کا تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے لیکن بہرحال وہ ایک راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔جن فاضل مصنفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس سے بھی قائداعظم کے پختہ ایمان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر کسی زمانے میں ان پر سیکولر خیالات کا سایہ رہا بھی ہے تو وہ اسلام اور قرآن کے مطالعے کے بعد ان فرسودہ خیلالات سے دستکش ہوکرتوشعوری طورپر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور ایک سچے مسلمان اور امت محمدی ﷺ کے فردکی حیثیت سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہواکرتا ہے،اگر قائداعظم کی نیت ایک سیکولر ریاست بنانے کی تھی تو وہ ریاست اسلام کا قلعہ کیسے بن گئی؟حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تبلیغ و ارشاد کے لیے یہاں سے جماعتیں روانہ ہوتی ہیں،دنیا بھر میں جہاں جہاں جہاد کا میدان سجااس کے لیے اسی مملکت خداداپاکستان نے اپنے سپوت اور عسکری راہنمائی کے ساتھ ساتھ ممکنہ وسائل بھی فراہم کیے،تین سو سال کے بعد امت کو دفاع کے میدان میں ایٹمی قوت کی خوشخبری اسی اسلامی ریاست سے میسر آئی اور مستقبل میں بھی مشرق سے مغرب تک کل مسلمانوں کی امیدیں اسی پاکستان سےوابسطہ ہیں گویا پاکستان،اس حدیث نبوی ﷺ کی عملی تصویر بنا کہ ”مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے“ اوراس سب کا سہرا قائداعظم کے سرہے۔دراصل تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں پر ملوکیت کا سایہ ہویاغلامی کی اندھیری غار،غداروں کی دغا بازیاں ہوں یا دشمن کے پالتو لوگوں کی حکمرانیاں،سازشوں کے جال ہوں یا تہذیبی و ثقافتی یلغار اس امت کی کوکھ قیادت کے میدان میں ہمیشہ سرسبزو شاداب رہی ہے،یہ آخری نبیﷺ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے اقوام عالم کو صدیوں کے بعد کوئی قابل قدر راہنما میسر آتا جسے وہ قرنوں تک یاد رکھتے ہیں اور کتنی ہی قومیں محض اس لیے تاریخ کے صفحات میں دفن ہو گئیں کہ انہیں کوئی راہنما میسر نہ آیا جبکہ امت مسلمہ کا دامن کبھی بھی مخلص دیندار اور جرات مند قیادت سے خالی نہیں رہا۔
اللہ کرے مدارس اسلامیہ سے قال اللہ تعالی اور قال قال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند ہوتی رہیں،اللہ کرے مساجد کے مینار صدائے بلالی کےامین رہیں،اللہ کرے ختم نبوت اور علی مولائیت سے اس امت کے نوجوانوں کے سینے سرشار رہیں اور اللہ کرے اس امت کا اجتماعی ضمیرہمیشہ زندہ و تابندہ رہے کہ یہی عناصر ہیں بانی پاکستان جیسی صاف ستھری قیادت کی فراہمی کے اور یہی امت کے روشن مستقبل کے سنگ ہائے میل ہیں اورمیرے اللہ نے چاہا تو وہ دن دور نہیں جب یہی پاکستا ن شاعر مشرق کے خوابوں کی سچی حسین تعبیر بنے گا اور اس مملکت کی وجہ جواز نظریہ پاکستان کے منکر راندہ درگاہ ہو کرہمیشہ کے لیے لعنت و ملامت کا نشان بن کر عبداللہ بن ابی،میر جعفر اور میر صادق کی صف میں شامل ہوں گے۔