وقف ترمیمی بل 2025: ایک جائزہ

تحریر: علیم الدین زیڈ
ڈگری اسکالر: جامعہ دارالہدی اسلامیہ، ملاپورم، کیرالا
ہندوستان میں جمہوریت اور آئین کی پامالی کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اور حالیہ وقف ترمیمی بل اس کی تازہ ترین کڑی ثابت ہو رہا ہے۔ یہ بل نہ صرف مسلمانوں کے آئینی حقوق پر براہِ راست حملہ ہے بلکہ اس کے ذریعے حکومت اقلیتوں کو سیاسی طور پر بے اثر کرنے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی مذموم سازش کر رہی ہے۔ 27 جنوری 2025، پیر کے روز، مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کو منظور کرکے یہ واضح کر دیا کہ ملک میں جمہوریت صرف ایک دکھاوا رہ گئی ہے۔
حقیقت میں، یہ اقدام ہندوستانی جمہوری و سیکولر اقدار کو منہدم کرنے کی ایک خطرناک سازش کا حصہ ہے۔مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے حالیہ وقف ترمیمی بل میں حکومت کی پیش کردہ 14 ترامیم کو تو بلاتامل منظور کر لیا، مگر دوسری طرف، اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 44 ترامیم کو مکمل طور پر رد کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف اقلیتوں کے آئینی حقوق پر کھلی جارحیت ہے بلکہ اس امر کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ حکومت اکثریتی طبقے کی خوشنودی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، چاہے اس کے لیے اقلیتوں کے حقوق اور ملک کے جمہوری و آئینی ڈھانچے کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔
وقف املاک مسلمانوں کے لیے ایک مقدس امانت ہیں، جو صدیوں سے عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں، یتیم خانوں اور رفاہی کاموں کے لیے وقف کی گئی ہیں۔ لیکن اس ترمیمی بل کے ذریعے حکومت کی منشا یہی نظر آتی ہے کہ وہ ان املاک کو اپنے کنٹرول میں لے کر مسلمانوں کو ان کے ہی اثاثوں سے محروم کر دے۔ یہ قانون اقلیتوں کے مذہبی، سماجی اور تعلیمی حقوق پر زبردست حملہ ہے اور اس کے نتائج دور رس اور سنگین ہو سکتے ہیں۔حکومت کا یہ طرز عمل اس بات کا غماز ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر ملک کو ایک اکثریتی آمریت کی طرف دھکیل رہی ہے۔ وقف ترمیمی بل کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق اور ان کی خود مختاری کو محدود کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، وہ نہ صرف دستورِ ہند کی روح کے خلاف ہے بلکہ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے منظم امتیاز کی ایک اور واضح مثال بھی ہے۔
اس صورتحال میں اپوزیشن اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اس ترمیمی بل کے خلاف بھرپور احتجاج کریں اور اس ناانصافی کو عالمی سطح پر اجاگر کریں۔ ہندوستان کے جمہوری اور سیکولر تشخص کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ تمام انصاف پسند طبقات اس اقدام کی مخالفت میں اپنی آواز بلند کریں اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کے دفاع کے لیے متحد ہوں۔ اگر اس بل کو نافذ کر دیا گیا تو یہ ہندوستان کے آئینی و جمہوری ڈھانچے کے لیے ایک زبردست دھچکا ہوگا، اور اقلیتوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) میں اپوزیشن کے محض 10 ارکان شامل تھے، جبکہ حکومتی اتحاد این ڈی اے کے ارکان کی تعداد 16 تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 572 تجاویز میں سے ایک بھی اپوزیشن کی تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جمہوری عمل کو محض نمائشی بنا دیا گیا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے تمام ترامیم کو عجلت میں منظور کرایا اور اپوزیشن کو اپنی بات کہنے کا موقع بھی فراہم نہ کیا۔ یہ طرز عمل جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کسی بھی اختلافی آواز کو دبانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
ترمیمی بل کے تحت وقف بورڈ کے انتظامی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ اس میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت اور وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) کے عہدے پر غیر مسلم کو مقرر کرنے کی شق شامل ہے۔ مزید برآں، وقف املاک پر مسلمانوں کے ملکیتی حق کو غیر قانونی قرار دے کر ان کے انتظامات سرکاری افسران کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں تقریباً 6 لاکھ 13 ہزار وقف جائیدادیں موجود ہیں، جن کی مجموعی مالیت کھربوں روپے ہے۔ ان جائیدادوں کا تحفظ مسلمانوں کی سماجی، مذہبی اور ثقافتی شناخت کا لازمی جز ہے، لیکن اس بل کے ذریعے انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومت کی اس پالیسی کے پیچھے دراصل یہ ایجنڈا کارفرما ہے کہ اقلیتوں کو ان کے مذہبی اور آئینی حقوق سے محروم کر کے اکثریتی طبقے کے مفادات کو ترجیح دی جائے۔ اس وقت دہلی اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور یہ بل حکومت کی طرف سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نظر آتا ہے۔ اپوزیشن کے ارکان نے بارہا اس معاملے پر تفصیلی بحث کی ضرورت پر زور دیا، لیکن ان کی آواز کو مکمل طور پر دبا دیا گیا۔ یہ صورتحال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستان میں جمہوری اقدار کو کمزور کیا جا رہا ہے اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 31 ارکان پر مشتمل تھی، جن میں سے 10 ارکان کا تعلق اپوزیشن سے تھا۔ اپوزیشن نے اس بل میں 44 ترامیم کی تجویز دی، لیکن کمیٹی نے ایک بھی ترمیم کو قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس، این ڈی اے کی جانب سے پیش کردہ 23 ترامیم میں سے 14 کو منظور کر لیا گیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ جمہوری عمل کا محض ایک دکھاوا کیا گیا، جبکہ حکومت نے اپنی من مانی کو اولین حیثیت دی۔
اس متنازعہ بل کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے مذہبی اداروں، مساجد، مزاروں، قبرستانوں اور دیگر وقف جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ اقدام ہندوستان کے آئین میں دیے گئے آرٹیکل 25 سے 30 کے تحت اقلیتوں کو حاصل مذہبی آزادی کے بنیادی حق پر براہ راست حملہ ہے۔ ملک کی تقریباً تمام بڑی مسلم تنظیموں نے اس بل کی پرزور مخالفت کی ہے اور اسے اقلیتوں کے آئینی حقوق کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے، لیکن صرف قانونی چارہ جوئی کافی نہیں۔ اس مسئلے پر ملک بھر میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو متحد ہو کر سخت موقف اختیار کرنا ہوگا۔
یہ معاملہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے اور آئینی اصولوں کے تحفظ کا بھی ہے۔ اگر آج مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، تو کل دیگر اقلیتوں کی باری بھی آ سکتی ہے۔ حکومت کو یہ واضح پیغام دینا ہوگا کہ ہندوستان میں فسطائیت اور آمریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس بل کو قانون بننے سے روکنا ملک کے آئینی اور جمہوری مستقبل کے لیے نہایت ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp