نیا سال 2025 گزارنے کا بہترین طریقہ‎

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
یہ دنیا فانی ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ سب فانی ہے یعنی ختم ہونے والی ہیں۔ اسی طرح نیا سال آنا اور اس کا جانا یہ سب فانی ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ وقت بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے،سال آتا ہے، پھر دوسرا آجاتا ہے۔ سال کے آنے جانے کی رفتار سے انسان کیوں یہ نصیحت حاصل نہیں کرتا اس کو بھی اس دارفانی سے کونچ کرنا ہے۔ صد افسوس! آج انسان اپنی زندگی کا اصل مقصد ہی بھول بیٹھا ہے اور اس کا رجحان اس اشیا کی طرف ہے جو فانی ہیں اور اکثر لوگ اپنی زندگی کے مقصد کی تعین کے سلسلے میں کج فہمی کا شکار ہیں۔اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہے کیوں کہ وہ ایمان و ہدایت سے محروم ہیں لیکن نہایت تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ جسے اللہ نے اپنے پیارے رسول محمدﷺ اور اپنی آخری کتاب یعنی قرآن کریم کے ذریعہ مقصد زندگی سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا، آج اس سے غافل ہوکر کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی طرح دنیوی زندگی اور اس کے متعلقات کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بناچکی ہے۔مال و دولت اور آرام و آسائش کی چیزوں کا حصول، دنیوی جاہ و منصب اورحشم و خدم کی تمنا ہی اب اکثر افراد کی زندگی کا مقصد رہ گیا ہے، الا ماشاء اللہ۔ عصری علوم و فنون کی طلب اور ان پر مہارت ہے تو اسی کے لئے، زراعت و تجارت ہے تو اسی کے لئے یا پھر حکومت و وزارت ہے تو بھی اسی کے لئے حالانکہ یہ دنیا نہ تو آرام و آسائش کی جگہ ہے اور نہ ہی اس کے حصول کی کوشش اس عارضی زندگی کا مقصد ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق یہ تمام چیزیں جن کے لئے لوگ کوشاں ہیں انسان کی آزمائش کے لئے ہیں نہ کہ آشائش کے لئے بلکہ انسان کا وجود ہی مکمل آزمائش سے عبارت ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الملک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: “اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے”۔انسان اگر کائنات کے اندر پھیلی ہوئی اشیاء پر غور و فکر کرے تو اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہے گا کہ تمام چیزیں خواہ وہ نباتات ہوں، حیوانات ہوں یا جمادات ہوں یا ہو ا اور پانی کا نظام ہو یا پھر مکمل نظام شمسی ہو، یہ سب انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی پیدا کئے گئے ہیں۔ ہر چیز کے وجود کا ایک مقصد ہے اور وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ حضرت انسان کی خدمت میں مصروف رہ کر اپنے مقصد وجود کو پورا کررہی ہے۔ تو کیا انسان جو اس کائنات میں مخدوم کی حیثیت سے ہے اور تمام مخلوقات سے برتر و اشرف ہے یوں ہی بے مقصد اور بے کار پیدا کیا گیا ہے اور خود سے کمتر چیزوں کا حصول ہی اس کی زندگی کا مقصد ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے اور اس کی وضاحت سورہ الذاریات میں کی ہے: ترجمہ: “ہم نے انسان و جنات کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت (بندگی) کے لئے”۔ گویاکہ انسان کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضا کا حصول ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا ہدف بنائیں، اپنے وقت اور زندگی کی قدرکریں کہ 2024 تو غفلتوں میں گزر گیا، لیکن 2025 ہمیں غفلتوں میں بالکل نہیں گزارنا۔
اپنا شیڈول بنایئے:
سب سے پہلے اپنی زندگی میں ترتیب لائیے،سستی کو دور بھگائیے اور ہر کام وقت پر انجام دیجیے۔ہوسکے تو اپنا ٹائم ٹیبل/ شیڈول بنائیے اور پھر سختی سے اس پر عمل پیرا رہیے۔
ضیاع وقت سے پرہیز کیجئے:
ایسے کاموں سے خود کو بچائیے جن کا حاصل وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہ ہو مثلاً بلاضرورت انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ویڈیو گیمز پر گھنٹوں صرف کرنا، فضول بحثوں اور بے فائدہ گپ شپ میں مصروف رہنا وغیرہ۔ زندگی اور موت کا کوئی بھروسہ نہیں لہٰذا اپنی آخرت کو ہرگز فراموش نہ کیجیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت کے سبب آخرت میں پچھتانا پڑے۔ اس لئے دنیا کی زندگی کو غنیمت جانئیے۔
وقت کی قدر کیجئے:
وقت اللہ پاک کی عظیم ترین نعمت ہے، جو امیرو غریب، چھوٹے بڑے سب کو یکساں اور مفت ملی ہے، جس نے اس نعمت کی قدر کی وہی کامیاب ہے اور جس نے اسے ضائع کردیا وہ خسارے میں ہے۔ تنہائی میں غور کریں کہ گذشتہ سالوں میں کہاں، کیسے اور کن کاموں میں پڑکر ہمارے قیمتی اوقات برباد ہوئے ان ساری باتوں سے پرہیز کریں۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ یعنی آدمی کے اسلام کی خوبی سے یہ ہے کہ وہ فضول کاموں کو چھوڑ دے۔(ترمذی)
نماز روزہ کی پابندی:
خدانخواستہ اگر قضا نمازیں یا روزے ہوں تو جلد از جلد ادا کرلیجیے۔اور 2025 میں یہ عہد کر لیں کہ اس سال نماز پابندی سے ادا کرتا رہوں گا۔ فرض ہونے کی صورت میں زکوٰۃ،حج ادا کیجئے۔حقوق العباد تلف ہوئے ہوں تو معافی تلافی، صلح صفائی میں دیر نہ کیجیے۔علم دین حاصل کرنے کیلئے وقت نکالیے۔قرآن کریم اگر درست نہیں پڑھا تو اس سال تو یہ اہم ترین کام کرہی لیجیے۔
گناہوں سے توبہ کیجیے:
گزشتہ سالوں میں اللہ و رسول کی جو نافرمانیاں ہوئی ہیں اگر وہ حقوق اللہ سے متعلق ہیں تو ان سے بارگاہ رب العالمين میں سچی توبہ کریں اور اگر ان گناہوں کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد سے بھی ہے تو توبہ کے ساتھ ان بندوں سے معافی مانگیں، ان کے حقوق ادا کریں اور انہیں راضی کرنے کی کوشش کریں۔ نیز اس بات کا عہد کریں کہ گذشتہ سال جو غلطیاں اور گناہ سرزد ہوئے اب وہ اس سال نہ ہوں گے۔
سخت آزمائش نے دنیا کو یہ سکھا دیا ہے کہ کوئی بھی مصیبت بتا کر نہیں آتی۔ لہٰذا اس جیسی ممکنہ آفات سے نپٹنے کیلئے قبل از وقت ہی تیار رہنا ضروری ہے۔ اپنی آمدنی کو فضول جگہوں پر اڑانے کے بجائے جمع کریں یا پھر کسی کاروبار میں صرف کریں۔ تا کہ لاک ڈاؤن جیسے صبر آزما وقت میں اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔
نیکوں کی صحبت:
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نیکوں کی صحبت سے انسان نیک اور بروں کی صحبت سے برا بنتا ہے، اس لیے ہمیں بددین، بدعقیدہ، دین سے بیزار، فاسق و فاجر، بدخلق اور برے لوگوں سے دور رہنا چاہیے۔ فارسی زبان کا مقولہ ہے:” صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالح ترا طالح کند“ یعنی اچھوں کی صحبت تجھے اچھا بنائے گی اور بروں کی ہم نشینی تجھے خراب کردے گی۔نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:”الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُر أَحَدُكُم مَنْ يُخَالِل” ترجمہ: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص یہ دیکھ لے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔(ابو داؤد)
تباہی میں ڈالنے والی برائیاں:
ہمیں چاہئے کہ ان برائیوں سے خود کو بچائیں جو ہماری دنیا اور آخرت کو برباد کردیں، مثلاً: جھوٹ، غیبت،چغلی،زنا، حرام خوری،سود خوری، بہتان، بدگمانی، حسد، کینہ، غصہ، کاہلی وغیرہ۔
دعا:
اللہ کریم ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارا سال 2025 سال 2024 سے بہتر بنائے آمین بجاہ النبی ﷺ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *