نبیﷺ کی حیات طیبہ امت کے لیےمشعل راہ ہے
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
حضورﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے کامل نمونہ قرار دیا ہے۔
نام و نسب:
آپﷺ کا نام محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: میرے بہت سے نام ہیں۔ میں محمد، احمد، ماحی، حاشر، عاقب ہوں۔
آپ ﷺکا نسب سب سے پاکیزہ اور اعلی ہے۔حضور ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے اسماعیل علیہ السلام کو، پھر نبی اسماعیل سے کنانہ، نبی کنانہ سے قریش، قریش سے بنو ہاشم، بنو ہاشم سے مجھے منتخب فرمایا۔ (مسلم شریف)
ولادت باسعادت:
آپﷺکی ولادت باسعادت آپﷺکے والد ماجد حضرت عبداللہ کی وفات کے بعد 12 ربیع الاول بروز پیر صبح صادق کے وقت کو ہوئی۔ آپﷺکے دادا حضرت عبدالمطلب کو یتیم پوتے کی پیدائش پربے حدخوشی ہوئی اورانہوں نے آپﷺ کا نام احمد رکھا۔ وقت کے دستورکے مطابق آپﷺاپنی ولادت کے کچھ عرصہ بعدقبیلہ بنوسعدکی ایک دیہاتی خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے سپردہوئے تاکہ دیہات کی کھلی فضاء میں تندرست رہنے کے علاوہ خالص عربی بولناسیکھ لیں کیونکہ بنوسعد اپنی فصاحت میں مشہورتھے۔ اللہ کے محبوبﷺ خود اس بات پرفخرکرتے تھے کہ ان کی زبان بنی سعدکی زبان ہے۔
کفالت و پرورش:
آپﷺ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے پاس چارسال تک پرورش پاتے رہے۔ اس کے بعد اپنی والدہ محترمہ کے پاس آگئے۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدحضرت آمنہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہرکی قبرمبارک کی زیارت کے لئے ہرسال مدینہ جایا کرتی تھیں، جب آپﷺ کی عمرمبارکہ چھ سال کی تھی تو آپﷺ کی والدہ ماجدہ آپﷺ کو اپنے ہمراہ لے کر اپنے شوہرحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قبرکی زیارت کے لئے لے گئیں۔ واپسی مقام ابواء پر آپﷺ کی والدہ بیمارہوگئیں اوروہیں انتقال فرماگئیں۔
دادا کا وصال:
آپﷺ چھ سال کی عمرمیں ماں اور باپ دونوں کی محبت وشفقت سے محروم ہوگئے۔ والدہ کے انتقال کے بعد آپﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتے کو دامن تربیت میں لے لیا۔ دوسال بعد آپﷺ کے داداحضرت عبدالمطلب دنیا فانی سے رحلت فرماگئے۔
آپﷺ کا نکاح و اعلان نبوت:
آپﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپﷺ کی پرورش کا ذمہ جناب ابوطالب نے لے لیا۔ بارہ سال کی عمرمیں آپﷺ نے جناب ابوطالب کے ہمراہ شام کا تجارتی سفرکیا۔ آپﷺنے اپنے چچاکے زیرسایہ پرورش پا کر آہستہ آہستہ جوانی کی عمرکوپہنچے۔ جب آپﷺکی عمرپچیس سال کوپہنچی تو جناب ابوطالب کی اجازت سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمرچالیس سال تھی۔چالیس سال کی عمرمیں آپﷺنے اعلان نبوت کیا۔تبلیغ کا یہ سلسلہ جاری وساری رہا جب کفارومشرکین نے ظلم وستم کی انتہا کر دی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ کوہجرت فرمائی۔
صادق و امین کا لقب:
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ہر قسم کی برائی سے محفوظ رکھا اور اعلی اخلاق پر فائز فرمایا۔ آپﷺ بچپن ہی سے صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ ﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے حجر اسود کو نصب کرنے میں تنازعہ ہوا تو آپ ﷺ نے ان کا بہتر فیصلہ فرمایا اور سارے سردار آپﷺ کے اس فیصلے پر راضی ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ امین ہیں ہم سب آپ ﷺ سے راضی ہیں۔
نبوت و رسالت:
آپﷺ پر 17رمضان المبارک بروز پیر غار حرا میں 40 سال کی عمر میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ وحی اترنے کی وجہ سے آپﷺ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا، سخت سردیوں میں بھی پسینے سے شرابور ہوجاتے، آپﷺ اپنے لیے کچھ اندیشہ محسوس کیے تو ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو تسلی دی اور کہا اللہ کی قسم! وہ کبھی آپﷺ کو رسوا نہیں کرے گا، آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور مصیبت پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پہلی وحی کے بعد کچھ مدت تک کے لیے وحی کا سلسلہ بند ہوگیا جس پر آپﷺ غمگین ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دوسری وحی سورہ مدثر کی ابتدائی آیتیں نازل فرمائی۔ ان آیتوں کے بعد آپﷺ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دینا شروع کردیا۔ جس پر مکہ والے آپﷺ کے دشمن ہوگئے اور ایذاء، تکلیف پہنچانا شروع کردیے۔ آپﷺ کے چچا جناب ابو طالب ڈھال کے مانند آپﷺ کی مدد کی۔ ابتدائی تین سال تک خفیہ طور پر دعوت کا کام کرتے رہے اور جب علانیہ دعوت کا حکم آیا تو آپﷺ نے علی الاعلان دعوت دینا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی (اپنی قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ (القران) تو آپﷺ نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر آواز لگائی جس پر آپ ﷺ کے خاندان والے اکٹھا ہوگئے۔ آپﷺ نے علی الاعلان دعوت دی ’’میں تم لوگوں کو سخت عذاب سے ڈراتا ہوں‘‘ ابولہب نے کہا تیری بربادی ہو کیا تو نے اسی لیے ہم سب کو جمع کیا تھا۔
آپ ﷺ نے ایام حج میں مدینہ کے چھ لوگوں کو دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ ان کے دعوت سے مدینہ میں کافی لوگ مسلمان ہوئے جس کے بعد خفیہ طور پر بیعت عقبیٰ پیش آئی اور جب مدینہ میں اسلام کا بول بالا ہوا تو آپﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو مدینہ ہجرت کا حکم دے دیا۔
ہجرت مدینہ:
مدینہ کی زمین اسلام کی اشاعت کے لئے ہموار ہوگئی تھی چنانچہ اللہ کے حکم سے آپﷺ مدینہ کا رخ کیے۔آپﷺ کے ساتھ امیر المؤمنین سیدنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ دشمنوں نے تعاقب کیا جس پر آپﷺ نے غارثور میں تین دن قیام فرمایا پھر مسلسل سفر کے بعد مدینہ پہنچے جہاں آپﷺ کا زبردست استقبال کیا گیا۔ اسی زمین میں آپﷺ نے اپنی مسجد اور گھر تعمیر فرمایا۔
غزوات:
قیام مدینہ کے درمیان آپ ﷺ اشاعت دین میں مکمل مصروف ہوگئے۔ گاہے بگاہے رکاوٹیں آنے لگی تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے جنگیں لڑی گئیں۔ جملہ ستائیس غزوات واقع ہوئیں۔ غزوۂ بدر ۱۷رمضان ۲ھ میں پیش آیا جس میں مسلمانوں کو واضح فتح حاصل ہوئی۔
تواضع و انکساری:
آپﷺ نے ہجرت کے بعد صرف ایک حج ادا کیا اور چار عمرے کیے۔ آپﷺ سب سے زیادہ سخی، راست باز، نرم مزاج، متواضع، حیا دار، بردبار، سب سے زیادہ دلیر اور بہادر تھے۔ غیظ و غضب سے دور تھے، کبھی بھی اپنی نفس کے لیے بدلہ نہیں لیتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں حضورﷺ کی خدمت میں دس سال تک رہا میرے کسی کام پر آپﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں نے اگر کوئی کام کیا تو کیوں نہیں کیا؟ ایسے جملے کبھی آپﷺ نے نہیں فرمائے۔ البتہ اگر اللہ کی حرمت پامال ہوتی تو اللہ کے لیے آپﷺ بدلہ لیتے۔ دسترخوان پر جو کچھ بھی ملتا کھالیتے، کھانوں میں کبھی عیب نہیں نکالتے، مہینوں آپ کے گھر میں آگ نہیں جلتی، مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں حاضر ہوتے، فقراء مساکین کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ہنسی مذاق بھی کبھی کیا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ آپﷺ تمام اخلاق عالیہ کے حسین پیکر تھے۔
وصال مبارک:
آپﷺ 12 ربیع الاول ۱۱ھ بروز پیر بوقت چاشت 63 سال کی عمر میں ظاہری دنیا سے وصال فرمایا۔ وصال کے وقت آپﷺ کا سر مبارک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گود میں تھا۔
تجہیز وتکفین اور تدفین:
آپﷺ کو حضرت علی، حضرت عباس، حضرت اسامہ بن زید، حضرت شقران، اور حضرت قثم، یا حضرت ابو سفیان بن الحارث رضی اللہ عنہم نے غسل دیا اورحضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے قبر انور مبارک کھودی۔ آپﷺ کے جسد اطہر مبارک کو حجرہ عائشہ میں دفن کردیا گیا۔
نماز جنازہ:
غسل و تکفین کے بعد آپﷺ پر لوگوں نے باری باری نماز جنازہ ادا کی۔ آپﷺ کو ظاہراً ترسٹھ سال کی عمر ملی جس میں سے تئیس سال رسالت کے تھے۔ تیرہ سال مکہ اور دس سال مدینہ میں رہے۔ اس ذات مبارکہ اور مقدسہ پر ان گنت رحمتیں، برکتیں، سعادتیں اور درود و سلام نازل ہو۔ آمین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و ازواجہ واولادہ واصحابہ اجمعین وسلم تسلیماکثیرا کثیرا۔