مَہر:ایک قَرض

ازقلم: ڈاکٹرمحمّد عظیم الدین (اکولہ،مہاراشٹر)
نکاح کی رات برقی قمقموں کی روشنی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ مہمانوں کی چہل پہل، عطر بیز ہواؤں کی مستی اور قہقہوں کی دل آویز گونج ہر جانب پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن اس جشن کے ہنگامے میں بھی، فاطمہ کا دل ایک انجانی کسک سےبوجھل تھا۔ در و دیوار نورِ سحر کی طرح جگمگا رہے تھے، مگر اس کی نگاہیںجیسے کسی ان دیکھے اندھیرے میں اُلجھ کر رہ گئی تھیں۔ وہ کسی دُور افتادہ خیال کی قیدی، اپنے اندر ہی گم سم بیٹھی تھی۔مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا اور جب حقِ مہر کی باری آئی تو فاطمہ کے والد نے دو ٹوک انداز میں، گویا فیصلہ سنا دیاسات ہزار ارمان نے بظاہرخوش دلی سے، مگر درحقیقت بے دلی سےقبول ہےکہہ دیا، لیکن اس کےوالد نے فوراً معاملے کو رفع دفع کرتے ہوئے سرگوشی کیارے بیٹا، فکر نہ کرو۔ ہم رخصتی کے وقت اسے ہنسی خوشی معاف کرا لیں گے، تمہیں کچھ دینانہیں پڑے گا،فکر مت کرو۔ارمان نے بے نیازی سے ہلکی سی گردن ہلا دی۔ رخصتی کے وقت ماں نےفاطمہ کے کان میں فکرمندی سے، اور گویا اسے مصیبت سے بچا رہی ہو، کہابیٹی، ساس مہر کا ذکر کرے تو بلا تامل معاف کر دینا۔ یہی سمجھ داری ہے، اوریہی زمانے کا دستور بھی۔فاطمہ کے دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا۔ ذہن میں خیال آیا،اگر دینا ہی نہیںتھا، تو پھر لکھوایا کیوں؟ خاموش رہی، اور سوچا کہ وقت آنے پر دیکھا جائےگا۔ مگر حیرت انگیز طور پر، کسی نے اس کا ذکر تک نہ کیا۔ وہ سات ہزار، جونکاح کے وقت لکھے گئے تھے، وقت کی گرد میں کہیں گم ہو گئے۔ دن مہینےبیتے ، اور یوں ہی ہنستے کھیلتے زندگی کے چھ سال گزر گئے۔ان چھ سالوں میں، بظاہر سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہا،لیکن فاطمہ کی زندگی اب ایک نئی صبح کی منتظر تھی۔ دل میں ایک مُدھم سی امید چمک رہیتھی۔ ایک ایسا موڑ قریب تھا کہ سب کچھ پہلے سے بہتر ہو جانے والا تھا۔ روح ایک روشن روحانی مستقبل کی آہٹ محسوس کر رہی تھی۔ اندر ہی اندر ایک روحانی خوشخبری کی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔شادی کی ساتویں سالگرہ پر، اس کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہونے والا تھا۔خوشی کی اس ارجمند گھڑی میں ارمان نے فاطمہ کو ترجمہ والا قرآن تحفے میںدیا۔ خوبصورت،دیدہ زیب قرآن دیکھ کر فاطمہ بہت خوش ہوئیں۔ اُس نے احتراماًاسے بوسہ دیا اور ارمان کا شکریہ ادا کیا۔میں ہمیشہ سے قرآن کو سمجھ کرپڑھنا چاہتی تھی وہ مسکرائیں۔ ارمان نے بھی حوصلہ افزائی کی تو پھر آج سے ہی شروع کرو، اور سمجھ کر پڑھو فاطمہ نے اسی دن سے روزانہ قرآن پڑھنا شروع کر دیا، آیات پر غور کرتیں اور ترجمہ سمجھتیں۔ قرآن اب اس کےلیے صرف ایک مقدس کتاب نہیں، بلکہ زندگی کی رہنمائی بن گیاتھا ۔ایک دن قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے، فاطمہ کی انگلیاں سورۃ النساء کی اس آیت پر جا رکیں:عورتوں کو ان کا مہر خوش دلی سے ادا کروآیت پڑھ کرفاطمہ نے ہمت جمع کی اور ارمان سے قدرے ہچکچاتے ہوئے کہا،ارمان، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، عورت کا مہر اس کا حق ہے ارمان نے اخبار سے نظریںہٹائے بغیر،مصنوعی ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیا ،اچھا، اب یہ بھی دیکھناباقی رہ گیا تھا کہ تم مجھے حساب کتاب سکھاؤ گی۔ میں تم پر، تمہارے بچوں پرہزاروں خرچ کرتا ہوں، کیا یہ کم ہے جو تمہیں ابھی بھی وہ سات ہزار یاد ہیں؟فاطمہ نے نرمی اور قدرے پُرعزم لہجے میں جواب دیا،یہ کوئی رسم نہیں،ایک شرعی حق ہے۔ مگر زبردستی معاف کروانا، خوشی سےچھوڑ دینا نہیں کہلاتاارمان نے خفگی سے کہا،یہ سات ہزار، سات ہزار کا ورد کیوں کر رہی ہو! کیامیرا ساتھ تمہیں ان سات ہزار روپیوں سے بھی کم نظر آتا ہے؟فاطمہ خاموش ہوگئیں ۔ وقت بیتنے لگا، بچے بڑے ہونے لگے، مگر وہ سات ہزارکبھی ادا نہ ہوئے۔گزرتے وقت کے ساتھ، ارمان اور فاطمہ کے درمیان مذہبی امور میں دلچسپی بڑھنے لگی۔ فاطمہ کی ترغیب پر، ارمان نے مسجد جانا بھی شروع کر دیا۔ وہ فاطمہ کے ساتھ مل کر قرآن کی تلاوت کرتا، اور دینی کتابیں پڑھنے میں دلچسپی لینے لگا۔ رمضان میں، اس نے فاطمہ کے ساتھ روزے رکھنے شروع کیے، اورعید اور بقرعید پر مذہبی جوش و خروش میں شریک ہونے لگا۔ ان مشترکہ مذہبی سرگرمیوں نے ارمان کے دل میں ایمان کی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔ اب اسے محسوس ہونے لگا کہ دنیاوی زندگی ہی سب کچھ نہیں، بلکہ آخرت کی تیاری بھی ضروری ہے۔ اس فکر نے اس کے دل میں گھر کرنا شروع کر دیا۔پھر ایک رات… جب ارمان گہری نیند میں تھا کہ اچانک اس نے خود کو ایک اجنبی اور پراسرار مقام پر پایا۔ اس کے سامنے ایک ایسا باغ تھا جس کی روشنی سورج زیادہ لطیف،مگر انتہائی دلکش تھی۔درخت چاندی کی طرح چمک رہےتھے، پھول سونے کے بنے ہوئے تھے، اور نہریں دودھ اور شہد کی روانی سےبہہ رہی تھیں،خوشبو ایسی کہ روح بے خود ہو جائے۔ ارمان اس خوبصورتی میںکھو گیا، اور بے اختیار آگے بڑھنے لگا، مگر فوراً ہی ایک نورانی چہرے والےدربان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور اسے سختی سے روکتے ہوئےکہنے لگا ۔یہ جنت معلیٰ ہے، ایمان والوں کی ابدی قرار گاہ ، تمہارا یہاں آنا منع ہے۔ارمان کی پیشانی پر سرد پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔ دل کی دھڑکن بےقابو ہو کر سینے میں شور مچانے لگی۔بے بسی اور اضطراب سے بھرے لبوںسےبمشکل الفاظ ادا ہوئےمیں نے تو نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے ، اورزکوٰۃ بھی ادا کی ہے!نمازیں، روزے، زکوٰۃ اور حج ،یہ سب اللہ کے حقوق ہیں، اور وہ غفور الرحیم ہے، معاف کر دے گا، دربان کی آواز گونجی مگر بندوں کے حقوق؟ وہ تب تک معاف نہیں ہوں گے جب تک تم اسے پورا نہ کردو ، یا وہ خود تمہیں معاف نہ کر دیں۔دربان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ،تم پر ایک قرض باقی ہے۔ سات ہزار روپے، جو تمہاری بیوی کا حقِ مہر ہے۔ارمان کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ وہ ….…وہ تو صرف ایک رسم تھی! اس نےسہمی ہوئی آواز میں کہا۔دربان نے اپنی نورانی آنکھیں اٹھائیں اور انتہائی سخت لہجے میں جواب دیا،
قرآن کے حکم کو تم رسم کہتے ہو؟وہ دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹا، گرد و پیش پر نظر ڈالی۔ ایک لمحے کے لیےاسے لگا جیسے فاطمہ ٹھیک سامنے قرآن لیے کھڑی ہے۔اس کا چہرہ چاندنی رات کی طرح پُرسکون اور آنکھوں میں ستاروں کی سی چمک تھی، مگر خاموش لبوںپر وہی سوال جمود کی طرح ثبت تھا، جو وہ ہمیشہ پوچھا کرتی تھی کیا میراحق صرف ایک مذاق تھا؟دور کہیں سے ایک صدا ابھری، جو پوری کائنات میں گونجنے لگی….!!یہاں وہی داخل ہو سکتا ہے، جو پاکیزہ ہے، جس نے کسی کا حق نہیں مارا!ارمان تڑپ اٹھا،وہ چیخنا چاہتا تھا،مگرآوازکنگ ہو گئی۔اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔سانسیں دھونکنی کی طرح تیز اور بے ترتیب چل رہی تھیں، بدن پسینے سےتر بتر، کپڑے بوجھل ہو چکے تھے۔ کچھ لمحے وہ سکتے کے عالم میں بیٹھا رہا۔پھر اس نے پُراضطراب نگاہوں سے کمرے کے کونے پر بیٹھی فاطمہ کودیکھا، جو بدستور تلاوتِ قرآن میں محو تھی۔وہ خاموشی سے قرآن کے صفحات پر انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک ایسی پرسکون کیفیت تھی، جوارمان کے اندر کی بے چینی کے بالکل برعکس تھی۔ ایک طرف ارمان کامضطرب وجود تھا،اور دوسری طرف فاطمہ یخ بستہ ایمان کا مرقع، دونوں ایک ہی کمرے کی فضا میں سانس لیتے ہوئے بھی، دو جداگانہ جہانوں میں جی رہےتھے۔ارمان خاموشی سے بستر سے اُٹھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ پھرآہستگی سے لوٹ کر فاطمہ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔جاگ گئے؟ کیا بات ہے، آج اتنی صبح؟فاطمہ نے مسکراتےہوئے دھیمےلہجے میں پوچھا۔ارمان نے فاطمہ کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیا، اور اس کی آنکھوں میں دیکھنےلگا۔ وہی آنکھیں…جن میں آج بھی، گردشِ ایام کے باوجود، معصومیت اورپاکیزگی کا ایک لازوال جہاں آباد تھا۔ ایک لمحہ سکوت کی گہرائی میں ڈوب گیا،پھر وہ دھیمے سے بولاہاں فاطمہ، آج ہی تو میں اصل میں جاگا ہوں۔اتنا کہہ کر وہ آہستہ قدموں سے کمرے سے باہر نکل گیا۔ فاطمہ نے چونک کراپنے ہاتھوں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ان میں سات ہزار روپئے رکھے ہوئےتھے۔اسی وقت کہیں دور، مسجد سے حَیَّ عَلَی الْفَلَاح (آؤ کامیابی کی طرف) کی صداگونج رہی تھی، جو فضا کو پاکیزگی سے بھر رہی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp