مولانا ابوالکلام آزاد: ایک ہمہ جہت شخصیت!
محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
مولانا ابوالکلام آزاد ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے جن کی زندگی، علمی و فکری خدمات، اور قومی و سماجی کردار ہندوستان کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو مختصراَ سے بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے نظریات، خدمات اور کارناموں کا جامع انداز میں جائزہ لیا جا سکے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، جن کا اصل نام محی الدین احمدہے ، 11 نومبر 1888 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ان کا خاندان مذہبی طور پر ایک مضبوط پس منظر رکھتا ہے۔ ان کے والد مولوی خیر الدین ایک عالم دین تھے، جن کا تعلق ہندوستان کے ضلع دہلی سے تھا۔ والدہ عرب النسل تھیں اور ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے یہ علمی ماحول ان کی ابتدائی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔مولانا آزاد کا خاندان کچھ عرصے بعد ہی ہندوستان منتقل ہو گیا اور ان کی تعلیم کا سلسلہ وہاں جاری ہوا۔ انہوں نے اسلامی علوم، عربی ادب، فلسفہ، اور فارسی زبان میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کی۔ یہ علمی بنیاد ان کی زندگی بھر کے فکری اور تحقیقی کام کا حصہ بنی۔
مولانا آزاد برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستانی آزادی کی جدوجہد میں ایک عظیم رہنما کے طور پر ابھرے۔ ان کے والد مولوی خیر الدین ایک اسلامی عالم تھے، جس کی وجہ سے ان کی ابتدائی تعلیم اسلامی اصولوں پر ہوئی اور وہ عربی، فارسی، اور اسلامی علوم میں مہارت رکھتے تھے۔مولانا آزاد ایک عظیم مفکر، مفسر قرآن، صحافی اور سیاستدان تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کو بیدار کرنے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے الہلال اور البلاغ جیسے رسائل شائع کیے، جن میں انہوں نے آزادی، قومی اتحاد اور اسلامی فلسفے پر زور دیا۔ ان کی تحریریں اور خطبات ہندوستانی عوام میں انقلابی جوش پیدا کرتے تھے۔آزادی کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیر تعلیم بنے اور تعلیمی اصلاحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا آزاد نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ ہم بستگی کی بات کی اور ہندوستانی معاشرے کو محبت، امن اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ ان کی شخصیت کو آج بھی ایک رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
مولانا آزاد نے بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے خیالات کا اظہار تحریری شکل میں شروع کیا۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے لیے صحافت کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ان کا سب سے مشہور رسالہ الہلال تھا، جس کا آغاز 1912 میں ہوا۔ اس رسالے کے ذریعے انہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی۔ الہلال میں وہ اپنے انقلابی خیالات کو بیان کرتے، اسلامی فلسفے کو دور جدید کے تناظر میں پیش کرتے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اتفاق کی بات کرتے۔
برطانوی حکومت کو ان کے خیالات ایک خطرہ محسوس ہوئے، جس کی وجہ سے الہلال پر پابندی لگا دی گئی۔ پابندی کے بعد مولانا آزاد نے دوسرا رسالہ البلاغ جاری کیا، لیکن اس پر بھی جلد پابندی عائد کر دی گئی۔ ان کے رسائل و جرائد نے ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد کو ایک نئی روح دی اور ان کے الفاظ نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔
مولانا آزاد نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک انقلابی کی حیثیت سے کیا اور جلد ہی انڈین نیشنل کانگریس کے اہم رکن بن گئے۔ ان کی پہلی سیاسی گرفتاری 1920 میںخلافت تحریک کے دوران ہوئی۔ مولانا آزاد ہمیشہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قائل تھے اور انہوں نے مسلمانوں کو کانگریس کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک مشترکہ قوم ہیں اور انہیں متحد ہو کر ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کرنا چاہیے۔1940 میں کانگریس کے اجلاس میں مولانا آزاد صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنی قیادت میں ”ہندوستان چھوڑ دو” تحریک کو زور و شور سے آگے بڑھایا۔ ان کی تقاریر اور خطبات میں آزادی کے لیے جوش و ولولہ پایا جاتا ہے، اور وہ اپنی قوم کو ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کی شخصیت نے انگریزوں کو اس ملک سے باہر نکال پھینکا۔
مولانا آزاد ایک ایسے عالمِ دین تھے جنہوں نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی کی بات کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندوستان کی ترقی میں مذہبی اختلافات رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔ ان کے نزدیک اسلام ایک ایسا دین ہے جو امن و محبت کا پیغام دیتا ہے، اور مسلمان اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ امن سے رہتے ہیں۔ ان کی تقاریر میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کی تلقین ملتی ہے ، اور انہوں نے قرآن و حدیث کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ ایک مسلمان دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ میل جول بہت سے عقیدت مندی کے ساتھ رکھتا ہے ۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب ترجمان القرآن میں بھی اس بات کا ذکر کیا کہ اسلام کا پیغام محبت اور بھائی چارے کا ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ تمام انسانیت کو یکجا ہونا چاہیے اور انسان کو انسانیت کی خدمت کرنی چاہیے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
مولانا آزاد کی علمی خدمات میں ان کی کتاب ترجمان القرآن ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب قرآن پاک کی تفسیری تشریح ہے جس میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا۔ ان کی اس کتاب نے نہ صرف مسلمانوں کو دین کی صحیح تفہیم فراہم کی بلکہ غیر مسلم طبقے کو بھی اسلام کے اصول و ضوابط کو سمجھنے میں مدد دی۔اس کے علاوہ مولانا آزاد نے اسلامی تاریخ، فلسفہ، اور ادب پر متعدد مضامین بھی لکھے۔ ان کی علمی تصنیفات نے جدید ہندوستان میں اسلامی علوم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی فکر اور علم نے آنے والی نسلوں کو اسلام کو سمجھنے اور عمل کرنے کا ایک نیا راستہ دیا۔
آزادی کے بعد مولانا آزاد کو بھارت کا پہلا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے تعلیم کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کیے اور ہندوستان میں جدید تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی قابل ذکر ہیں۔مولانا آزاد نے تعلیمی اصلاحات کے ذریعے ہندوستان کے تعلیمی نظام کو مضبوط بنایا اور عوام کو علم کی روشنی فراہم کرنے پر زور دیا۔ ان کے نزدیک تعلیم ہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت میں ایسی ہمہ جہتی موجود تھی جو انہیں ایک عظیم رہنما، عالم، فلسفی، اور مفکر بناتی ہے۔ ان کی علمی و فکری خدمات، آزادی کی تحریک میں ان کا کردار، مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ان کی کوششیں اور تعلیمی میدان میں ان کی اصلاحات نے ہندوستانی معاشرے پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ مولانا آزاد کا ورثہ آج بھی زندہ ہے اور ان کے خیالات اور اصولوں کی روشنی میں ہندوستانی قوم ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور ہندوستانی عوام آگے بڑھتے رہیں گے ۔