منی پور میں نسلی کشیدگی اور تشدد کی لہر کا خاتمہ کب ہوگا؟

تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر:9037099731
سال 2023 سے لیکر 2024 کے دوران منی پور میں ہونے والے نسلی تشدد نے ریاست کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے، جہاں سیکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس سنگین صورتحال میں، وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ نے نئے سال کی آمد سے پہلے عوام سے معافی طلب کی، جو ایک اہم سیاسی اقدام تھا۔ تاہم، اس معافی کے اثرات اور اس کی حقیقی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔یہ معافی محض ایک رسمی بیان ثابت ہوئی ہے، کیونکہ اگلے ہی دن، یعنی یکم جنوری 2025 کو، وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ نے ریاست میں جاری تشدد کا ذمہ دار کانگریس کو ٹھہرا دیا۔ انہوں نے ماضی کے واقعات، جیسے 1997 کی ناگاکوکی جھڑپوں کا حوالہ دیا، لیکن وہ یہ نظر انداز کر گئے کہ موجودہ بحران کی اصل جڑ ان کی حکومت کی ناکامی ہے۔ کانگریس پر ان کی یہ الزام تراشی نہ صرف ان کی معافی کے خلوص کو مزید مشکوک بناتی ہے بلکہ ریاست میں جاری تشدد کو ہوا دینے کے ساتھ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف بھی ہے۔
مئی 2023 میں شروع ہونے والے نسلی تشدد نے منی پور کو غیر یقینی صورتحال اور مسلسل بحران کا شکار کر دیا۔ وزیراعلیٰ کی معافی کا کوئی حقیقی مطلب تب ہی ہوگا جب حکومت زبانی دعووں کے بجائے عملی اقدامات کرے۔ بے گھر افراد کی بحالی کے لیے منصوبے تو کاغذوں پر موجود ہیں، لیکن ان کے کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔ متاثرین کو دی جانے والی مالی امداد ناکافی ہے، اور ان کے لیے کوئی مستقل اور پائیدار حل فراہم نہیں کیا گیا۔ امن و امان کی بحالی کے لیے حکومت کے اقدامات بھی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ زیلیانگرونگ یونائیٹڈ فرنٹ (ZUF) اور پامبی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز تو ہوا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مذاکرات پائیدار امن کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اگرچہ اکتوبر 2023 تک فائرنگ کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے، لیکن یہ کمی کسی واضح پیش رفت یا دیرپا امن کی علامت نہیں لگتی۔
منی پور میں جاری نسلی کشیدگی کی اصل جڑ میتیئی اور کوکی برادریوں کے درمیان پائی جانے والی عدم اعتماد اور دشمنی ہے، جسے وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ کی حکومت کی ناکافی پالیسیوں نے مزید گہرا کر دیا ہے۔ جیری بام جیسے علاقوں میں تشدد کا بڑھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت حالات کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ خواتین کے خلاف سنگین مظالم، جیسے اجتماعی عصمت دری اور برہنہ پریڈ کے واقعات، نہ صرف حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ ریاست کی اخلاقی بنیادوں کو بھی شدید دھچکا پہنچاتے ہیں۔ یہ واقعات حکومت کے دعوؤں اور کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔
این بیرین سنگھ کی جانب سے موجودہ بحران کا الزام کانگریس پر ڈالنا اور ماضی کے واقعات کو ذمہ دار ٹھہرانا ان کی اپنی ذمہ داری سے فرار کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کانگریس کے دور حکومت میں بھی مسائل موجود تھے، لیکن موجودہ حکومت کو اپنے دور میں پیدا ہونے والے بحران کے لیے جواب دہ ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ ماضی کی سیاست سے آگے بڑھیں، اپنی ناکامیوں کو تسلیم کریں، اور موجودہ بحران کے حل کے لیے مؤثر اور عملی اقدامات پر توجہ مرکوز کریں۔ ریاست کے عوام کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پائیدار امن کے لیے سنجیدہ کوشش کرے۔
معافی کا حقیقی مطلب صرف زبانی اظہار نہیں بلکہ عملی اقدامات ہیں۔ جب تک منی پور میں امن و امان مکمل طور پر بحال نہیں ہوتا، معافی محض ایک نمائشی عمل ہی رہے گی۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کریں۔ ریاست کے عوام کے زخم اسی وقت بھر سکتے ہیں جب ان کے مسائل کا حل دیانتداری، سنجیدگی، اور مستقل مزاجی سے تلاش کیا جائے۔ حکومت کو نسلی کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے، تاکہ ریاست میں دیرپا امن اور استحکام قائم ہو سکے۔ یہ صرف ایک سیاسی ضرورت نہیں بلکہ انسانی حقوق اور ریاست کی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
منی پور میں نسلی کشیدگی اور تشدد کی لہر نے ریاست کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق، اکتوبر 2024 میں چوراچندپور ضلع میں حالات بگڑنے پر کرفیو نافذ کیا گیا، جبکہ امپھال ویلی اور ملحقہ علاقوں میں بھی کرفیو جاری ہے۔ تشدد کے دوران خواتین کے خلاف سنگین جرائم، جیسے اجتماعی زیادتی اور برہنہ پریڈ کے واقعات، نے حکومت کی ناکامی کو مزید نمایاں کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن مؤثر اقدامات کی کمی کے باعث مسائل جوں کے توں ہیں۔ نومبر 2024 میں، امپھال میں مظاہرین نے اراکین اسمبلی کے گھروں کا محاصرہ کیا اور توڑ پھوڑ کی، جس کے بعد حکام نے انٹرنیٹ اور موبائل سروسز معطل کر کے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا۔
حکومت کی جانب سے نسلی کشیدگی کے خاتمے کے لیے زیلیانگرونگ یونائیٹڈ فرنٹ (ZUF) اور پامبی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا گیا، لیکن ان کی مؤثریت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگرچہ اکتوبر 2023 تک فائرنگ کے واقعات میں کمی آئی تھی، لیکن کوئی واضح پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ کی جانب سے کانگریس پر الزام تراشی اور ماضی کے واقعات کو موجودہ بحران کی جڑ قرار دینا ان کی ذمہ داری سے پہلو تہی کے مترادف ہے۔ ریاست کے عوام پائیدار امن اور استحکام کے لیے حکومت سے مؤثر اور عملی اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp