مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں بریلوی
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کی ہدایت کے لیے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور ساتھ ساتھ مقدس آسمانی کتب و صحائف بھی نازل فرمائے، لیکن ختم نبوت کے بعد اسلام کی تزویج و اشاعت اور مسلمانوں کی ایمان و عقیدھ کی حفاظت کی ذمہ داری حسب ترتیب صحابہ کرام، اولیاء، علماء کے سر آ گئی۔ جنہوں نے اپنی علمی و عملی کوششوں سے انسانوں کو شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔چودویں صدی میں دیوبندیت و نجدیت کے مکر و فریب سے جس ذات نے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کی، اسی ذات کی نسل سے ایک مقدس ہستی حضور مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خان علیہ الرحمہ کی ذات ہے۔مفسر اعظم ہند ایک بہت ہی عظیم اور پاکیزہ شخصیت کا نام ہے جو حقیقتا ًزبان رضا تھے وہ رضا کے علم و فضل اور زہد و تقوی ٰ کے وارث و امین تھے ان کی نیکی ان کے صبر شکر گزاری اور بے لوث دینی خدمات ہی کا ثمرہ ہے
ولادت با سعادت:
حضور مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 10 ربیع الثانی 1325ھ محلہ سوداگران بریلی شریف میں ہوئی۔
نام ونسب:
آپ کا نام: محمد رکھا گیا مشہور ہے یہ اسم مبارک خود سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رکھا پھر آپکے والد ماجد حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں صاحب نے دین حنیف کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کا نام ابراہیم رضا خاں تجویز کیا اور جد محترم سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکارنے کے لئے جیلانی میاں رکھا۔ لقب: مفسر اعظم ہند۔
آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے:مفسر اعظم ہند محمد ابراہیم رضا خان بن حجت الاسلام محمد حامد رضا خان بن امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی بن حاتم المتکلمین مفتی نقی علی خان علیہ الرحمہ الخ۔
عقیقہ و خردو نوش کا انتظام:
حضور مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کے عقیقہ کا انتظارسرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے خود فرمایا جس میں جملہ عزیز واقارب اور جامعہ رضویہ منظر اسلام کے تمام اساتذہ وطلباء کی حسب خواہش جاگانہ شوق کے مطابق الگ الگ خورد ونوش کا انتظام واہتمام فرمایا۔
رسم بسم اللہ خوانی:
حضور مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کی عمر شریف جب چار سال چارماہ چار دن کی ہوئی تو 14 شعبان المعظم 1329ھ بروز چہار شنبہ کو سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علماء وصلحاء اعزاء و اقرباء اور شہر کے معززین کی موجودگی میں بسم اللہ خوانی کرائی نیز اسی مقدس و مبارک موقع پر امام اہل سنت نے آپ کو بیعت فرماکر خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا اور علی الاعلان فرمایا یہ میرا پوتا کبھی میری زبان ہوگا۔
تعلیم وتربیت:
حضور مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر ہی پر والدہ ماجدہ مشفقہ جدہ محترمہ سے حاصل کی۔یہاں تک کہ ناظرہ قرآن کریم اور اردو کی ابتدائی کتب پڑھیں۔سات سال کی عمر مبارک میں دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کئے گئے ،قدوری ،فصول اکبری وغیرہ محدث جلیل حضرت علامہ احسان فیض پوری قدس سرہ سے پڑھیں عربی ادب کی کتابیں اور مشکوٰۃ شریف خود حضور حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پڑھائیں حدیث وفقہ کی دیگر کتابیں دوسرے اساتذہ سے پڑھیں تحصیل علوم ہی کے دوران جدکریم سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔
دستار فضیلت:
حضورمفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کی 19 سال کی عمرمیں 1355ھ میں تحصیل علم سے فارغ ہو کر والدمحترم حضور حجۃ الاسلام نے مشاہیر علماء ومشائخ کی موجودگی میں دستار بندی فرمائی اور اپنی نیابت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔
بیعت و خلافت:
حضورمفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ محض چار سال کی عمر میں امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ سے مرید ہوئے۔سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ کی خلافت عطا فرمائی۔19 سال کی عمر میں والد ماجد حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ نے بھی خلافت و اجازت سے نوازا۔آپ کو اپنے حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ سے بھی خلافت حاصل تھی۔اور ان کو اپنے والد حامد رضا خان اور چچا مصطفٰی رضا خانسے بھی خلافت حاصل ہے۔1372ھ میں آپ نے حرمین کا دورہ کیا،تو علمائے مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ سے حدیث، دلائل الخیرات اور حزب البحر وغیرہ کی مختلف اجازتیں حاصل کیں۔
نکاح و رخصتی و اولاد:
حضورمفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کی شادی کم سنی میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی بیٹی سے ہوئی۔ تحصیل علم کی فراغت کے بعد تقریباً 19 سال کی عمر میں سنت کے مطابق رخصتی ہوئی۔
آپ کی کل 8 اولاد ہیں 5 بیٹے اور تین بیٹیاں، بیٹوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد ریحان رضا خان قادری رضوی (رحمانی میاں)۔محمد تنویر رضا خان (مفقود الخبر)۔مفتی محمد اختر رضا خان قادری رضوی (ازہری میاں)۔ڈاکٹر محمد قمر رضا خان قادری رضوی (قمر میاں)۔محمد منان رضا خان (منانی میاں)۔
مفسر اعظم کا لقب:
خانوادہ اشرفیہ کے روشن چراغ سید محمد محدث اعظم ہند کچھوچھوی آپ کی تقریر سے بہت متاثر تھے ملک کی کئی بڑی سنی کانفرنسوں میں سیدنا آپ کا تعارف کرایا اور آپ کو مفسر اعظم ہند سے یاد فرمایا سیدنا محدث اعظم نے سب سے پہلے کلکۃ کی ایک عظیم الشان کانفرنس میں آپ کو اس لقب سے یاد فرمایا اور موجودہ علماء کرام نے اس کی تائید کی علماء ،سامعین نے تکبیر ورسالت اور مسلک اعلیٰ حضرت، نبیرہ اعلیٰ حضرت زندہ باد، پائندہ باد کے نعروں سے خوشی کا اظہار کیا اور اب ہر پوسٹر اور اشتہار میں آپ کے لئے مفسر اعظم ہند چھپنے لگاآپ کے اس لقب اور شہرت سے کچھ لوگ حسد کرنے لگے لیکن آپ نے نہ تو اس لقب کی عظمت وشہرت پر کبھی اظہار فخر کیا نہ ہی مخالفین ومعاندین کی تنقید ونکتہ چینی کی پرواہ کی اور پوسٹر واشتہار میں چھپنے کے بعد عوام وخواص،علماء،طلباء ہر کسی نے بجائے جیلانی میاں یا علامہ ابراہیم رضا بریلوی یا بریلی والے مولانا صاحب بجائے مفسر اعظم ہند کہنا شروع کر دیا آپ کی تفسیر کا ماخذ عموماًروح البیان، نسیم الریاض ،شفا قاضی عیاض،خزائن العرفان ہوتے۔احادیث مصطفی کے نکات شارح مسلم شریف امام نووی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی مدارج النبوۃ ،اشعۃ اللمعات کے اقوال کی روشنی میں بیان کرتے۔
وصال و مدفن:
حضورمفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کا وصال 11 صفر المظفر 1385ھ بمطابق 22 جون 1969ء بروز ہفتہ کو بریلی میں ہوا۔آپ کی نماز جنازہ اسلامیہ کالج گراؤنڈ میں نائب مفتی اعظم ہند سید افضل حسین صاحب مونگری نے پڑھائی۔ خانقاہ عالیہ رضویہ میں مدفون ہوئے۔