مسلمانوں نے ملک کو کیا دیا؟

تحریر: محمد ثاقب خان بھیونڈی
ریسرچ اسکالر: جامعہ دارالہدی اسلامیہ،کیرالا
مسلمانوں نے برصغیر کی تاریخ میں اپنے لازوال کردار سے نہ صرف اپنے علم، ثقافت، اور تہذیب کا لوہا منوایابلکہ اس خطے کو علم و حکمت، سماجی ترقی، اور فنونِ لطیفہ کے انمول تحفے بھی دیے۔مسلمانوں نے برصغیر میں قدم رکھتے ہی علم و حکمت کے میدان میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اسلامی تہذیب ہمیشہ سے علم کی بنیاد پر کھڑی تھی اور یہی روایت برصغیر میں بھی جاری رہی۔ مسلمانوں نے یہاں مدارس اور تعلیمی ادارے قائم کیے جو نہ صرف دینی علوم بلکہ دنیاوی تعلیم کے مراکز بھی بنے۔ ان مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریاضی، فلکیات، فلسفہ، ادب اور طب کے شعبے بھی شامل تھے۔ محمد بن قاسم کے دور سے شروع ہونے والی علمی سرگرمیاں مغل حکمرانوں کے دور میں اپنی عروج پر پہنچیں۔ دہلی، آگرہ اور فتح پور سیکری جیسے شہروں میں علم کے چراغ روشن کیے گئے۔
مسلمان حکمرانوں نے لائبریریوں کی تعمیر پر خاص توجہ دی تاکہ علم کے خزانے عام لوگوں تک پہنچ سکیں۔ مغل دور میں دہلی، حیدرآباد اور لکھنؤ کی لائبریریاں علم و تحقیق کا مرکز بن گئیں، جہاں دنیا کے نایاب ترین نسخے محفوظ کیے گئے تھے۔ ان لائبریریوں میں طب، فلکیات، ریاضی اور تاریخ کے میدان میں لکھی گئی کتب موجود تھیں جو طالب علموں اور محققین کے لیے قیمتی سرمایہ تھیں۔تحقیق اور سائنس کے میدان میں بھی مسلمانوں نے برصغیر کو ایک نئی سمت دی۔ طب کے میدان میں یونانی طب کو فروغ دیا گیا اور کئی ہسپتال قائم کیے گئے، جہاں جدید طریقوں سے علاج کیا جاتا تھا۔ ریاضی اور فلکیات کے شعبوں میں مسلمان سائنسدانوں جیسے الخوارزمی اور البیرونی کے نظریات کو اپنایا گیا اور ان کی تعلیمات سے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر نے استفادہ کیا۔
خانقاہوں نے بھی علم کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ صرف روحانی مراکز نہیں تھیں بلکہ علمی حلقوں کے طور پر بھی مشہور تھیں، جہاں اخلاقیات، مذہبی تعلیم اور دنیاوی علوم کا درس دیا جاتا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی اور نظام الدین اولیاء جیسے صوفیاء نے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا اور ایک ایسا سماجی نظام تشکیل دیا جہاں علم کو اولین حیثیت حاصل تھی۔ مسلمان حکمرانوں کا ماننا تھا کہ تعلیم ہر فرد کا حق ہے اور معاشرے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برصغیر میں ایک ایسا تعلیمی نظام قائم کیا جس نے صدیوں تک اس خطے کو علمی دنیا میں ممتاز رکھا۔ مسلمانوں کا یہ ورثہ آج بھی اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ علم ہی وہ طاقت ہے جو نہ صرف قوموں کو عروج دیتی ہے بلکہ ان کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے مضبوط کر دیتی ہے۔
مسلمانوں نے برصغیر کی معاشی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا جس کی بنیاد ان کی منظم حکمتِ عملی اور دانشمندانہ اقدامات پر تھی۔ زرعی شعبے میں انقلابی اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن سے زراعت نہ صرف خودکفیل ہوئی بلکہ برآمدات کا ایک اہم ذریعہ بھی بنی۔ ان اصلاحات میں زمین کی تقسیم، کسانوں کو سہولتوں کی فراہمی اور نہری نظام کی تعمیر شامل تھیں، جس نے پانی کی ترسیل کو ممکن بنایا اور زرخیزی کو بڑھایا۔ تجارت اور صنعت کے فروغ کے لیے بھی خاص اقدامات کیے گئے۔ مغل دور میں برصغیر دنیا بھر میں اپنی منفرد مصنوعات کے لیے مشہور ہوا۔ ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑے، خاص طور پر بنارسی اور کشمیر کے شال اور ریشمی کپڑے، عالمی منڈیوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کرتے تھے۔ مسلمانوں نے تجارتی راستوں کو محفوظ اور مؤثر بنایا تاکہ تاجر بلا خوف و خطر اپنے کاروبار کو فروغ دے سکیں۔ بندرگاہوں کی تعمیر اور بحری راستوں کی ترقی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملا، جس کے نتیجے میں نہ صرف دولت میں اضافہ ہوا بلکہ ثقافتی اور علمی تبادلہ بھی ممکن ہوا۔
کاروباری مراکز اور بازاروں کے قیام نے معیشت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ یہ بازار نہ صرف تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھی بلکہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کے لیے میل جول کا مقام بھی تھا۔ اس طرح معاشی ترقی کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا گیا۔ مسلمان حکمرانوں نے مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی، جس کی وجہ سے مقامی فنکاروں اور کاریگروں کو عالمی سطح پر پہچان ملی۔ یہ حکمتِ عملی صرف عیش و عشرت کی حد تک محدود نہیں تھی بلکہ عوام کی بہبود پر بھی مرکوز تھی۔ محصولات کے نظام کو منظم کر کے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ عوام پر بوجھ کم سے کم ہو اور ریاست کے خزانے میں اضافہ ہو تاکہ ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ اس مضبوط معیشت کا اثر صرف مالی استحکام تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے برصغیر کو ثقافتی اور علمی مرکز کے طور پر بھی ابھارا۔
مسلمانوں کے فن تعمیر نے برصغیر کی تہذیب و ثقافت کو نئی جہتیں عطا کیں اور دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ فن نہ صرف ظاہری خوبصورتی کا مظہر ہے بلکہ ان میں گہری فکری اور روحانی بنیادیں بھی شامل ہیں۔ تاج محل جیسی عمارت، جو محبت کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہے، صرف ایک شاہکار نہیں بلکہ انجینئرنگ کی مہارت اور جمالیاتی حس کا نمونہ ہے۔ سنگ مرمر پر کی جانے والی باریک نقش و نگاری، خوبصورت محرابیں، اور گنبد کے پیچیدہ ڈیزائن ایک ایسی فنی بصیرت کی عکاسی کرتے ہیں جو ہر دور کے فنکاروں کے لیے مشعل راہ بنے۔جامع مسجدیں، جن کا حجم اور تعمیراتی شان و شوکت بے مثال ہے، نہ صرف عبادت گاہیں تھیں بلکہ یہ مسلمانوں کی ثقافتی مرکزیت کا اظہار بھی کرتی تھیں۔ قطب مینار جیسی عمارتیں اس وقت کی تعمیراتی جدت اور انجینئرنگ کے اعلیٰ معیار کو ظاہر کرتی ہیں، جن میں نہایت باریکی سے کی جانے والی خطاطی اور نقوش نے عمارت کو زندہ تخلیق میں بدل دیا۔ مغل حکمرانوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر عمارت میں انفرادیت اور شان نظر آئے، خواہ وہ لال قلعہ ہو یا فتح پور سیکری۔
فنِ تعمیر کے اس ارتقا میں تعمیراتی مواد کے چناؤ، ڈیزائن کے اصول، اور مختلف تہذیبوں کے رنگوں کو ایسے انداز میں شامل کیا گیا کہ یہ عمارتیں صدیوں بعد بھی اپنی اصل خوبصورتی کے ساتھ قائم ہیں۔ مسلمان معماروں نے نہ صرف اپنے دور کے لیے تعمیرات کیں بلکہ وہ ایسی نشانیاں چھوڑ گئے جو تاریخ کے ہر طالب علم کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ فن کی معراج کیا ہوتی ہے۔ ان تعمیرات نے نہ صرف برصغیر کو ایک عالمی ثقافتی مرکز بنایا بلکہ دنیا کے معماروں کو بھی متاثر کیا، جنہوں نے ان کے اصولوں کو اپنی تخلیقات میں شامل کیا۔ یہ فن تعمیر صرف ایک ماضی کا ورثہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو آنے والے وقتوں میں بھی زندہ رہے گی۔ مسلمان حکمرانوں کی پالیسیوں میں انسان دوستی اور سماجی خدمات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دوران اس بات کو یقینی بنایا کہ معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی اور مساوات قائم رہے۔ ان کی طرزِ حکمرانی میں یہ بات نمایاں تھی کہ ہر فرد کو اس کا حق دیا جائے، چاہے وہ کسی بھی مذہب، فرقے یا ذات سے تعلق رکھتا ہو۔ عوامی فلاح و بہبود کے لیے اوقاف کے نظام کو فروغ دیا گیا، جہاں غریبوں، مسافروں، اور بے سہارا افراد کے لیے امداد کا انتظام کیا جاتا تھا۔
علاوہ ازیں، انہوں نے انصاف کے قیام پر خاص توجہ دی۔ شاہی عدالتوں میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم رعایا بھی بلا خوف اپنے مسائل پیش کر سکتی تھی اور انصاف حاصل کر سکتی تھی۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جہاں ہر طبقے کے لیے برابری کے مواقع موجود تھے۔ اکبر، جہانگیر، اور اورنگزیب جیسے حکمرانوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے فیصلے عدل و انصاف پر مبنی ہوں اور کسی بھی قسم کی تعصب یا ناانصافی کی گنجائش نہ ہو۔ مسلمانوں نے نہ صرف معاشرتی نظام میں ہم آہنگی پیدا کی بلکہ مختلف ثقافتوں کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر بھی دکھایا۔ انہوں نے ہندوؤں، سکھوں، اور دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کی مثالیں قائم کیں، جن کا مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا تھا جو اختلافات کے باوجود متحد ہو۔ اکبر کا مذہبی رواداری کا تصور اور صلحِ کلی کی پالیسی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں نے سماجی اتحاد اور بھائی چارے کو ہمیشہ ترجیح دی۔ مسلمان حکمرانوں کی عوام دوست پالیسیوں کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ انہوں نے مختلف برادریوں کے رسم و رواج اور مذہبی آزادی کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ مندروں، گردواروں، اور دیگر مذہبی مقامات کی دیکھ بھال کے لیے حکومتی امداد فراہم کی گئی تاکہ کوئی بھی طبقہ خود کو محروم نہ سمجھے۔ یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے نہ صرف سماجی ڈھانچے کو مضبوط کیا بلکہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ڈالی جو آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔
اردو زبان کی ترقی میں مسلمانوں کا کردار بے مثال رہا ہے۔ یہ زبان نہ صرف ان کی ثقافتی شناخت کا حصہ بنی بلکہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کو ایک ساتھ جوڑنے کا ذریعہ بھی ثابت ہوئی۔ مسلمانوں نے نہایت محنت اور لگن کے ساتھ اردو زبان کو ایک وسیع اور جامع حیثیت دی۔ اس زبان نے لوگوں کے دلوں میں ایک خاص مقام پیدا کیا اور اس کا ادب ایک عالمی ورثہ بن گیا۔ اردو کی بنیاد فارسی، عربی اور مقامی زبانوں کے امتزاج پر رکھی گئی، جس نے اسے ایک منفرد اور خوبصورت زبان بنایا۔ مسلمانوں نے نہ صرف اردو کی لغت کو وسعت دی بلکہ اس میں نئے نئے موضوعات کو شامل کیا۔ شاعری، داستان گوئی، اور خطوط نگاری جیسی اصناف نے اردو ادب کو ہر دلعزیز بنایا۔ اردو کی نرمی اور مٹھاس نے اسے عوامی زبان بنا دیا، اور اس زبان کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا جانے لگا۔
شعری میدان میں اردو زبان کو غالب، میر اور اقبال جیسے عبقری شعرا نے عروج بخشا۔ انہوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ اپنی شاعری میں بیان کیا۔ ان کے اشعار آج بھی دلوں کو چھو لیتے ہیں اور فکر و خیال کی نئی راہیں کھولتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو نثر میں تاریخ، فلسفہ، اور معاشرتی مسائل پر تحریریں لکھنے کا رواج عام ہوا، جو تعلیم اور شعور کے فروغ میں مددگار ثابت ہوا۔ اردو زبان کی ترقی مسلمانوں کے سماجی اور تہذیبی مشن کا ایک اہم حصہ تھی۔ انہوں نے اس زبان کو عوام تک پہنچایا اور اسے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جہاں مختلف تہذیبیں اور روایات یکجا ہو سکیں۔ آج بھی اردو زبان کی مٹھاس اور اس کے ادب کی گہرائی دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے، اور یہ زبان مسلمانوں کی بے مثال علمی اور ثقافتی خدمات کی ایک زندہ علامت ہے۔
مسلمانوں نے برصغیر کو علم، تہذیب، اور تعمیرات کے وہ شاہکار دیے جو آج بھی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی خدمات کسی ایک قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ تمام انسانیت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ ہمیں اس تاریخ کو یاد رکھنا اور ان اصولوں کو اپنانا چاہیے جن سے سماجی ترقی اور بھائی چارے کو فروغ ملے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp