قرآن کریم : قربِ الٰہی کے حصول کا افضل ترین ذریعہ!
تحریر : محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر : جامعہ دارالہدی اسلامیہ ، ملاپورم ،کیرالا
کتابوں میں جو افضل ہے اسے قرآن کہتے ہیں
اتارا ہے اسے جس نے اسے رحمان کہتے ہیں
سجا لے اپنے سینے میںجو اس کے تیس پارے کو
زمانے بھر میں اس کو حافظ ِ قرآن کہتے ہیں
اللہ رب العزت خالقِ شش جہات اور مالکِ کل کائنات ہے جس نے حضرتِ انسان کو سب سے اعلی اور افضل بناکر اس خادانِ گیتی پر مبعوث فرمایا ۔ جیساکہ قرآنِ مقدس میں ذکر ہے :’’لقد خلقنا الانسان فی أحسن تقویم ‘‘ ۔ترجمہ : بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا‘‘ (کنز الایمان ،پ:30،سورۃ التین ،آیت:4)اور کنز العرفان میں کچھ اس طرح ذکر ہے : ’’ بیشک یقینا ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا‘‘۔اللہ رب العزت نے انجیر ، زیتون،طورِسینااور شہر مکہ مکرمہ کی قسم ذکر کرکے ارشاد فرماتاہے کہ بیشک ہم نے آدمی کو سب سے اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا، اس کے اعضاء میں مناسبت رکھی ، اسے جانوروں کے طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی منھ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اور علم، فہم ، عقل ، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت مزین کیا ۔
اگر انسان اللہ رب العزت کی دیگر مخلوقات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تخلیق میں غور و فکر کرے تو اس پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائیگا کہ اللہ تعالی نے اسے احسن صوری اور حسنِ معنوی کی کیسی کیسی عظیم ترین نعمتیں عطا کی ہیں اور اس چیز میں جتنا زیادہ غور کیا جائے اتنا ہی زیادہ اللہ رب العزت کی عظمت اور قدرت کی معرفت حاصل ہوتی جائیگی اور اس عظیم نعمت کو بہت اچھی طرح سمجھ جائیگا۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں نے اللہ رب العزت کوخواب میں دیکھا تو عرض کی : سب سے افضل وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے مقرب بندے تیری بارگاہ میں قرب حاصل کرتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: اے احمد! میرے کلام (قرآن کریم ) کے ذریعے ۔ عرض کی : یا رب ! سمجھ کر تلاوت کرنے سے یا بغیرسمجھے تلاوت کرنے سے ؟ ارشاد فرمایا : دونوں طرح ،خواہ وہ سمجھ کر تلاوت کرے یا بغیر سمجھے ۔
تو آئیے ! ہم قرآن ِ مقدس کی فصاحت و بلاغت اور اس کو سکھنے اور سیکھانے کی فضیلت کے بارے میںقرآن و احادیث اور بزرگان دین کے اقوال سے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :
عن عثمان رضی اللہ عنہ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، قال:’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ‘‘۔حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن (پڑھنا اور اس کے رموز و اسرار اور مسائل) سیکھے اور سکھائے‘‘ ۔اور ایک روایت میں ان ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک تم میں سے افضل شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘
قرآن کریم اس رب عظیم عز و جل کا بے مثل کلام ہے جو اکیلا معبود، تنہا خالق اور ساری کائنات کا حقیقی مالک ہے، وہی تمام جہانوں کو پالنے والا اور پوری کائنات کے نظام کو مربوط ترین انداز میں چلانے والا ہے، دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حقیقی طور پر اسی کے دست قدرت میں ہے اور وہ جسے جو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے جس چیز سے چاہے محروم کر دیتا ہے، وہ جسے چاہے عزت دیتا اور جسے چاہے ذلت ورسوائی سے دوچار کر دیتا ہے۔ وہ جسے چاہے ہدایت دیتا اور جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور اس نے اپنا یہ کلام رسولوں کے سردار، دو عالم کے تاجدار، حبیب بے مثال محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمایا تا کہ اس کے ذریعے آپﷺ لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور دینِ حق کی پیروی کرنے کی طرف بلائیں اور شرک و کفرو نا فرمانی کے انجام سے ڈرائیں، لوگوں کو کفر و شرک اور گناہوں کے تاریک راستوں سے نکال کر ایمان اور اسلام کے روشن اور مستقیم راستے کی طرف ہدایت دیں اور ان کے لئے دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کی راہیں آسان فرمائیں۔
قرآن مجید نازل ہونے کی ابتداء رمضان کے بابرکت مہینے میں ہوئی اور نبی کریمﷺکی بارگاہ میں اسے لانے کا شرف روح الامین حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حاصل ہوا اور شب معراج کچھ آیات بلا واسطہ بھی عطا ہوئیں۔قرآن مجید کو دنیا کی فصیح ترین زبان یعنی عربی زبان میں نازل کیا گیا تا کہ لوگ اسے سمجھ سکیں اور عرب کے رہنے والوں اور کفار قریش کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اوروہ یہ نہ کہ سکیں کہ ہم اس کلام کوسن کر کیا کریں گے جسے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔ قرآن مجید کو تورات و انجیل کی طرح ایک ہی مرتبہ نہیں اتارا گیا بلکہ حالات و واقعات کے حساب سے تھوڑا تھوڑا کر کے تقریباً 23 سال کے عرصے میں اسے نازل کیا گیا تا کہ اس کے احکام پر عمل کرنا مسلمانوں پر بھاری نہ پڑے اور نبی کریم ﷺکے قلب اطہر کو مضبوطی حاصل ہو، اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب ﷺ کی امت پر بہت بڑا احسان ہے۔ قرآنِ عظیم کے کثیر اسماء ہیں جو کہ اس کتاب کی عظمت و شرف کی دلیل ہیں، ان میں سے چھ مشہور اسماء یہ ہیں: (1) قرآن (2) برہان۔(3) فرقان (4) کتاب۔ (5) مصحف۔(6) نور۔
فی الحقیقت یہ قرآن مقدس اور عشق رسول کا ہی فیضان بے پایاں اور برکت ابدی تھی جس نے اقبال کو علم و حکمت متاع ایمان اور فکر و نظر کی کمال بلندیوں تک پہنچایا اور اقبال نہ صرف قرآن کا شاعر بلکہ شاعروں کا بھی قرآن کہلائے۔(علامہ اقبال)۔
احادیث میں قرآنِ مجید کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے، تاجدار رسالتﷺنے ارشاد فرمایا :’’ عنقریب ایک فتنہ برپا ہو گا۔ میں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ، اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ آپ ﷺنے ارشادفرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کی کتاب، جس میں تمہارے اگلوں اور پچھلوں کی خبریں ہیں اور تمہارے آپس کے فیصلے ہیں، قرآن فیصلہ کن ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ جو ظالم اسے چھوڑ دے گا اللہ تعالیٰ اسے تباہ کر دے گا اور جو اس کے غیر میں ہدایت ڈھونڈے گا اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور وہ حکمت والا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں اور جس کے ساتھ دوسری زبانیں مل کر اسے مشتبہ ومشکوک نہیں بنا سکتیں، جس سے علماء سیر نہیں ہوتے، جو زیادہ دہرانے سے پرانا نہیں پڑتا، جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے، قرآن ہی وہ ہے کہ جب اسے جنات نے سنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو اچھائی کی رہبری کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو قرآن کا قائل ہو وہ سچا ہے، جس نے اس پر عمل کیا وہ ثواب پائے گا اور جو اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ منصف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ کی طرف بلائے گا‘‘۔ (سنن الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضائل القرآن ،414/4، الحدیث :2915)۔
(2)۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت، رسولُ اللہﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جس کو قرآن نے میرے ذکر اور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا، اُسے میں اُس سے بہتر دوں گا، جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں اور کلام اللہ کی فضیلت دوسرے کلاموں پر ایسی ہی ہے جیسی اللہ رب العزت کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے‘‘۔(سنن الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضائل القرآن ،425/4، الحدیث :2930)۔
(3) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، رسول کریمﷺنے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن قرآن کو ایک شخص کی صورت عطا کی جائے گی، پھر اسے ایک ایسے شخص کے پاس لایا جائے گا جو قرآن کا عالم ہونے کے باوجود اس کے حکم کی مخالفت کرتا رہا، قرآن اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہے گا: اے میرے رب! عز و جل، اس نے میرا علم حاصل کیا لیکن یہ بہت برا عالم ہے، اس نے میری حدود کی خلاف ورزی کی، میرے فرائض کو ضائع کیا، میری نافرمانی میں لگارہا اور میری اطاعت کو چھوڑ دیا۔ قرآن اس پر دلائل کے ساتھ الزامات لگا تارہے گا یہاں تک کہ کہا جائے گا: اس کے بارے میں تیرا معاملہ تیرے سپرد ہے۔ قرآن اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جائے گا یہاں تک کہ اسے جہنم میں ایک چٹان پر اوندھے منہ گرا دے گا۔ پھر قرآن کو ایک ایسے نیک شخص کے پاس لایا جائے گا جو قرآن کا عالم تھا اور اس کے حکم کی بجا آوری کرتا رہا۔ قرآن اس کے بارے میں کہے گا: اے میرے رب!عز وجل، اس نے میراعلم حاصل کیا اور یہ بہترین عالم ہے، اس نے میری حدود کی حفاظت کی، میرے فرائض پر عمل کیا، میری نافرمانی سے بچتارہا اور میری اطاعت کرتا رہا۔ قرآن دلائل کے ساتھ اس کی حمایت کرتا رہے گا یہاں تک کہ کہا جائے گا: اس کے بارے میں تیرا معاملہ تیرے سپرد ہے، قرآن اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جائے گا اور اسے موٹے ریشم کا حلہ پہنائے گا، اس کے سر پر بادشاہی کا تاج سجائے گا اور اسے (جنتی) شراب کے جام پلائے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب فضائل القرآن،169/7،الحدیث: 10)۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ہے جو سب سے آخری رسول محمد مصطفیﷺ پر نازل ہوا اور اس میں قیامت تک کے تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سامان موجود ہے، اس کی ہدایات وتعلیمات سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آیات قرآنی کے صحیح مطالب و معانی کو سمجھا جائے تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر راہ ہدایت پرسفر اختیار کیا جاسکے۔ فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو عربی زبان اور علوم دینیہ سے ناواقف ہے یہاں تک کہ لاکھوں مسلمانوں میں گنے چنے افراد ہی ایسے نظر آتے ہیں جو عربی زبان جانتے، اس کی باریکیوں اور نزاکتوں پر اطلاع رکھتے اور علومِ دینیہ کی دولت سے مالا مال ہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو دنیوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں دینی تعلیم( علم القرآن ،علم الحدیث ،علم العقائد ،علم النحو والصرف ، علم الجدل والکلام ، علم المنطق والفلاسفۃ، علم البلاعۃ،علم التصوف اور علم التوحید)جیسے علوم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری بچے دنیوی علوم میں مہارت تامہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی مہارتِ تامہ رکھیں تاکہ دشمنانِ اسلام کو منھ توڑ جواب دیں سکیں اور ان باطل قوم کے سامنے ہمت اور جواں مردی کے ساتھ کھڑے ہوکر تحفظ دین اور تحفظ ناموس رسالت کا کام بخوبی سر انجام دے سکیں کیوں کہ مسلمان ہونے کے ناتے ہم پریہ فرض بنتا ہے کہ ہم دین کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں اور مذہب ِ اسلام کی نشر و اشاعت میں اپنا اہم کردار اداکریں ۔اور یہ قرآ ن ہر زمانے میں ہر قوم کے لیے یار و مدد گار رہا ہے اور بھلا ہو بھی نہ کیسے ۔۔۔۔
نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیابھر کے دینوں میں
وہاں مذہب کتابوں میںیہاں قرآن سینے میں
آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ بحمدللہ میں جامعہ دارالہدیٰ اسلامیہ میں زیر تعلیم ہوں اور یہیں علم کی تشنگی بجھا رہا ہوں۔ یہ جامعہ بحسن خوبی اپنے طلبہ کو مختلف علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کر رہا ہے۔ یہ جامعہ جہاں ایک جانب اپنے بچوں کو عصری تعلیم فراہم کرتا ہے وہیں دوسری جانب اپنے بچوں کو دینی اور مادی تعلیم بھی فراہم کرتا ہے تاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دنیا کے ہر چھوٹے بڑے علاقے میں بآسانی پہنچایا جائے اور جو لوگ دین سے غافل ہیں انہیں راہ راست پر لایا جائے۔ اسی مقصد کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے جامعہ دارالہدیٰ اسلامیہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ اور میں محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔاسی چمنستان کا طالب علم ہوں جو تبلیغ دین کی خاطر رواں دواں ہے۔ اگر آپ کو جامعہ دارالہدی اسلامیہ کے بارے میں اور بھی زیادہ معلومات چاہیے تو دیے گئے نمبر سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعاہے کہ ہمیں قرآن کریم صحیح معنوں میں سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ،شریعت ِ محمدیہ کے تمام تر احکامات پر عمل ِ پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ، ہمیں خود بھی قرآن کریم سیکھنے اور دسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائے اور تحفظ ِ دین کے لیے تحریری،تصنیفی اور تقریری میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے ہمیں مالامال ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ۔