علامہ ادریس رضا خاں حشمتی کی حیات خدمات
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت و صیانت کے لیے بے شمار علمائے کرام پیدا فرمائے جنہوں نے ہر دور میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور ہمت مردانہ کے بل بوتے پر دین اسلام و راہِ حق کی عظیم خدمات انجام دیں۔ انہیں تاریخ ساز شخصیات میں ایک نام خلیفہ شیر بیشہ اہلسنت و خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند عارف باللہ حضرت علامہ مولانا الشاہ محمد ادریس رضا خاں قادری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جنہوں نے اپنی خداد صلاحیت سے ڈنڈوہ بزرگ کی سر زمین پر مذہب حقہ کی بقا و عروج و ارتقا کے لئے جو کوششیں اور کاوشیں انجام دیں، ڈنڈوہ بزرگ کی سر زمین ان کی خدمات کو فراموش کرنے پر قاصر ہے۔
نام و نسب:
آپ کا نام محمد ادریس رضا خان اور والد ماجد کا نام مولانا عنایت اللہ خان ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے محمد ادریس رضا خان بن مولانا عنایت اللہ خان بن حافظ یار خان بن حافظ شیر زماں خان عرف جمّا خان بن نواب دلیر خان بن نواب دریا خان بن نواب ابراہیم خان قبیلہ باقر زائی خاندان افغانستان سے تعلق ہے۔
ولادت باسعادت:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت بروز دوشنبہ 1923ء کو ضلع فرخ آباد اترپردیش کے موضع ڈنڈوہ بزرگ کے محلہ احمد نگر میں ہوئی۔
والدین:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد ایک نیک سیرت،با اخلاق،نہایت دین دار، احکام شریعت پر عامل اور صوم و صلوۃ کے سخت پابند تھے۔
حضور ادریس ملت کی والدہ ماجدہ بھی نہایت نیک سیرت،صوم و صلوۃ کی پابند تھیں۔ساتھ ہی ساتھ تہجد کی ادائیگی کا بہت خیال رکھتیں تھیں۔
والد ماجد کا وصال:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد مولانا عنایت اللہ خان علیہ الرحمہ کا وصال جب ہوا اس وقت آپ کی عمر محض تین سال کی تھی۔
آپ کی پرورش اور والدہ کی فکر مندی:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد کے وصال فرما جانے کے بعد آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے آپ کی والدہ ماجدہ فکر مند ہوئیں، لیکن آپ علیہ الرحمہ کے بھائی مولانا رحمت اللہ خان نے آپ کی پرورش اور ابتدائی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ زیور علم سے آراستہ کرنے میں بڑی جانفشانی سے کام لیا۔ آپ کی دنیاوی تعلیم کی ابتدا ڈنڈوہ بزرگ کے پرائمری سکول میں ہوئی۔
بھائی کا وصال اور تکمیل قرآن:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کی عمر 16 سال کی ہوئی تو آپ کے بھائی مولانا رحمت اللہ خان کا بھی وصال ہو گیا۔ مگر والدہ ماجدہ کی دعاؤں سے آپ کی دینی تعلیم کی تکمیل کے لیے اللہ نے وسائل پیدا فرما دئیے چنانچہ آپ کے جد امجد کے شاگرد مولانا عبد اللہ کے پاس کانپور میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی، لیکن مولانا عبد اللہ نے کچھ ایام آپ کو تعلیم دی پھر آپ کو ایک حافظ صاحب میر پور کے سپرد کر دیا، ان سے آپ نے قرآن پاک کی تکمیل حاصل کی۔
ابتدائی تعلیم:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ نے بلہور میں تین پارے حفظ کیے، پھر مولانا درّے شاہ کشمیر کی نگرانی میں فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ محمدیہ جگر وکا ٹیلہ بدایوں میں آپ نے حضرت علامہ مولانا یوسف شاہ، مولانا عبدالمالک صاحب علیہما الرحمہ سے تین سال تک درس نظامیہ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ اعلیٰ تعلیم اور منتہی کتابوں کی تحصیل کے لیے مدرسہ شمس العلوم گھنٹہ گھر بدایوں میں جہاں مولانا ابراہیم صاحب سمستی پور بہار، مولانا محبوب علی صاحب بدایونی اپنے علم و فضل کے گوہر لٹا رہے تھے داخلہ لیا، مسلسل دس سال تک گوہر نایاب اساتذہ کے علم کی روشنی سے اکتساب فیض حاصل کیا، اور ان اساتذہ کی نوازشوں نے صرف درسگاہی تک محدود نہ رکھا بلکہ اپنی نظر کیمیا کے اثر سے علم و فن اور عشق و عرفاں کے جام بھی پلائے۔
نکاح و اولاد:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کا نکاح موضع زین پور میں جناب محمد یٰس خان صاحب کی صاحبزادی سے ہوا جن سے تین اولاد ہوئیں۔ آپ کے دو صاحبزادے ہیں ایک مولانا یونس رضا خان حشمتی، دوسرے محمد الیاس رضا خان اور ایک صاحبزادی جن کا عقد حاجی صغیر احمد خان ڈنڈوہ بزرگ سے ہوا۔
سفر حج و زیارت:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ 1963ء کو زیارت حرمین شریفین سے سرفراز ہوئے، ڈنڈوہ بزرگ کی سر زمین پر آپ سے قبل کسی نے حج نہیں کیا تھا اس لیے بے شمار عقیدتمندوں نے جمِّ غفیر کے ساتھ آپ کو نعرہ تکبیر و نعرہ رسالت لگاتے ہوئے اپنے وطن عزیز سے روانہ کیا۔
بیعت و خلافت:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ 14 رمضان المبارک 1375ھ کو مرشد کامل، ولی حق مظہر اعلیٰ حضرت، شیر بشیہ اہلسنت، مناظر اعظم ابو الفتح، عبید الرضا حضرت علامہ مولانا الحاج الشاہ حافظ و قاری محمد حشمت علی خان رحمۃاللہ علیہ کے دست حق پر سلسلہ قادریہ،حشمتیہ میں بیعت ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ اجازت و خلافت بھی عطا فرمائی۔
آپ کی دوسری خلافت 10 شوال 1384ھ کو شہزادہ اعلیٰحضرت حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی مصطفیٰ رضا خان المعروف مفتی اعظم ہند بریلوی نے سلسلہ قادریہ، برکاتیہ، رضویہ، مصطفیہ میں تقریری و تحریری صورت سے نوازا۔
آپ کی تیسری خلافت 30 دسمبر 1964ء کو مناظر اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حسین سنبھلی علیہ الرحمہ نے سلسلہ قادریہ، چشتیہ، اشرفیہ کی اجازت و خلافت تقریری و تحریری طور پر مرحمت فرمائی۔
آپ کی چوتھی خلافت 15 شوال 1408ھ کو بموقع عرس خلیفہ رحمانی ڈنڈوہ بزرگ میں حضرت علامہ حکیم دانش علی صاحب فریدی علیہ الرحمہ نے سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، قلندریہ، چشتیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔
اس طرح آپ چشتیت، اشرفیت، نقشبندیت، قلندریت، حشمتیت اور رضوبیت کے حسین سنگم بن گئے۔
درس و تدریس:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد 1975ء سے 1995ء تک سیٹھ حاجی مظہرالدین نوری کے دینی قلعہ الجامعۃ الرضویہ مظہرالعلوم میں ۲20سال تک بطور ناظم اپنے علم و فضل کے گوہر لٹاتے رہے اور طلبہ کی تشنگی علم کو اپنے علم سے سیراب کرتے رہے۔
دیانت داری:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ میں امانت داری و دیانت داری کا وصف نمایاں تھا جیسا کہ استاذ گرامی مولانا شمیم رضا نے بتایا کہ مرشد گرامی صداقت و امانت کے حسین پیکر تھے۔ جامعہ رضویہ مظہرالعلوم کی جو امانت آپ کے پاس تھی بعد وصال ویسی ہی تھیلی با تھیلی آپ کے حجرہ مبارکہ سے اپنی اصلی صورت میں دستیاب ہوئیں۔
کرامات:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کی کرامات بے شمار ہیں مگر ایک کرامت قلمبند کرتا ہوں۔ استاذ گرامی مولانا شمیم رضا نے بتایا کہ یوں تو حضور ادریس ملت اپنے تمام تلامذہ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے مگر مجھ سے کچھ زیادہ ہی الفت و محبت تھی اپنے ضرویات کے کام مجھ سے ہی کروایا کرتے تھے اپنے پاس پڑھانا لکھانا گویا مجھ کو اپنے پاس ہی رکھتے تھے۔ جب آپ کا وصال ہوا تو میں آپ کے پاس نہیں تھا، لوگوں نے مجھے آپ کے وصال کی اطلاع دی تو میں اشک غم اپنی آنکھوں میں لیے اپنے مرشد گرامی کے پاس آیا اور اپنے غمگین لحظہ میں عرض کی حضور! حیات میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا آخر کون سی خطا سرزد ہوئی کہ آخری دیدار سے بھی محروم کر دیا، اتنا کہنا تھا مرشد گرامی نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے دیدے کو حرکت دی، پھر اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لیں،موجودہ تمام عقیدتمندوں نے آپ کی اس کرامت کو ملاحظہ فرمایا۔
علالت و علاج:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ کی 24 اکتوبر 1995ء کو طبیعت ناساز ہو گئی مقامی ڈاکٹروں سے علاج کروایا مگر شفایابی نہ مل سکی مسلسل طبیعت بگڑتی جا رہی تھی بالآخر اپنے نواسے و خلیفہ مولانا غلام احمد رضا خان ادریسی سے درود تاج پڑھ کر دم کروایا مگر مشیعت الٰہی کچھ اور تھی۔
وصال و مدفن:
حضور ادریس ملت علیہ الرحمہ سخت علالت کے بعد 2 جمادی الآخر 1416ھ مطابق 2ء اکتوبر 1995ء بروز جمعہ ۹ بجکر 15 منٹ پر اہل ڈنڈوہ و سنیت ڈنڈوہ و تمام عقیدتمند مریدین، متوسلین، محبین، مخلصین اور معتقدین کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے معبود حقیقی سے جا ملے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا یونس رضا صاحب نے پڑھائی۔ مریدوں کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں افراد نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ نماز جنارہ کے بعد صرف علماء کرام اور مشائخ نے ہی نہیں بلکہ عقیدتمندوں نے بھی کاندھا دے کر جنازہ کو قبر تک لے جانے کا شرف حاصل کیا۔ خانقاہ احمدیہ، قادریہ، نقشبندیہ، رضویہ میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
جس نے پیدا کیے کتنے لعل و گوہر
ایسے ادریس ملت پہ لاکھوں سلام