عصری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کانظم کتنا سچ اور کتنا۔مفید۔

خامۂ بکف: منصوراحمدحقانی،
صدر شعبۂ اسلامیات: السبیل اکیڈمی کسیار گاؤں ارریہ۔
دینی درسگاہوں میں عصری علوم کی شمولیت پر بڑی بحثیں، تکراریں، تنقیدیں اور سیاست ہوتی رہتی ہیں۔ ٹی وی چینلز پرمباحثہ(ڈبیٹ) ہوتے ہیں، اس موضوع پرآئے دن کتابیں لکھی جارہی ہیں اور مضامین قلمبند کئے جارہے ہیں۔ حکومتی سطح پر مدارس کا نصاب تعلیم بدلنے کیلئے مختلف زاویوں سے ارباب مدارس کو حراساں کئے جانے کی خبروں کی نشر واشاعت ہورہی ہیں، جن کے نتیجے میں مجبوراً اہالیانِ مدارس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے ادارے میں عصری علوم کے لئے راہیں ہموار کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ مسلم تنظیموں، انجمنوں اور این جی اوز نے بھی مدارس سے نکلنے والے طلبہ اور کو عصری درس گاہوں کی راہ دکھانے کے لیے کئی ادارے کھولے ہیں اور کئی بڑے اداروں نے الگ سے عصری علوم کا شعبہ قائم کیا ہے تاکہ طلبائے مدارس اس سے مستفیض ہو سکیں۔ بہر کیف زندگی میں ہر جگہ علم کی ضرورت ہے، علم کی فضیلت واہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ اسلام نے بھی علم کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ علم انبیاء علیہم السلام کی میراث ہے۔ انبیاء کرام میراث میں مال ودولت نہیں چھوڑتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کے لئے علم چھوڑ کر چلے گئے اور اسی علم کی بنیاد پر ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر بہت زیادہ ہے۔ شہید کا خون اور ایک عالم کے قلم کی سیاہی قیامت کے دن برابر ہوں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم کتنا ضروری ہے۔ اور اصل علم وہ ہے جو انسان کو انسانیت سیکھائے، زندگی جینے کا سلیقہ سیکھائے، حق و باطل میں فرق بتلائے، حلال وحرام میں تمیز پیدا کرا سکے اور حقوق کی شناسائی کراکر عمل پیرا کرے وغیرہ اور ان تمام صفات کا حامل اگر کوئی علوم ہے تو وہ صرف اور صرف دینی علوم (اسلامی تعلیمات) ہیں۔ آج پوری دنیا میں جو ظلم وزیادتی، لوٹ ماری، بدعنوانی، کرپشن اور کمزوروں کو دبانے کا جو مزاج ہے اس کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے، آج دنیا ہنرمند لوگوں سے بھری پڑی ہیں مگر علم حقیقی سے بے بہرہ ہے۔ دراصل امن کے دشمنوں نے انسانیت کا درس دینے والے اسلامی تعلیمات کو ایک خاص طبقے سے جوڑ دیا ہے جبکہ اسلام آیا ہی ہے دنیا میں امن و امان کی فضاء قائم کرنے کیلئے اسلام کا پیغام پوری انسانیت کیلئے سراپا خیر ہے۔ مگر اسلام دشمنوں نے نت نئے شازش کے تحت اسلامی تعلیمات کو من گھڑت الزامات کے گھیرے میں لاکر کھڑا کردیا ہے تاکہ اسلام کو بدنام کیا جاسکے۔
اسی لئے آئے دن مدارسِ کے نصاب پر انگشت نمائی ہوتی ہے جبکہ اسکولوں میں ’دینی تعلیم ‘کا مسئلہ اس شدت کے ساتھ کبھی بھی موضوع بحث نہیں بنا، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دینی مدارس و مکاتب میں پڑھنے والے مسلم بچوں کی تعداد صرف ٪4 فیصد ہے۔ جبکہ اس میں مکاتب بھی شامل ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی تعداد دو فیصد سے زائد نہیں ہوگی۔ تاہم اگر تسلیم کرلیاجائے کہ چار فیصد طلبہ و طالبات مدارس میں پڑھتے ہیں ،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی %96 فیصد مسلم بچے اسکولوں اور عصری درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں پر وہ طلبہ اور طالبات نہ صرف اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم رہتے ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات اور ہدایات پر شکوک وشبہات کے شکار ہوجاتے ہیں، جس سے ارتداد کے دروازے کھلنے لگتے ہیں، اسلئے عصری تعلیمی اداروں، اسکولوں اور پرائیویٹ انسٹیٹیوٹز میں اسلامی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا دینی فریضہ ہے۔ اقوام عالم کے کسی بھی تعلیمی ادارے کا نصاب ان کے مذہبی نظریات و افکار کے بغیر نامکمل ہے جیسے ہندؤں کے تعلیمی اداروں میں “سنسکرت” عیسائیوں کے “اسٹڈیز آف کرسچن” اور سکھوں کے اداروں میں”خالصہ” وغیرہ مضامین ان کے مذہبی تعلیمات و نظریات کو فروغ دیتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے تعلیمی ادارے اسلامی تعلیم و تربیت سے کوسوں دور ہیں۔ مسلم اسکولوں کے پاس ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے، جس سے وہ نسل نو کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرسکے، مسلمانوں کے لیے اس سے بڑا سانحہ اور کیاہوگا کہ وہ اپنے دین و ایمان سے بے بہرہ رہ جائے۔وہ اپنے مقصد زندگی اور منزل حیات کو بھول جائے۔ یہ ملت اسلامیہ کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو بھی موضوع بحث بننا چاہیے اور اس کمی کی تلافی کے لیے راہیں تجویز کی جانی چاہیے، کیونکہ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی دینی معلومات ناگفتہ بہ ہے ۔ ان کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جسے اسلام، اسلامی عقائد اور اس کے تقاضوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہے۔ انہیں صرف اتنی بات معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ دوسری اقوام کی طرح وہ بھی ایک قوم ہیں ،جس کے دوسروں سے الگ کچھ رسومات ہیں جو شادی بیاہ اور خوشی و غم کے مواقع پر اختیار کرلیے جاتے ہیں۔ بعض مسلم اسکولوں کے کاغذات میں اسلامیات کا شعبہ تو ضرور ہیں مگر وہ صرف یاتو لکھنے اور بولنے تک یا کاغذاتتک ہی محدود ہیں زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں ہے۔ کئی ایسے اسکولوں کے طلبہ اور طالبات کا راقم نے جائزہ لیا، جہاں شعبۂ اسلامیات تو ہے مگر وہاں زیر تعلیم بچوں کو ٹھیک سے کلمہ بھی یاد نہیں ہے اور کئی کئی سالوں سے شعبۂ اسلامیات سے وابستہ ہیں لیکن ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اکثریت کو اسلام اور مسلمانوں کا معنی اور مطلب تک معلوم نہیں ہے۔ مذکورہ جائزے اور مشاہدے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی ایک بڑی تعداد مبادیاتِ اسلام سے ناواقف ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اسکولوں کی نوعیت مختلف اقسام کی ہیں ایک وہ اسکول ہے جو حکومت کی نگرانی میں چلتے ہیں ان اسکولوں میں دینی تعلیم کی توقع کرنا عبث ہے حالانکہ غریب مسلمانوں کی اکثریت انہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ دوسرا وہ اسکول ہے جو پرائیویٹ اور نجی ہیں اور معیاری قسم کے ہیں۔ ان میں بڑے سرمایہ داروں اور سیاست داں لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کا نظم و نسق انتہائی معیاری ہوتاہے اور فیس بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس طرح کے اسکولوں میں مسلم طلبہ کی تعداد برائے نام ہی ہوتی ہے، اور ان اسکولوں کو زیادہ تر کرسچن اور ہندو مذہب کے ماننے والے افراد اور تنظیمیں چلاتی ہیں۔ ان کے اپنے مقاصد ہیں، جن کے مطابق ان کا نصاب اور نصابی سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ اس لئے ان اسکولوں میں دینی تعلیم کی امید کرنا بے جا ہے۔ تیسرا اور اہم وہ اسکول ہیں جو پرائیویٹ ہیں مگر اعلیٰ درجے کے نہیں ہے بلکہ متوسط درجے کے ہیں۔ اقتصادی طور پر متوسط مسلمانوں کے بیشتر بچے انہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان اسکولوں کو چلانے والے زیادہ تر مسلم افراد ہیں، ان اسکولوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تمام تر بڑے تعلیمی اداروں میں جو طلبہ اور طالبات داخلہ لیتے ہیں وہ زیادہ تر انہی متوسط درجے کے اسکولوں سے ہی تیار ہوکر نکلتے ہیں۔ اگر ان اسکولوں میں اسلامیات پڑھایا جائے تو یہ سمجھئے کہ مستقبل میں یہی بچے اسلام کا ترجمان اور دین کا بہترین داعی بن سکتے ہیں کیونکہ انہی بچوں میں سے کچھ سرکاری محکموں میں جائیں گے، کچھ سیاست کے میدانوں میں جائیں گے، کچھ میڈیکل لائن میں جائیں گے اور کچھ دیگر جگہوں پر مختلف خدمات کو انجام دیں گے، مگر کہیں بھی جائیں گے ان کے اخلاق و کردار میں اسلامی تعلیم و تربیت ان کو نمایاں اور امتیازی حیثیعت عطا کردےگی، لیکن ان نجی اسکولوں کے ذمہ دارو کو اسلام اور مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ لوگ صرف لفظی مسلمان ہیں جن کا مقصد اسکول کے نام پر تجارت کرنا ہے، اسی کے پیشِ نظر ان کا نصاب اور نصابی سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔
غیر امداد یافتہ یا پرائیویٹ مسلم اداروں کی اکثریت ایسی ہے جنہیں ملی و دینی جذبہ سے اسکول چلانے کے بجائے ایک نفع بخش کاروبار سمجھ کر چلائے جارہےہیں، گر چہ بعض اداروں اور افراد کے اندر قومی جذبہ پایاجاتاہے، تاہم ان کے یہاں بھی دینی تعلیم کا کوئی باقاعدہ نظم نہیں ہوتاہے۔ ان پرائیویٹ اسکولوں میں وہ اسکول جو مسلم اکثریتی علاقوں میں ہیں ، ان میں طلبہ اور طالبات کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے اپنی ایک الگ خصوصیت کے طور پر دینیا ت کی تعلیم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کیا جاتا ہے۔وہاں دینیات نصاب میں درج ہوتاہے اور پڑھایا بھی جاتا ہے،لیکن رزلٹ میں اس کو شمار نہیں کیا جاتاہے۔ اس لیے طلبہ اور طالبات اور سرپرست اس مضمون کو اہمیت نہیں دیتے۔ یاں زیرِ تعلیم طلبہ اور طالبات بددلی کے ساتھ اس کی کلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ پڑھانے والے اساتذہ بھی عام طور پر غیر تربیت یافتہ اور سخت مزاج ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس مضمون سے بے رغبتی کی فضا بنی رہتی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں بعض اسکولوں نے دینی تعلیم کا اچھا تجربہ کیاہے۔ وہ شعوری طور پر طلبہ اور طالبات کی دینی تربیت کرنا چاہتے ہیں مگر انہوں نے تربیت یافتہ اور فنی طور پر ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں ، لیکن اس طرح کے اسکولوں کی تعداد بہت کم اور ناقابل ذکر ہیں۔ عصری اداروں اور اسکولوں میں دینی تعلیم کی یہ صورت حال ریسرچ اور ڈاٹا اکٹھا کرنے کی محتاج ہے۔یہ ایک مستحسن قدم ہوگا اگر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ میں اسے طلبہ اور طالبات کے ریسرچ کا موضوع بنایاجائے ۔اس سے توقع ہے کہ بہت اہم حقائق ہمارے سامنے آسکتے ہیں اور ا س کے علاج کے لئے بہتر تدابیر اختیار کئے جاسکتے ہیں۔