عصرِ حاضر اور نوجوان

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپورم، کیرالا
آج کے نوجوانوں کی حالت پر غور کریں تو یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے، وہ کہاں جا رہے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ان سوالات کے کئی اہم پہلو ہیں جنہیں سماجی، تعلیمی، اخلاقی، اور مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے ۔
ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیم کے حقیقی مقصد سے کوسوں دور ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے بے جا استعمال نے انہیں علم کے بجائے تفریح کی طرف زیادہ مائل کر دیا ہے۔ وہ کتابوں سے دور اور وقت ضائع کرنے والے مشاغل میں زیادہ مشغول نظر آتے ہیں۔ ہمارے نوجوان کا اکثر حصہ سوشیل میڈیا پر بس ریلس دیکھتے ہوئے گزرتا ہے جس میں طرح طرح کی فحاشی شامل ہوتی ہے جو قابلِ مذمت ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اخلاقی تربیت کا فقدان ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ احترام، رواداری، اور معاشرتی ذمہ داری جیسے اصول کمزور ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کے رویے میں بے ادبی اور خود غرضی عام ہوتی جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ خاندانی نظام میں کمزوری اور تربیت کی کمی ہے۔
دین سے دوری آج کے نوجوانوں کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دنیاوی لذتوں اور خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی وجہ سے وہ اپنی روحانی ضرورتوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ دینی تعلیم اور عبادات کو وقت دینا انہیں بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ اسے لیے آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ ہمارے معاشرے میں رہنے والا نوجوان مختلف برائیوں میں ملوث رہتا ہے اور ہاں اگر اسے نماز روزے کے لیے بولا جاتا ہے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتا ہے گویا ایسا لگتا ہے کہ کو بہت بڑا کام کرنے کے لیے بول دیا گیا ہے ۔ اس ماحول کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے دین سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ یہاں ایک چیز اور ہے یعنی کہ آج کا ہمارا نوجوان سماجی دباؤ کا شکار ہے۔ کامیابی کی دوڑ، فیشن کا مقابلہ، اور دوسروں کی دیکھا دیکھی میں اپنی پہچان کھو رہا ہے۔ ان تمام اشیاء کے نتیجے میں نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، بے چینی، اور خودکشی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں جن کا درست اور صحیح علاج کونا نہایت ہی اہم ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم اپنے دین کے وقار کو کھو دیں گے ۔۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نوجوانوں کو درست سمت میں راہنمائی دینے والے افراد یا ادارے بہت کم ہو گئے ہیں۔ والدین، اساتذہ، دوست و اقارب اور رہنما اپنے کردار کو موثر انداز میں ادا نہیں کر پا رہے ہیں جس کی وجہ سے آج کا ہمارا نوجوان نا معلوم کتنے برائیوں میں ملوث ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نوجوان صحیح اور درست راہ از سرِ نو دوبار قائم و دائم ہو جائے تو ہمیں نوجوانوں کو تعلیم کا صحیح مقصد سمجھایا پڑیگا ۔ اخلاقی تربیت کو نصاب کا حصہ بنایا پڑیگا۔ دینی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے مساجد، مدارس، اور دیگر دینی مراکز فعال اور متحرک انداز میں کام کرنا پڑیگا۔ ساتھ ہی ساتھ نوجوان نوجوانوں کو ذہنی سکون اور روحانی تربیت کے لیے مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ والدین اور اساتذہ کو نوجوانوں کے لیے مثالی کردار بننا چاہیے۔
ویسے تو نوجوان نسل کسی بھی قوم اور ملک کا بیش قیمت سرمایہ ہے، جس کی فکری و عملی حالت پر معاشرے کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہے۔ اگر یہ نسل راہ راست پر ہو تو قوم کا مستقبل روشن اور تابناک ہوتا ہے، ورنہ قوم زوال اور بگاڑ کا شکار ہوجاتی ہے۔ نوجوانوں کی عبادت اور نیک روش پیغمبروں کا خاص طریقہ رہا ہے، اور اس مرحلے پر انسان کی اصلاح اور تعلیم کا بہترین وقت میسر ہوتا ہے۔
اس دورِ جدید کے مسلم نوجوانوں کے پاس دنیا کی تمام آسائشیں اور سہولیات تو ہیں، مگر اسلامی تعلیمات اور حقیقی ایمان کی روح ان کے اندر موجود نہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کے اندر اسلامی احکام کا شعور اور عمل مفقود ہے، جس کی مثال ہمیں ان کے ظاہری زندگی اور طرزِ عمل سے ملتی ہے۔ آج کے نوجوان کا لباس غیر شرعی ہوتا ہے، جس میں جینز اور ایسے ملبوسات شامل ہیں جو ٹخنوں سے نیچے ہوتے ہیں۔ انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے اس طرزِ لباس کو ممنوع قرار دیا ہے اور فرمایا کہ جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ جہنم میں جلے گا۔ اسی طرح، سر اور داڑھی کے بالوں کے حوالے سے بھی اسلامی ہدایات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے جسمانی وضع قطع میں مغربی فیشن کو اپنا کر اسلامی تعلیمات سے دور ہو چکے ہیں۔
مزید یہ کہ نوجوانوں میں ایسی غیر اسلامی عادات پروان چڑھ رہی ہیں جیسے کنگن اور یورات پہننا، جو عورتوں سے مشابہت کا باعث بنتی ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس موبائل فون اور ایئر فون ہوتا ہے، مگر نماز اور اذان کی آواز سن کر بھی اس کا جواب دینے یا نماز ادا کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ ان کی مصروفیات میں دین اور روحانیت کی کوئی جگہ نہیں، اور یہی بے حسی انہیں دین سے مزید دور کر رہی ہے۔آج کے نوجوان کو چاہیے کہ اسلامی احکام کی طرف رجوع کرے، اپنی ذات اور اپنے معاشرے کے اصلاح کی فکر کرے، اور نیک طرزِ عمل اور عبادات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ اس طرح وہ اپنی دنیاوی کامیابی کے ساتھ آخرت میں بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔
آج کے مسلم نوجوان کو یہ سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ ان کا جسم و روح، دونوں اللہ کی امانت ہے۔ شریعت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارا وجود خود ہماری ذاتی ملکیت نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے، اور اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ اللہ نے یہ جسم اور روح ہمیں اس لیے دی ہے تاکہ ہم اس دنیا میں اس کی رضا کے مطابق زندگی گزاریں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کا نوجوان جسمانی صحت کی طرف تو بہت توجہ دیتا ہے، لیکن روحانی امراض کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
انسان نے ظاہری جسمانی بیماریاں پہچان لی ہے اور ان کا علاج بھی کرتا ہے، مگر روح کی بیماریوں سے غفلت برتتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نوجوان نماز چھوڑ دیتا ہے، روزے سے دور بھاگتا ہے، سگریٹ نوشی، شراب نوشی، موسیقی اور فلموں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، والدین کے حقوق کا خیال نہیں رکھتا اور اس طرح کے بے شمار گناہ کرتا ہے۔ یہ سب کام اسے روحانی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں، لیکن افسوس، اس کی روح کو پہنچنے والے زخموں کا اسے احساس تک نہیں۔
نماز چھوڑنے کی عادت آج کے نوجوانوں میں اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ گویا یہ معمول بن گیا ہے۔ حالانکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو ایمان کی معراج اور کفر و اسلام کے درمیان ایک فرق قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو جاگتے، دعائیں مانگتے، اپنی امت کی ہدایت کے لیے پریشان رہتے تاکہ کوئی بھی ان کا امتی جہنم میں نہ جائے۔ ان کے ارشادات میں بارہا نماز کو پابندی سے ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ رب العزت قرآنِ مقدس میں ارشاد فرماتا ہے کہ”نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے“؛ مگر ہمارے نوجوان نماز کی اہمیت کو بھول چکے ہیں۔
آج کے دورِ جدید میں بعض لوگ اس حد تک نماز سے دور ہوچکے ہیں کہ اگر کسی غیر مسلم سے کہا جائے کہ نماز اسلامی عبادت کا ستون ہے، تو وہ حیران ہو کر کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ فرض ہوتی تو سارے مسلمان اس کی پابندی کرتے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس غفلت کی وجہ سے ایک مسلم نوجوان کو داڑھی رکھنے پر کالج سے نکالا گیا اور جج نے یہ فیصلہ سنایا کہ اگر داڑھی اسلام میں اتنی لازمی ہوتی تو خود اس کے وکیل نے داڑھی رکھی ہوتی۔ یہ واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آج ہماری عبادات اور اسلامی شعائر کے ساتھ ہمارا تعلق کس قدر کمزور ہوچکا ہے۔ہماری عبادات میں اس تفریق کی کیا وجہ ہے کہ ہم جمعہ اور عید کی نماز تو پڑھ لیتے ہیں مگر روزانہ کی پانچ نمازیں ہمارے لیے مشکل بن گئی ہیں؟ اللہ نے جس طرح جمعہ اور عیدین کو ضروری قرار دیا ہے، اسی طرح پانچ نمازوں کو بھی فرض قرار دیا ہے۔ ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط بنانا ہوگا اور یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ نماز ہی ہمارے دلوں کی ٹھنڈک اور روح کی غذا ہے۔
آج کے مسلم نوجوان کو یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان کا جسم و روح اللہ کی ایک امانت ہیں۔ ہمارا وجود، ہماری زندگی، سب اللہ رب العزت کی جانب سے عطا کردہ ہے، اور ہمیں اس کے احکامات کے مطابق اسے استعمال کرنا ہے۔ شریعت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمارا جسم صرف ہماری ملکیت نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے، جسے اللہ کے احکامات کے مطابق حفاظت سے استعمال کرنا لازم ہے۔ مگر آج کے دور میں نوجوان ظاہری صحت و طاقت کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں، لیکن روحانی پاکیزگی اور اس کی بیماریوں سے غفلت برتتے ہیں۔
آج کا نوجوان جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے تو فکر مند رہتا ہے، لیکن روحانی زوال کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نماز چھوڑ دیتا ہے، روزہ چھوڑ دیتا ہے، اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتا ہے۔ سگریٹ نوشی، فلمیں، منفی انٹرنیٹ استعمال، اور والدین کے حقوق سے غفلت جیسے اعمال آج کے نوجوانوں کو اندر سے کھوکھلا کر رکھا ہے۔ یہ سب چیزیں ان کی روح کو زخمی کرتی ہے، لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ یہ کیسی تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
نماز کی عادت میں کمی آج کے نوجوانوں میں عام ہوچکی ہے، گویا یہ کوئی معمولی بات ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو دین کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا کہ نماز ایمان کی معراج ہے اور کفر و اسلام کے درمیان ایک حد فاصل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو اپنی امت کے لیے دعائیں کرتے اور ان کی ہدایت کے لیے فکر مند رہتے تھے، تاکہ کوئی ان کا امتی جہنم میں نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں تاکید کی ہے کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، مگر آج کے نوجوانوں میں نماز کی اس قدر غفلت ہے کہ شاید یہ بات ان کے لیے معمولی بن چکی ہے۔
آج بعض لوگ نماز سے اس حد تک دور ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم ان سے پوچھے تو اسے یہ کہنے کا موقع مل سکتا ہے کہ نماز کا اسلام سے تعلق نہیں، اگر ایسا ہوتا تو سارے مسلمان اسے ادا کرتے۔ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مسلمان نوجوان کو داڑھی رکھنے کی وجہ سے کالج سے نکالا گیا۔ اس نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا، مگر جج نے یہ کہہ کر مقدمہ رد کردیا کہ اگر داڑھی رکھنا اسلام میں ضروری ہوتا تو اس کے وکیل نے بھی داڑھی رکھی ہوتی۔ یہ واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آج ہماری عبادات اور اسلامی شعائر سے ہمارا رشتہ کس قدر کمزور ہوچکا ہے۔
جمعہ اور عیدین کی نماز کو ہم اہتمام سے پڑھتے ہیں، لیکن پنج وقتہ نمازوں سے غافل ہیں۔ کیا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ جس خدا نے جمعہ اور عیدین کو فرض کیا ہے، اسی نے روزانہ پانچ نمازوں کو بھی فرض قرار دیا ہے؟ آج ہمیں اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ نماز ہماری روح کی غذا ہے اور ہمارے دل کی ٹھنڈک۔ ہمیں اپنی عبادات کی طرف پلٹنا ہوگا اور ان کو اہمیت دینی ہوگی تاکہ ہماری روحانی زندگی بہتر ہوسکے اور اللہ کی رضا حاصل ہوسکے۔
میرے اسلامی بھائیوں! سنو، تمہیں گمراہ کرنے اور تباہی کے راستے پر ڈالنے کے لیے مختلف ممالک میں سازشیں ہو رہی ہے۔ یہود و نصاریٰ نے تمہارے بگاڑ کے لیے منصوبے بنائے ہیں، تاکہ تم اپنی اصل منزل اور مقصد کو بھول کر بے راہ روی کا شکار ہو جاؤ۔ یہ جان لو کہ قوموں کا عروج و زوال نوجوانوں کے طرز عمل سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا نوجوان اپنی شناخت اور مقصد کو بھول چکا ہے۔ وہ نوجوان جو کبھی دین کے اصولوں کو اپنائے ہوئے تھے، آج مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں گم ہو گئے ہیں۔ جس نوجوان کے ہاتھ میں قرآن ہونا چاہیے تھا، آج اس کے ہاتھوں میں مغربی افکار اور اشتراکیت کی کتابیں ہیں۔ جس زبان سے کبھی اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں، آج اس زبان سے بے حیائی کی باتیں نکلتی ہیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارا نوجوان کہاں جا رہا ہے؟ اس کی منزل کیا ہے؟ ایسی صورتحال میں اگر ہمیں کہیں سے امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ دینی مدارس ہیں۔ مدارس آج بھی دین کے مضبوط قلعے ہیں۔ یہی وہ جگہیں ہیں جہاں دین کی حفاظت ہو رہی ہے اور جہاں کے طلبہ دین کو اصل روح کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان مدارس میں نمازِ تہجد، اشراق، چاشت اور دیگر نوافل کی پابندی کی جاتی ہے۔ مدارس کے طلبہ کو دیکھیں تو ان میں اخلاص، تقویٰ، ایثار، اور دین کی حقیقی محبت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ یہ طلبہ واقعی ہمارے دین کے چراغ ہیں اور اپنے کردار و عمل سے دیگر گمراہ نوجوانوں کے لیے مثال ہیں۔
مدارس کے طلبہ کو اب یہ عزم کرنا ہوگا کہ وہ اس گمراہ نسل کو ساحلِ سکون تک پہنچائیں گے۔ ان کے دلوں میں یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ملت کے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو واپس دین کی طرف بلائیں گے۔ یہی نوجوان طلبہ ملت اسلامیہ کی امید ہیں اور حزب اللہ کا ایک مضبوط حصہ ہیں۔ اللہ ان نوجوانوں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرے کہ وہ معاشرے میں اصلاح کا سبب بنیں اور نوجوانوں کو راہِ راست پر گامزن کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp