عصرحاضر کی صحافت میں اخلاقیات کا فقدان

محمد انصارچندرسین مدھوبنی
معلم :ائی اسکول مدھے پور پوربی، مدھوبنی
صحافت عربی زبان کا لفظ ہے، جو صحف سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں، یعنی ایسا مطبوعہ مواد جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ہے، صحافت کہلاتا ہے ، اردو اور فارسی میں یہی اصطلاح رائج ہے۔
سب سے پہلے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ صحافت ایک ایسا فن ہے جس کے لیے مسلسل محنت کی ضرورت ہے، اس بات کو بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ صحافت صرف ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ حکومت کا ایک اہم ستون بھی ہے، بلکہ اکثر لوگ اس کو ریاست کا سب سے زیادہ طاقتور ستون قرار دیتے ہیں۔
صحافت (Journalism) کسی بھی معاملہ کے بارے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی،بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانہ پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ تکنیکی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو شعبۂ صحافت کے کئی معنی اور اجزاء ہیں، لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔
مختلف شعبہائے زندگی میں کچھ اخلاقی قدروں کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل کیے جانے پر ہمیشہ سے انسانی سماج میں زور دیا جاتا رہا ہے۔ صحافت بھی ایک ایسا میدان ہے،جس کی اخلاقیات طے کی گئی ہیں، مگر افسوس کہ موجودہ دور میں صحافت میں اخلاقیات کا یہ پہلو مضمحل ہوتا نظر آرہا ہے، ایک زمانہ تھا جب صحافت کو مشن سمجھا جاتا تھا، لیکن افسوس کہ اب صحافت محض ایک پیشہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سماج کی بدلتی ہوئی قدریں صحافتی اخلاقیات پر اثر انداز ہوئی ہیں۔ ’’خبر کیا ہے‘‘ اور ’’خبر کیا نہیں ہے‘‘ میں امتیاز نہ برتنے کی غلط روش نے صحیح اور غلط کے مابین فرق کو ہی مٹادیا ہے۔ کاش صحافت سے وابستہ حلقۂ پروفیشنل ایتھکس (Professional Ethics) کو ملحوظ خاطر رکھے اور ہمہ وقت اس کا استحضار کرتا رہے تو صحافت کو صحیح، مثبت اور تعمیری رخ دینے کا کام بآسانی انجام پاسکے۔
ہندوستان اور بین الاقوامی میڈیا کے سرکردہ اداروں نے اس کے لیے کچھ بنیادی اصول وضع کیے ہیں، انہیں کو پروفیشنل ایتھکس کہاجاتا ہے۔
ذرائع ابلاغ چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا اس میں شکل نہیں کہ یہ دونوں بڑی سماجی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت کو جمہوریت کا ایک اہم ستون قرار دیا گیا ہے۔ بدگمانی، بھکمری، غربت، عدل وانصاف، ناخواندگی، ظلم وزیادتی سے جڑے ہوئے موضوعات سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرنا یقیناً ایک صحافی کا اپنا سماجی فرض نبھانا ہے، ایسے تمام واقعات کی رپورٹنگ اور ان کو پیش کرنے میں بنیادی عنصر معروضیت کا ہے۔
میڈیا واچ ڈاک، انڈیا براڈ کاسٹنگ فائونڈیشن، ایڈیٹرس گلڈ، پریس کونسل آف انڈیا وغیرہ نے معروضیت کو خبر یارپورٹ کی بنیاد قرار دیا ہے، جس کے تحت ذاتی رائے کو شامل کیے بغیر مسئلہ سے تعلق رکھنے والی اصل اور مکمل صورت حال کو پیش کرنا ضروری ہے۔ اس کا دوسرا عنصر ایمانداری ہے۔ چنانچہ خبررسانی میں واقعات کو چھپانے یا توڑمروڑ کرکے پیش کرے گی۔ گنجائش نہیں ہوسکتی اور واقعہ یہ ہے کہ اگر ایمانداری نہ ہوگی تو صورت حال کی سچی رپورٹنگ ہوسکے گی اور صحیح غلط کے مابین امتیاز قائم کرنا دشوار ہوجائے گا۔
اس دور کا سب سے بڑا چیلنج میڈیا ہے اور انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ میڈیا مؤثر ترین اور طاقتور ہتھیار ان لوگوں کے پاس ہے، جن کے پاس نہ ہی انسانیت کے غم میں تڑپنے والا دل اور نہ ہی ان کی بدنصیبی پر آنسو بہانے والی آنکھ اور انسانیت کی فلاح وبہبود اور تعمیروترقی کا کوئی منصوبہ ہے۔ میڈیا کی یہ طاقت تعمیر کے بجائے تخریب، کردار واخلاق سنوارنے کے بجائے بے حیائی، بداخلاقی وانسانوں کی رہنمائی کے بجائے انہیں حق سے بھٹکانے کے لیے استعمال ہورہی ہے، انہیں حقیقتوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ صحافیوں سے اکثر یہ فرمایا کرتے تھے ’’زیرقدمت ہزار جان است‘‘۔
حاصل یہ کہ سماج کے بنائو بگاڑ میں صحافت کا کردار بڑا اہم اور مؤثر ہے، اگر اخلاقیات پیش نظر رہیں تو وہ صحافت مثبت صحافت کہلائے گی اور تعمیری رول ادا کرے گی ورنہ وہ منفی صحافت یا زرد صحافت یا جذباتی وجانبدارانہ صحافت سے تعبیر کی جائے گی، جو ظاہر ہے سماج میں انتشار اور بے راہ روی کا باعث بن گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ صحافت کی صحت مندانہ روایات پر گرفت مضبوط کی جائے اور یہ کام صحافیوں کے مزاج وذوق پر مبنی ہے۔ ’’فیصلہ ترا ترے ہاتھوں میں ہے‘‘، وہ ظالم کی مدد کرنا پسند کرتے ہیں یا مظلوم کی صحافی مفادات سے بلند ہوتا ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک صحافی کو حق کا طرفدار ہونا چاہئے، سچائی کا دامن اس وقت اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا جب وہ مفادات کے تابع ہوجائے گا، چاہے وہ مفادات نجی وگروہی نوعیت کے ہوں یا فرقہ وارانہ نوعیت کے، اگر ایک صحافی کو مفادات عزیز ہوگئے تو وہ صحافی کہلانے کے بجائے پروپیگنڈسٹ کہلائے گا اور حقائق سے اسے کوئی سروکار نہ ہوگا، بلکہ حقائق کو نظرانداز کرنے اور بعض دفعہ مسخ کرنے کا وہ مجرم ہوگا۔
ذرائع تو بذات خود معصوم ہوتے ہیں، البتہ صحافت کی دودھاری تلوار کا استعمال صحافی کے فیصلہ پر ہے۔ چاہے تو وہ ظلم وبدعنوانی کے خلاف شمشیر برہنہ بن جائے یا ظلم کی حمایت میں اپنی توانائیاں صرف کردے،حق کو ناحق قرار دے اور بگاڑ کوسدھار کا نام دے دے، چاہے تو فحش ومنکرات کو فروغ دے یا ان پر روک لگائے۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
بات صحافیت کے اخلاقیات کی چل رہی ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ موجودہ معاشرہ کے اخلاقی زوال میں میڈیا بڑا منفی اور تخریبی کردار ادا کررہا ہے۔ فحش تصویریں اور عشقیہ مکالموں کی اشاعت نے نئی نسل کے اخلاق وکردار کو جس مرحلہ اور موڑ پر پہنچادیا ہے، اس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
صحافت کا کام قبلہ نمائی اور رہنمائی کا ہے اور صحافت سے وابستہ افراد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ ادھر ادھر کی نہ بات کریں بلکہ یہ بتائیں کہ ’قافلہ کیوں لٹا‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp