شعبان المعظم: نیکیوں سے رغبت اور برائیوں سے اجتناب کا مہینہ ہے!

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ قادری
رابطہ نمبر: 9037099731
ڈگری اسکالر: جامعہ دارالہدی اسلامیہ، ملاپورم، کیرالا
اسلامی سال کے مہینوں میں شعبان المعظم ایک خاص مقام رکھتا ہے، کیونکہ یہ رمضان المبارک کی آمد کا پیش خیمہ ہے۔ یہ مہینہ برکتوں، مغفرت اور عبادات میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کو اپنے لیے مخصوص قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشاد فرمایا:’’رجب اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے‘‘(شعب الایمان)۔ یہ بابرکت مہینہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم خود کو رمضان کی برکتوں کے لیے تیار کریں۔ عبادات میں اضافہ، دعا و استغفار کی کثرت، اور نیک اعمال میں مشغولیت شعبان کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے، گناہوں کی معافی مانگے اور رمضان کے استقبال کے لیے اپنی روحانی کیفیت کو بہتر بنائے۔
شعبان المعظم کی سب سے اہم رات شبِ برائت ہے، جو مغفرت، رحمت اور نجات کی رات کہلاتی ہے۔ اس رات اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر خاص نظر کرم فرماتا ہے اور بے شمار گناہ گاروں کو معاف کرتا ہے۔ احادیث میں اس رات کی فضیلت کا ذکر ملتا ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے‘‘(رواہ ترمذی)۔یہ رات اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں انسان کو اپنے رب کے قریب ہونے کا سنہری موقع ملتا ہے۔ اس رات عبادات، توبہ و استغفار، تلاوتِ قرآن اور نفل نمازوں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض علماء کے مطابق یہ رات انسان کی تقدیر کے فیصلوں کی رات بھی ہوتی ہے، یعنی آئندہ سال کے لیے خیر و شر کے معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں عام دنوں کی نسبت زیادہ روزے رکھتے تھے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ شعبان میں اتنے زیادہ روزے کیوں رکھتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ وہ مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے، لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں، حالانکہ اس میں اعمال اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں‘‘(رواہ نسائی)۔ یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ شعبان میں عبادات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، خاص طور پر روزے رکھنا نہایت فضیلت والا عمل ہے۔ اس مہینے میں روزے رکھنے سے نہ صرف روحانی بلندی حاصل ہوتی ہے بلکہ رمضان کے طویل روزوں کے لیے جسمانی تیاری بھی ہو جاتی ہے۔
یہ مہینہ ہمیں اس بات کا موقع دیتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں، اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کریں اور نیکیوں کی طرف رجوع کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟یہ سلسلہ طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے‘‘ (رواہ ابنِ ماجہ)۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب بندہ اپنی تمام کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگ سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔
شعبان المعظم محض ایک عام مہینہ نہیں بلکہ رمضان کے استقبال کی تیاری کا بہترین موقع ہے۔ جو لوگ اس مہینے میں عبادات، دعا، توبہ، استغفار اور نیکیوں کا اہتمام کرتے ہیں، وہ رمضان المبارک کی برکتوں سے مزید مستفید ہوتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینے کی قدر کریں، اس میں عبادات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت، رزق اور برکت کے لیے دعا کریں۔ یہ مہینہ ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کو بہتر بنائیں، اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں اور رمضان کی رحمتوں کے لیے خود کو تیار کریں۔
اسی شعبان المعظم کے مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں نفلی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا‘‘ (رواہ بخاری و مسلم)۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ شعبان میں نفلی روزے رکھنا نہایت مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپناتے ہوئے ہمیں بھی اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ تقویٰ پیدا ہو، عبادات میں استقامت حاصل ہو اور رمضان المبارک کے طویل روزوں کے لیے جسمانی اور روحانی تیاری ممکن ہو۔
آج کے دور میں جہاں مادی مصروفیات اور دنیاوی مشاغل نے لوگوں کو دین سے غافل کر دیا ہے، شعبان کا مہینہ ہمیں ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے اعمال پر غور کریں، دین سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں اور عبادات کی طرف رجوع کریں۔ بدقسمتی سے، بہت سے لوگ شعبان کی برکتوں سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اس مہینے کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی روحانی کیفیت کو بہتر بنائیں، عبادات میں اضافہ کریں اور نیکیوں کی طرف راغب ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مبارک مہینے کو ضائع نہ کریں بلکہ اسے دین کی طرف رجوع، استغفار، نوافل اور ذکر و اذکار کے لیے خاص کریں۔
شعبان کا مہینہ ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے۔ جو شخص نیکیوں کی راہ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے مزید آسانیاں پیدا فرما دیتا ہے۔ اس مہینے میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ آیا ہم اللہ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم نے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لی ہے؟ کیا ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے دل اللہ کی یاد سے منور ہیں؟ یہ مہینہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کریں، اپنے نفس کو قابو میں رکھیں، جھوٹ، غیبت، حسد، بغض اور دیگر برائیوں سے دور رہیں اور اپنے اعمال کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔
شعبان کی برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم عبادات کو اپنا معمول بنا لیں۔ اس مہینے میں عبادات، نوافل، ذکر و اذکار، قرآن کی تلاوت اور درود شریف کی کثرت ہمیں اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مبارک مہینے میں اپنے رب سے خصوصی تعلق قائم کریں اور اس کی رحمتوں کے امیدوار بنیں۔ یہ مہینہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم رمضان کے لیے خود کو تیار کریں اور اپنی زندگی کو دین کے مطابق گزارنے کا عزم کریں۔ اگر ہم اس مہینے میں اپنی عبادات کو سنوار لیں، گناہوں سے توبہ کر لیں اور نیک اعمال کی طرف راغب ہو جائیں، تو یقیناً رمضان المبارک میں ہمیں زیادہ روحانی فیض حاصل ہوگا۔
شعبان المعظم محض ایک عام مہینہ نہیں بلکہ اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اس مہینے میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں، نفلی روزوں کا اہتمام کریں، استغفار کریں اور نیکیوں کی راہ اختیار کریں تاکہ جب رمضان المبارک آئے تو ہم پہلے سے ہی اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے مستحق بن چکے ہوں۔