شب براءت کے معمولات اور اس کی عبادات‎

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
شعبان المعظم وہ مبارک مہینہ ہے جو اپنی رحمتوں، برکتوں اورسعادتوں کے اعتبارسے ماہ رمضان کے لئے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتاہے۔ یہ وہ قابل قدر مہینہ ہے جس کی نسبت حضور اکرمﷺنے اپنی طرف فرمائی اوراس میں خیرو برکت کی دعا فرمائی،نیز اس ماہ کواعمال کی پیشی کا مہینہ قرار دیا اور امت کی اس سلسلہ میں غفلت و بے توجہی کی پیشین گوئی دی۔
اس ماہ شعبان کے بارے اہل علم کے چند اقوال ایسے ہیں کہ جن سے مزیداس کی فضیلت واہمیت واضح ہو جاتی ہے۔شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے بقول:اہل علم کے نزدیک شعبان کے روزوں کی مثال ایسی ہے جیسے فرض نماز کے ساتھ سنتیں ہیں اوریہ ایسے ہیں جیسے رمضان کا مقدمہ ہوں یعنی گویا کہ ماہ رمضان سے پہلے کی سنتیں ہیں، اسی لیے شعبان میں روزے رکھنا مسنون ہے، اور رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا بھی مسنون ہے،تو گویا کہ یہ شعبان والے پہلے کی سنت ہیں اور شوال والے بعد کی۔ شعبان کے روزوں میں اور بھی فوائد ہیں جیسے اپنے نفس کو روزوں کے لیے تیار کرنا اور عادی بناناہے تاکہ وہ رمضان کے روزوں کے لیے بالکل الرٹ ہو، اور انہیں ادا کرنا اس کے لیے آسان ہوجائے۔ حضرت ذوالنون مصر ی رحمہ اللہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:”رجب بیج بونے کا مہینہ ہے، شعبان آب یاری کا اور رمضان پھل کھانے کا مہینہ ہے۔عمرو بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جو رمضان آنے سے پہلے ہی اپنی اصلاح کر لے۔
شب براءت کی فضیلت:
ماہ شعبان کی پندرہویں شب ”شب برأت“ کہلاتی ہے، براء ت کے معنی ”رستگاری وچھٹکارا“ کے ہیں، سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ فرماتے ہیں: شب برأت کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی براء ت ہوتی ہے:(1) ایک براء ت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ (2) دوسری براء ت خدا کے دوستوں کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔(غنیۃ الطالبین)
نیز فرمایا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر وعیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کے لیے آسمان پر دو راتیں (شب براء ت وشبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔ مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی، کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔(غنیۃ الطالبین)
شب براءت کے معمولات:
شب براءت عبادت و ریاضت کی رات ہے، کیونکہ ہمارے بزرگان دین بھی یہ رات عبادت الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت سیدنا خالد بن معدان، حضرت سیدنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگان دین شعبان کی پندرھویں رات اچھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں عبادت کیا کرتے تھے۔(ماذا فی شعبان،) امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز بھی شب براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(تفسیرروح البیان)
ماہ شعبان میں روزوں کی فضیلت:
ماہ شعبان کی فضیلت اس قدر اور زیادہ ہو جاتی ہے کہ حضورﷺ اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَہْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَہْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری،صحیح مسلم) یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپﷺ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔ ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں: کَانَ اَحَبُّ الشُّهُورِ اِلٰی رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ (کنزالعمال) یعنی رسول اللہﷺ کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں۔
اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دومہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔(ترمذی) یعنی نبی کریمﷺ رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔
شب برات پر کیا کیا جائے:
شب براءت میں اللہ تعالیٰ طلوع فجر تک بندوں کو ندا فرماتا ہے، جیساکہ حدیث میں ہے۔إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَيْلَهَا وَصُوْمُوْا نَهَارَهَا، فَإِنَّ اﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلٰی سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُوْلُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَه، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَه، أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِيَه، أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا حَتّٰی يَطْلُعَ الْفَجْرُ. ترجمہ:حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے رزق دوں؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ میں اُسے عافیت عطا کر دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کوئی ایسا نہیں؟ (اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔(بہقی، شعب الايمان)
ہرحکمت والے کام کا فیصلہ:
شب براءت میں ہرحکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے، جیسا کہ الدخان کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قَالَ: فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يُبْرَمُ فِيْهِ أَمْرُ السَّنَةِ وَتُنْسَخُ الأَحْيَاءُ مِنَ الأَمْوَاتِ وَيُکْتَبُ الْحَاجُّ فَـلَا يُزَادُ فِيْهِمْ أَحَدٌ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَحَدٌ۔ترجمہ: فرمایا: یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔ اور زندوں کا نام مردوں میں بدل دیا جاتا ہے اور حج کرنے والوں کا نام لکھ دیا جاتا ہے پھر (سال بھر) اس میں کمی ہوتی ہے نہ کوئی اضافہ ہوتا ہے۔(ابن جرير طبری، جامع البيان)
اللہ تعالیٰ کی طرف اعمال کا اٹھایا جانا:
شب براءت کی میں بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں چنانچہ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں، حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگار عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بارگاہ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔(شعب الایمان/فتح الباری)
مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا:
شب براءت میں اس سال مرنے والے تمام بندوں کی فہرست ملک الموت کی عطا کی جاتی ہے چنانچہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ماہ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔ (مسند ابو یعلی/ فتح الباری)
بے شمار لوگوں کی مغفرت:
شب براءت میں بے شمار گناہگار بندوں کی مغفرت فرما دی جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا گیا:عَنْ عَائِشَةَ قالت فَقَدتُّ رسولَ اللّٰہ ﷺ لَیْلَةً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ہُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ․(ترمذی) ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریمﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپﷺ کی تلاش میں نکلی، تو میں نے دیکھا کہ آپﷺ بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپﷺ نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)
کن لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی:
شب براءت میں سب گناہگاروں کی مغفرت فرما دی جاتی ہے سوائے چند گناہگاروں کے، ان کی مغفرت اس مبارک رات میں بھی نہیں ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللّٰہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ) ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں خاص تجلی فرماتا ہے، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کی۔
پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی:
بندوں کی دعائیں ان پانچ مبارک راتوں میں رد نہیں کی جاتی ہیں ان میں سے ایک رات شب براءت بھی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔عَنْ ابنِ عُمَر قال: خَمْسُ لَیَالٍ لاَ یُرَدُّ فِیْہِنَّ الدُّعَاءُ لَیلَةُ الجُمُعَة واَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعبانَ ولَیْلَتَا الْعِیْدِ․ (شعیب الایمان) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) جمعہ کی رات، ماہ رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔
شب براءت کی عبادت:
شب براءت کی خاص عبادت یہ ہے کہ اس رات میں بعد نماز مغرب چھ رکعتیں دو دو رکعت کر کے پڑھیں، پہلی دو رکعت میں دراز عمر، دوسری دو رکعت میں دفع بلا اور تیسری دو رکعت میں مخلوق کا محتاج نہ ہونے کی نیت کریں، دو دو رکعت پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ سورہ یاسین یا اکیس مرتبہ سورہ اخلاص اور ایک مرتبہ دعائے نصف شعبان پڑھیں۔ بِسم اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلّٰلھُمَّ یَا ذَا الْمَنِّ وّلَایُمَنُّ عَلَیْہِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ ؕ یَا ذَا الطَّوْلِ وَالاَنْعَامِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَھْرُاللَّاجِیْنَ ؕ وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ وَاَمَانُ الْخَائِفِیْنَ ؕاَللّٰھُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِیْ عِنْدَكَ فِیْ اُمِّ الْكِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًااَوْمَطْرُوْدًااَوْ مُقْتَرًّاعَلَیَّ فِی الّرِزْقِ فَامْحُ اَللّٰھُمَّ بِفَضْلِكَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِی وَطَرْدِیْ وَقْتِتَارِ رِزْقِیْ ؕ وَاَثْبِتْنِیْ عِنْدَكَ فِی اُمِّ الْكِتٰبِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا مُوَفَّقًالِلْخَیْرَاتِ ؕ فَاِنَّكَ قُلْتَ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ فِیْ كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِ ؕ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّكَ الْمُرْسَلِ یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ(39)اِلٰھِی بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِی لَیْلَۃِالنِّصْفِ مِنْ شَھْرِ شَعْبَانَ الْمُكَرَّمِ الَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْھَا كُلُّ اَمْرٍحَكِیْمٍ وَیُبْرَمُطاَنْ تُكْشَفُ عَنَّامِنَ الْبَلَآءِ وَالْبَلَوَ آءِ مَا نَعْلَمْ طوَاَنْتَ بِہ اَعْلَمُ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَكْرَامُ ؕ وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ وَ اَصْحَابِہ وَسَلَّمْ ؕ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ شب برأت کی برکتوں سے ہم سب مسلمانوں مالا مال فرمائے اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp