سیرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Biography of Ghous Azam

آٹھویں قسط باقی ہے

علامہ سراج تاباؔنی ـ کلکتہ
آپ کی چند مشہور کرامتیں:
(۱) پیدا ہوتے ہی رمضان شریف کے روزے رکھنا.( بہجۃ الاسرار ص ٨٩ ، طبقات کبری ج ١ ص ١٢٦ ، قلائدالجواہر ص ٣)
(۲) بچپن میں گائے سے کلام کرنا. ( قلائد الجواہر فی مناقب عبدالقادر ٨٩)
(۳) جیلان سے عرفات کے حاجیوں کو ملاحظہ کرنا.( قلائد الجواہر فی مناقب عبدالقادر ٨٩)
(۴) فرشتوں کا مکتب تک ساتھ جانا اور آپ کی ولایت کا اعلان کرنا. ( بہجۃ الاسرار ص ٤۸)
(۵) ڈاکوؤں کا اسلام قبول کرنا. ( بہجۃ الاسرار ص ٤۸)
(۶) نگاہِ کرم سے چور کو قُطب کے درجے پر فائز کر دینا. ( سیرت غوث الثقلین ص ١٣٠)
(۷) عَصا کو چراغ کی طرح روشن کر دینا.( بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ الخ ص ١٥٠)
(۸) اندھوں کو بینائی عطا کرنا. ( بہجۃ الاسرار ص ١٢٣)
(۹) بیماروں کو شفا یاب کر دینا. ( بہجۃ الاسرار ص ١٢٤)
(۱۰) مُردوں کو زندہ کر دینا. ( بہجۃ الاسرار ص ١٢٤)
(۱۱) لاغر اونٹنی کو تیز رفتار بنا دینا. ( بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب ص ١٥٣)
(۱۲) سانپ سے گفتکو کرنا. ( بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب ص ١٦٨)
(۱۳) جِنوں کا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں توبہ کرنا. ( بہجۃ الاسرار ، ذکر اخبار المشایخ بالکشف عن ہیۃ الحال … ص ٢٥)
(۱۴) روشن ضمیری ، یعنی اللہ کی عطا سے دلوں کے حال جان لینا. ( بہجۃ الاسرار ص ٢١١ قلائد الجواہر، ص ٥٧)
(۱۵) دور دراز مُریدوں کی مدد فرمانا. ( بہجۃ الاسرار ، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم ص ١٩٧)
(۱۶) مصائب و آلام کا دور فرما دینا. ( بہجۃ الاسرار ص ١٩٧)
(۱۷) جانوروں کا آپ کی فرمانبرادری کرنا. ( بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب ص ١٥٣)
(۱۸) اللہ کی عطا سے اولادِ نرینہ کی دولت عطا کرنا.( تفریح الخاطر ، ص ١٨)
(۱۹) بیداری میں حضور سیدِ عالم جانِ رحمت ﷺ کے دیدار کا شرف ملنا. ( بہجۃ الاسرار ذکر فصول من کلامہ مرصعا من عجائب ص ٥٨)
(۲۰) تمام اولیاء کرام کا آپ کا قدم اپنی گردنوں پر ہونے کا اقرار کرنا. ( اخبار الاخیار/ شمائم امدادیہ/ سفینہ اولیأ/ قلائدالجواہر/ نزہۃ الخاطرالفاطر/ فتاویٰ افریقہ)
(۲۱) ایک ہی وقت میں کئی جگہ پر ظاہر ہو جانا.( برکاتِ قادریت ص ٤٩)
(۲۲) اللہ کے حکم سے بارہ سالہ ڈوبی ہوئی بارات کو زندہ کر دینا. وغیرہ ( سلطان الاذکارفی مناقب غوث الابرار)
نوٹ: اعلیٰحضرت امامِ اہلسنت الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان سے اس آخر الذکر واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: “اگرچہ (یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امر خلافِ شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے۔” ( فتاوٰی رضویہ جدید ج ٢٩ ص ٦٢٩)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامتوں کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ پیدائش سے لے کر وصالِ پُر ملال تک آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ سراپا کرامت تھے۔ بلکہ بعد از وصال بھی آپ کی کرامتیں جاری و ساری ہیں اور اہلِ محبت آج بھی آپ کی کرامتوں سے اور فیض و جُود و کرم سے مُستفیض ہو رہے ہیں۔

کثرتِ کرامات کے ظُہور کی وَجہ:
جس قدر خَوَارِق حضرت سید محی الدّین جیلانی قدّس اللہ تعالیٰ سِرّہٗ سے ظاہر ہوئے ہیں اس قدر خوارق کسی اور سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس معمّا کا راز ظاہر کردیا اور معلوم ہوا کہ آپ کا عُروج اکثر اولیاء سے بلند تر واقع ہوا ہے اور نزول کی جانب میں مقامِ رُوح تک نیچے اُترے ہیں جو عالمِ اسباب سے بلند تر ہے۔( مکتوبات امام ربانی، ص ٩٨ ، مکتوب نمبر ٢١٦)

سَابقہ اُمَّتو ں میں بھی آ پ جیسا کوئی نہیں گزرا:
حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بغداد شریف میں تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ سرورِ کائنات عَلَیہِ اَفضَلُ الصَّلوَاتِ وَالتَّسلِیمَات کی زیارت سے مُشَرَّف ہوا۔ آپ سوار تھے اور آپ کی ایک جانب حضرت مُوسیٰ عَلَیہِ السَّلام تھے ، آپ نے فرمایا: “یَا مُوْسٰی أَ فِی أُمَّتِکَ رَجُلٌ ھٰکَذَا ؟” اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا آپ کی اُمَّت میں بھی اس شان کا کوئی شخص ہے ؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے عرض کیا: “نہیں۔” اور پھر حضور اکرم ﷺ نے مجھے خلعت پہنائی۔( قلائد الجواہر، ص ٢٢)

غوثِ اعظم کے شیخِ طریقت :
سرکار غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ ٤۸۸ھ مطابق ۱۰۹۵ء تقریباً ۱۸ سال کی عمر میں علومِ ظاہری کی تحصیل کے لیے بغداد پہنچے اور نامورانِ فن سے بھرپور استفادہ کیا جن میں ابو الوفا علی بن عقیل حنبلی ، ابو الخطاب محفوظ کلوذانی حنبلی ، ابو غالب محمد بن الحسن باقلانی ، ابوسعید محمد بن عبدالکریم ، ابو زکریا یحییٰ بن علی تبریزی ، عارف بِاللہ حضرت حماد باس اور قاضی ابو سعید مبارک مخزومی قدس سرہم العزیز خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ان میں آخر الذکر شیخ یعنی قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ سے آپ کو غایت درجہ عقیدت تھی اور پھر یہی آپ کے شیخِ طریقت ٹھہرے۔آپ کا اسمِ گرامی مُبارک ، کُنّیت ابو سعید اور ابو یوسف ہے ، آپ کے والدِ گرامی کا نام علی بن حسین مخزومی ہے۔ مخزوم بغداد کے ایک محلہ کا نام ہے اسی وجہ سے آپ مخزومی مشہور ہوئے۔ اپنے زمانے کے سلطانُ الاولیاء اور بُرہانُ الاصفیا تھے۔سرکار اعلیٰ حضرت رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔

بوالفرح کا صدقہ کر غم کو فرح دے حسن و سعد
بوالحسن اور بو سعيد سعد زا کے واسطے

قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدر عبد القادر قدرت نما کے واسطے

بیعت و خرقۂ خلافت :
حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ جب سیّدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ سے بیعت لے چکے تو آپ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا جس سے آپ کو اتنا فیض ملا کہ خود فرماتے ہیں “میرے شیخِ طریقت جو لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے وہ ہر لقمہ میرے سینے کو نورِ معرفت سے بھر دیتا تھا۔” پھر حضرت شیخ قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ نے آپ کو خرقۂ خلافت پہنایا اور فرمایا: “اے عبدالقادر یہ خرقہ حضور سرورِ کونین ﷺ نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا اُن سے حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ کو ملا اور پھر اُن سے دست بدست مجھ تک پہنچا اور اب میں تمہیں دے رہا ہوں۔” یہ خرقہ پہننے کے بعد حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ پر برکات و تجلیات اور بے شمار انوارِ الہٰیہ کا نزول ہوا۔ حضرت مبارک مخزومی فرماتے ہیں:’’عبدالقادرجیلانی نے مجھ سے خرقۂ خلافت پہنا اور میں نے ان سے پہنا ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے برکت حاصل کرے گا۔‘‘ ( قلائد الجواہر ص ٤ / ۵)

آغازِ رشد و ہدایات :
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب بغداد میں شریعت و طریقت کے علوم و معارف حاصل کر چکے تو مخلوقِ خدا کو فیضیاب کرنے کا وقت آگیا۔ ماہ شوال ۵۲۱ھ مطابق ۱۱۲۷ء کو محلہ حلبہ براینہ میں آپ نے وعظ کا آغاز فرمایا۔ ( بہجۃ الاسرار ص ۹۰) بغداد کے محلہ باب الزج میں حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ عنہ کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد کردیا۔ آپ کے قدومِ میمنت لزوم سے طلبا کا اس قدر ازدحام ہوا کہ قدیم عمارت ناکافی ہوگئی تو بغداد کے علم دوست حضرات نے اسے وسعت دے کر شاندار نئی عمارت تیار کرائی۔ ۵۲۸ھ مطابق ۱۱۳۴ء میں یہ مدرسہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے مدرسۂ قادریہ مشہور ہوا۔ ( قلائد الجواہر ص ۵)

فتاویٰ مبارکہ :
شیخ محقق شاہ عبد الحق مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اخبار الاخیار میں نقل کیا ہے: “حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ سیدی عبد الوہاب علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ نے ؁ ٥٢٨ھ تا ٥٦١ھ تینتیس ٣٣ سال درس و تدریس اور فتاویٰ نویسی کے فرائض سر انجام دیئے۔” ( اخبار الاخیار ص ١٥ ، قلائد الجواہر ص ١٨)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp