خوابوں کی دنیا

حافظ مجاہد عظیم آبادی
ہماری زندگی، خاص کر آج کے جدید دور میں، خوابوں اور حقیقت کے درمیان ایک مسلسل جدوجہد میں گزرتی ہے۔ جیسے ہی معاشرتی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے، اسی رفتار سے ہماری خوابوں کی دنیا مزید پیچیدہ اور گہرائی میں جانے لگتی ہے۔ ایک طرف ہمارے خواب ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں، تو دوسری طرف حقیقت کی تلخیاں ہیں جو ہمیں قدم قدم پر روکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا توازن ہے جسے سمجھنا اور برقرار رکھنا آسان نہیں۔ ہمارے معاشرتی مسائل کا ایک اہم پہلو بھی یہی ہے کہ ہم خوابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے حقیقی زندگی کو بھول جاتے ہیں۔
تعلیم کا دوہرا معیار: خواب یا حقیقت؟
تعلیم کو اگرچہ ہماری زندگی کا بنیاد تصور کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کل یہ ہماری قوم میں ”فیشن” سے کچھ کم نہیں۔ والدین بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ”تعلیم یافتہ” بنا رہے ہیں، مگر درحقیقت یہ تعلیم نہیں بلکہ اپنی حسرتوں اور خواہشات کا عکس ہوتا ہے جو وہ بچوں پر تھوپ دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر گھر میں بچوں کے خواب والدین کے خوابوں کا عکس ہیں۔ مثلاً ہر والدین چاہتا ہے کہ اس کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے، بھلے وہ بچہ خود کہانیاں لکھنے کا شوق رکھتا ہو یا کسی دوسری فیلڈ میں دلچسپی رکھتا ہو، لیکن یہاں سوال یہ نہیں کہ بچے کی دلچسپی کیا ہے؛ یہاں اصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر یا انجینئر بن کر ہی ”بچوں کے خواب” پورے کیے جاتے ہیں۔
ہمیں یہ منظر یوں نظر آتا ہے کہ جیسے تعلیم کا مقصد صرف ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہی ہے، گویا ہر بچہ اپنی پیدائش سے ہی سفید کوٹ پہننے اور اسٹیتھو سکوپ تھامنے کے لئے آیا ہو۔ اگر کسی کا شوق کہانیاں لکھنا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بے کار ہے۔ اور اگر کوئی آرٹس کا طالب علم ہے، تو اس سے تو گویا گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ والدین کی خواہشات اتنی شدید ہوتی ہیں کہ اگر کسی بچے کی طرف سے کچھ مزاحمت ہو بھی جائے تو والدین کی نظریں ایسی ہوتی ہیں جیسے کوئی بغاوت ہو گئی ہو، جیسے بچہ ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا تو یہ اُس کا قصور ہے، اور یہ قصور ایسا کہ پورے خاندان کی عزت داو? پر لگ گئی۔
تعلیمی ادارے بھی اس دوہرے معیار کو اور بڑھاوا دیتے ہیں۔ ”اچھی تعلیم اچھا مستقبل ہے” جیسے جملے لکھے تو جاتے ہیں، لیکن اس کے پیچھے ایک زبردست کاروبار ہوتا ہے۔ ہر ادارہ اپنے طلبہ کو یہ خواب بیچتا ہے کہ وہاں سے تعلیم حاصل کرکے ہی بچے کا مستقبل ”درخشاں” ہوگا، لیکن یہ روشن مستقبل اکثر اندھیروں میں ہی رہ جاتا ہے۔ اکثر تعلیمی ادارے ایسے ہیں کہ وہاں بچے کو کیا سکھایا جا رہا ہے، یہ معلوم نہیں ہوتا، بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ ایک نئی جدوجہد شروع کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک بہترین انسان بننے کے لئے صرف تعلیم کافی نہیں؛ اس کے ساتھ شعور، تربیت اور خود آگاہی بھی ضروری ہے۔ لیکن ہمارے معاشرتی ڈھانچے نے تعلیم کو ایک فخریہ چیز بنا دیا ہے، اور اس فخر کی خاطر بچے اپنے خوابوں کو قربان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچے اپنے شوق، دلچسپیاں اور خواب ایک طرف رکھ کر خود کو اسی دوڑ میں شامل کر لیتے ہیں جہاں سب بھاگ رہے ہیں، مگر کسی کو معلوم نہیں کہ انجام کہاں ہوگا۔
تو تعلیم اب صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں رہا؛ بلکہ یہ ایک ایسی دوڑ ہے جس میں ہر ایک کو زبردستی شامل کر دیا گیا ہے، اور اگر کسی نے یہ دوڑ چھوڑنے کی بات کی تو اس کے لئے ”ناکامی” اور ”شرمندگی” جیسے الفاظ کا انبار لگا دیا جاتا ہے۔ تعلیم ہماری زندگی کا حصہ ہے، مگر کیا ہی بات ہے کہ اس کے اصل مقصد کو بھول کر ہم اسے اپنی سماجی شان اور فخر کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
روزگار کی جدوجہد اور خوابوں کی حقیقت
روزگار کا حصول ایک خواب ہے جس کے پیچھے ہمارے نوجوان اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم کا آغاز ہی اس امید پر ہوتا ہے کہ ایک دن وہ کسی بڑی کمپنی کے ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھ کر آرام دہ زندگی گزاریں گے، لیکن جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے ان کے خوابوں کا قالین کھینچ لیا ہو۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ تعلیم کے بعد ایک پُرکشش ملازمت اُن کا حق ہے، اور والدین اور اساتذہ ہر وقت یہ یقین دلاتے ہیں کہ ڈگری حاصل کرتے ہی نوکری ان کی منتظر ہوگی۔ لیکن جب یہ نوجوان حقیقی دنیا میں نکلتے ہیں تو یہ خواب محض ایک دھوکہ ثابت ہوتے ہیں۔
ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان، جس نے اپنی زندگی کے کئی سال تعلیم کے حصول میں گزارے ہوں، نوکری کے لئے دربدر ہوتا ہے، اور اکثر اوقات وہ اس نوکری پر پہنچتا ہے جس کا اس نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی ڈگری اور قابلیت محض کاغذ کے ٹکڑے بن کر رہ گئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے بے شمار نوجوان موجود ہیں جو اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کے بجائے ایسے کاموں میں پھنس جاتے ہیں جو ان کے ہنر اور تعلیم سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہ منظر نامہ ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی سوچ پر ایک سوالیہ نشان بناتا ہے کہ آخر ہم نوجوانوں کو یہ جھوٹے خواب کیوں بیچتے ہیں؟
ہمارے معاشرتی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے روزگار کو صرف ایک ذریعہ آمدنی سمجھ لیا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نوکری صرف پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار، خود کو بہتر بنانے اور ترقی کا ایک راستہ بھی ہے۔ لیکن جب ہمارے معاشرتی دباؤ اور امیدوں کا بوجھ نوجوانوں پر ڈال دیا جاتا ہے، تو ان کی صلاحیتیں اور ان کے خواب دب جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کام کرتے ہیں جس میں ان کا دل نہیں لگتا، اور نتیجتاً وہ زندگی بھر مایوسی اور ناامیدی کا شکار رہتے ہیں۔
ہمارے یہاں نوکری کو عزت کا بھی معیار سمجھا جاتا ہے۔ ”اچھا کام” اس نوکری کو کہا جاتا ہے جس سے پیسے زیادہ ملیں، چاہے اس میں بندہ اپنی ذات سے دور کیوں نہ ہو۔ معاشرتی دباؤ کے باعث نوجوان اپنے خوابوں کی دنیا سے نکل کر ایک ایسی حقیقت میں آ جاتے ہیں جہاں ان کی قابلیت کی بجائے ان کے تعلقات یا سفارشات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جس کے پاس سفارش ہو، اس کے لئے دروازے کھلے ہیں، اور جس کے پاس صرف قابلیت ہے، وہ اکثر باہر ہی کھڑا رہ جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے نوجوانوں کو ”روزگار” کی ایسی دنیا میں بھیج دیا ہے جس میں ان کا دل اور دماغ ایک ساتھ کام نہیں کرتے۔ وہ اپنے خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور ہر قدم پر مایوسی کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دوڑ بن گئی ہے جس میں سب کو بھاگنا ہے، چاہے ان کے پیروں میں زنجیریں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ روزگار کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا صرف پیسے کمانا ہی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے؟ یا ہمیں ایسی نوکری کی تلاش کرنی چاہئے جس میں ہمارے خوابوں اور صلاحیتوں کو بھی جگہ ملے؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نوجوانوں کو ایک ایسے دائرے میں قید کر دیا ہے جس سے باہر نکلنا ان کے لئے ناممکن سا بن گیا ہے۔ روزگار کا حصول ضروری ہے، مگر ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ روزگار زندگی کا اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو سکھانا ہوگا کہ اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہی اصل کامیابی ہے، نہ کہ صرف پیسے کمانا۔
لوگ کیا کہیں گے” کا فتنہ اور رشتہ داروں کی رائے
ہمارے معاشرتی مسائل میں سب سے گہرا اثر رکھنے والا ایک مسئلہ ”لوگ کیا کہیں گے” کی فکر ہے۔ یہ ایک ایسا خوف ہے جو ہمیں اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے سے پہلے ہی روک دیتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی، چاہے وہ اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو، اس جملے کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔ زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے فیصلے سے لے کر بڑے خوابوں کی تعمیل تک، ہم اسی سوچ میں پھنسے رہتے ہیں کہ ”لوگ کیا کہیں گے؟” اگر کوئی نوجوان کسی غیر روایتی شعبے میں اپنی قسمت آزمائی کرنا چاہے، یا زندگی کو اپنی پسند کے مطابق گزارنا چاہے، تو اکثر اس کے قریبی لوگ اسے یہ کہہ کر روک دیتے ہیں کہ ”ایسا نہ کرو، لوگ کیا کہیں گے؟”
یہ رویہ ہماری خودمختاری اور خود اعتمادی کو گہرائی سے متاثر کرتا ہے۔ ہماری زندگی کا ہر فیصلہ اس خوف کے گرد گھومتا ہے کہ معاشرہ ہمیں کیسے دیکھے گا۔ ہم اپنی حقیقی خواہشات اور دلچسپیوں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگی کو لوگوں کی نظر میں ایک ”اچھے انسان” کے طور پر ثابت کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ ہماری معاشرتی روایات ہمیں دوسروں کی رائے کی قید میں باندھ دیتی ہیں، جہاں اپنے خوابوں کی تکمیل تو درکنار، انہیں سوچنا بھی گناہ کے برابر ہو جاتا ہے۔
مثلاً، اگر کسی نوجوان کو کرکٹ کا شوق ہو، تو اس کے گھر والے اسے یہی کہہ کر روک دیتے ہیں کہ ”یہ کیسا پیشہ ہے؟ ڈاکٹر بنو، انجینئر بنو، کچھ عزت کا کام کرو، تاکہ خاندان کا نام روشن ہو۔” یہ سوچ نوجوان کے خوابوں کو توڑ دیتی ہے اور وہ اپنی ذات کے اظہار سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کا مقصد صرف خاندان کی عزت بڑھانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے اپنی زندگی کی تعمیر اور اپنی خوشیوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی آزادی ملنی چاہئے۔ مگر یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم ”لوگ کیا کہیں گے” کی قید سے آزاد ہوں۔
یہ رویہ نہ صرف نوجوانوں کے خوابوں کو محدود کرتا ہے بلکہ ان کی خودی کو بھی کچل دیتا ہے۔ ہماری معاشرتی روایات میں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ ہم لوگوں کی نظر میں ”اچھے” بنیں، مگر یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ”خود کے لئے اچھے” کیسے بنیں۔ ایک خوبصورت زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی حقیقت اور خوابوں کے مطابق زندگی کو سنواریں۔ لیکن ”لوگ کیا کہیں گے” کا یہ فتنہ ہمیں ہماری حقیقت سے دور لے جاتا ہے۔
یہی سوچ ہے جو ہمیں ظاہری زندگی اور اندرونی سکون کے درمیان دراڑ ڈال دیتی ہے۔ ہم معاشرے کی تسکین کے لئے اپنی ذات کا سودا کر لیتے ہیں۔ یہ فتنہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اگر کوئی لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے یا کوئی نوجوان اپنے خوابوں کے شعبے میں کام کرنا چاہے، تو اسے لوگوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں کی قربانی دے کر دوسروں کی توقعات کو پورا کرتے ہیں، اور وقت کے ساتھ ہماری زندگی بیزار کن بن جاتی ہے۔
اگر ہم واقعی اپنی زندگی کو ایک بہتر رخ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ”لوگ کیا کہیں گے” کی قید سے آزاد ہونا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری زندگی ہماری اپنی ہے، اور ہمیں اپنی ذات کے مطابق فیصلے کرنے کا حق ہے۔ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ہمیں اس خوف سے نکلنا ہوگا اور خود پر اعتماد کرنا ہوگا۔
میں تویہی کہتا ہوں کہ زندگی ایک دفعہ ملتی ہے، اور اسے اپنی خوشیوں اور خوابوں کے مطابق گزارنا ہی اصل کامیابی ہے۔ لوگوں کی رائے کو اپنی زندگی کی بنیاد بنانے کے بجائے اپنے دل کی آواز کو سنیے اور اس پر عمل کیجئے۔ معاشرے کی تسکین کے لئے اپنی زندگی کو زحمت نہ بنائیں بلکہ اسے اپنی مرضی اور خوابوں کے مطابق گزاریں۔ کیونکہ آخر میں اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کیسے گزاری، نہ کہ لوگوں نے ہمارے بارے میں کیا کہا۔
سوشل میڈیا: خوابوں کی جعلی دنیا
آج کے دور میں سوشل میڈیا نے ہر شخص کو خوابوں کی ایسی جعلی دنیا میں پھنسا دیا ہے کہ ہمیں حقیقت اور فریب میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہر کوئی اپنی زندگی کو شاندار، خوشیوں سے بھرپور، اور مسائل سے پاک دکھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ لوگ اپنے حقیقی مسائل اور زندگی کی تلخیاں چھپا کر ایک مصنوعی دنیا تخلیق کرتے ہیں جہاں ہر دن ”پرفیکٹ” اور ہر لمحہ ”خوبصورت” نظر آتا ہے۔ بس یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ کیسے اپنی زندگی کو خوبصورت اور ”انسٹاگرام لائق” بنانا ہے۔
آپ کو ہر جگہ پر رنگ برنگے لباس، شاندار ڈیزائنرز کی مہنگی چیزیں، خوبصورت مقامات کی تصاویر، اور عالی شان کھانے نظر آئیں گے۔ یہ سب دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لوگ کسی جنت میں رہ رہے ہیں جہاں ان کے پاس وقت، پیسہ، اور زندگی کی ہر نعمت وافر مقدار میں ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ سب ایک پردہ ہوتا ہے جو سوشل میڈیا پر ڈال کر دکھایا جاتا ہے۔ پیچھے کے مناظر میں حقیقی زندگی کے مسائل، چہرے پر جھریاں، آنکھوں میں اداسی، اور پیسوں کے دباؤ میں دبی زندگی چھپی ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنی زندگی کو اس طرح پیش کرتا ہے جیسے وہ دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان ہو۔ اس نمائش کے پیچھے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ زندگی، یہ چمک دمک محض ایک دکھاوا ہے۔ یہ لوگ اس جعلی دنیا میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی اصل زندگی کی خوبصورتی نظر آنا بند ہو جاتی ہے۔ ہر وقت دوسروں کی زندگی کی چمک دمک دیکھ کر ہماری اپنی زندگی بے رنگ اور معمولی سی لگنے لگتی ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس معیار پر پرکھنے لگتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتا۔
ہمارا معاشرہ بھی اس سوچ کا عادی ہو چکا ہے کہ جو کچھ سوشل میڈیا پر دکھائی دیتا ہے، وہی حقیقت ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کی زندگی واقعی اتنی خوشحال اور خوبصورت ہے۔ اگر کوئی اپنی تصویر پوسٹ نہ کرے تو سمجھا جاتا ہے کہ شاید اس کے پاس خوشیوں کا فقدان ہے، یا وہ ”ٹرینڈ” سے پیچھے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی زندگی کو سوشل میڈیا پر ”پرفیکٹ” دکھاتے ہیں، اکثر ان کی اپنی حقیقی زندگی بکھری ہوتی ہے۔
مثلاً، ایک دوست کی خوبصورت تصویر، مہنگے ریستوران میں کھانے کی ویڈیوز، نئے کپڑوں کی تصاویر، اور تعطیلات کے سفر کی جھلکیاں دیکھ کر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے پیچھے کتنا مصنوعی پن چھپا ہوتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کو ان خوابوں کی جعلی دنیا سے موازنہ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ہماری خوشیوں کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ ہم اس مقابلے میں پڑ جاتے ہیں کہ ہماری زندگی بھی ویسی ہی نظر آئے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو بھی سوشل میڈیا کی چمک دمک کے مطابق ڈھالنے لگتے ہیں۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ جب تک ہم اس معیار پر پورا نہیں اتریں گے، تب تک ہماری زندگی کامیاب نہیں ہے۔ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ زندگی کی خوشیاں حقیقی دنیا میں نہیں بلکہ سوشلمیڈیا کی دنیا میں ہیں، جہاں ہر چیز خوبصورت اور بہترین دکھائی جاتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ چمک دمک واقعی خوشی کی ضمانت ہے؟ کیا یہ نمائش ہماری زندگی کو حقیقت میں بہتر بناتی ہے؟ جواب شاید ”نہیں” میں ہو، کیونکہ اصل خوشی حقیقی تعلقات، حقیقی لمحے، اور اپنے خوابوں کو سچ کرنے میں ہے، نہ کہ سوشل میڈیا کی فرضی دنیا میں۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی زندگی محض ایک تصویر ہوتی ہے جس میں حقیقی خوشیوں اور زندگی کی حقیقتوں کا عکس نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں خواب بکتے ہیں، لیکن حقیقت کہیں گم ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ زندگی کو اس جعلی دنیا کی روشنی میں نہ دیکھیں بلکہ اپنی اصل دنیا میں حقیقی خوشیوں کو تلاش کریں۔
اصل زندگی کی خوبصورتی اس بات میں ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو اپنی مرضی سے پورا کریں، بغیر اس خوف کے کہ ”لوگ کیا کہیں گے” یا ”سوشل میڈیا پر کیا دکھے گا۔” کیونکہ آخر میں اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہماری زندگی کیسی گزری، نہ کہ دوسروں نے ہمیں کیسا دیکھا۔
خواب اور حقیقت کا توازن کیسے قائم کریں؟
خواب دیکھنا انسان کی فطرت میں شامل ہے، یہ وہ شمع ہے جو ہمیں تاریکی میں روشنی دیتی ہے اور ہماری زندگی کو ایک مقصد فراہم کرتی ہے۔ خواب وہ خوشنما خیالات ہیں جو ہمیں مشکل وقت میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ خواب دیکھنے کا مطلب حقیقت سے منہ موڑنا نہیں ہوتا۔ خواب اگرچہ دلکش ہوتے ہیں، مگر ان کا حصول صرف خوبصورت خیالات سے نہیں بلکہ کڑی محنت، مستقل مزاجی اور حقیقت کے ادراک سے ہوتا ہے۔
زندگی میں خوابوں اور حقیقت کے درمیان توازن قائم کرنا اصل فن ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کو صرف خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے گزار دیں تو یہ ممکن ہے کہ حقیقت کی سختیاں ہمیں جلد مایوس کر دیں۔ اسی طرح اگر ہم حقیقت کی تلخیوں میں ہی گھرے رہیں اور خوابوں کو پسِ پشت ڈال دیں تو زندگی بے مقصد اور بوجھل محسوس ہونے لگتی ہے۔ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ہم خواب بھی دیکھیں اور ان خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے قدم بھی بڑھائیں۔
جب ہم خواب دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں ترقی اور کامیابی کی طرف لے جانے کا ایک راستہ دکھاتے ہیں۔ یہ کامیابی صرف خوابوں کے تعاقب سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقت کی کسوٹی پر اپنے خوابوں کو پرکھیں اور ان کی تکمیل کے لئے عملی قدم اٹھائیں۔ ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ ہر خواب پورا ہونے کے قابل نہیں ہوتا، اور کچھ خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف ہمیں خوش رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہمیں خواب اور حقیقت کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوتا ہے اور ان دونوں میں توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔
زندگی میں توازن کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو حقیقت کے سانچے میں ڈھالیں، نہ کہ حقیقت کو خوابوں کا تابع بنائیں۔ جب ہم حقیقت کے تقاضوں کے مطابق خوابوں کو سنوارتے ہیں، تو ہمیں زندگی میں سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ کامیابی کا مفہوم یہی نہیں کہ ہم اپنے تمام خوابوں کو حقیقت میں بدل دیں، بلکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ ہم حقیقت کی روشنی میں اپنے خوابوں کو پروان چڑھائیں۔ اگر ہم اس حقیقت کو قبول کرلیں کہ کچھ خواب محض خواب ہی رہیں گے اور کچھ کو حقیقت کا رنگ ملے گا، تو زندگی میں ہمارے لئے سکون کے راستے کھلنے لگتے ہیں۔
توازن برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو حقیقی امکانات کے مطابق بنائیں۔ اگر ہم خواب دیکھیں کہ ایک دن ہم پوری دنیا کا سفر کریں گے، تو ہمیں اس کے لئے مالی وسائل، وقت اور دیگر وسائل کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ اگر ہم حقیقت کو نظرانداز کر دیں اور صرف خوابوں کی دنیا میں کھو جائیں تو ممکن ہے کہ ناکامی اور مایوسی ہمارا مقدر بن جائے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خواب اور حقیقت کے درمیان توازن قائم کرنا ہمیں زندگی میں خوشی، سکون اور کامیابی فراہم کرتا ہے۔ یہ توازن ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کو کس طرح گزارنا ہے، اپنے خوابوں کی تعاقب میں بھی اور حقیقت کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہوئے۔ کیونکہ زندگی کا حسن اسی میں ہے کہ ہم خواب دیکھیں، ان کا پیچھا کریں، لیکن حقیقت کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔ یہی وہ راہ ہے جو ہمیں حقیقی خوشی اور کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔
نتیجہ: حقیقی خوشی اور سکون کی تلاش
ہمارے معاشرتی مسائل کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو خوابوں کے پیچھے بھاگنے میں گزار دیا ہے، گویا ہم زندگی کے حقیقی مقصد کو بھول چکے ہیں۔ ہر شخص اپنی زندگی کو خوابوں کی رنگین دنیا میں قید کیے ہوئے ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خوابوں کا تعاقب اپنی جگہ، مگر حقیقی خوشی اور سکون ہمیں اپنے اندر، اپنی حقیقت میں ملتا ہے۔ خوشی کا یہ مفہوم سمجھنا کہ یہ کسی بیرونی عنصر میں ہے، اکثر ہمیں اپنی زندگی کے سکون اور اطمینان سے دور لے جاتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ خواب دیکھنا اور ان کا پیچھا کرنا کوئی غلط بات نہیں، بلکہ یہ ہمارے زندگی کو ایک مقصد اور جستجو فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم خوابوں اور حقیقت کے درمیان توازن قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو ہمارے خواب بوجھ بن جاتے ہیں، اور ان کی تعاقب کی مشقت میں ہم اپنی خوشیوں اور سکون کو قربان کر دیتے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ زندگی میں توازن، اعتدال اور حقیقت پسندی ہمیں اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں ہمیں حقیقی سکون اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
اگر ہم اپنے خوابوں کو حقیقت کے مطابق ڈھالیں، تو یہ ہمیں مضبوط، مطمئن اور خوشی فراہم کر سکتے ہیں۔ مگر جب ہم غیر حقیقت پسندانہ خوابوں کی دنیا میں کھو جاتے ہیں اور اپنی زندگی کو ان کی تکمیل کے لئے بے مقصد بھاگنے میں لگا دیتے ہیں، تو ہمیں ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس کے برعکس، جب ہم حقیقت کے تقاضوں کو قبول کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال کر جیتے ہیں، تب ہمیں اپنی زندگی میں حقیقی خوشی اور سکون ملتا ہے۔
اللہ ہمیں یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ اصل خوشی اور کامیابی اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے میں نہیں، بلکہ حقیقت میں اپنے خوابوں کو اپنانے میں ہے۔ جب ہم اپنی ذات کے اندر خوشی اور سکون کی تلاش کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے فیصلے اپنی حقیقت کی بنیاد پر کرتے ہیں، تب ہمیں زندگی کی حقیقی مسرت اور اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یاد رکھیں، خوابوں کا حسن بھی اسی میں ہے کہ وہ حقیقت کے سانچے میں ڈھل جائیں، اور حقیقت کا حسن بھی اسی میں ہے کہ وہ ہمیں سکون اور خوشی فراہم کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp