یوم شہادت 21 رمضان المبارک 40ھ
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
حضور اکرمﷺ کے تمام صحابہ کرام عظمت ورفعت والے ہیں، مگر ان میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک الگ ہی فضیلت واہمیت اور مقام حاصل ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کی فہرست میں بھی شامل ہیں جن کو نبی کریمﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری دے دی تھی۔ اور خلفاء راشدین کی فہرست میں چوتھا مقام حاصل ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی بے شمار کمال و خوبیوں کی جامع ہے۔
نام و نسب:
آپ رضی اللہ عنہ کا نام حضرت علی، کنیت ابو الحسن، ابو تراب، القاب امیر المؤمنین، امام المتقین، صاحب اللواء، اسداللہ (شیرخدا)، کرار، مرتضیٰ، اور مولا مشکل کشا، والد کا نام ابو طالب، والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد۔ آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے یہ ہے:حضرت علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ۔والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد المطلب۔
سلسلہ نسب میں حضورﷺ سے اتصال:
آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب دوسری پشت میں حضرت عبد المطلب پر جا کر حضورﷺ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے۔
ولادت باسعادت:
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 13 رجب المرجب، بروز جمعہ عام الفیل کے 30 سال بعد، اعلان نبوت 10 سال قبل بمطابق 17 مارچ 599ء بمقام بیت اللہ مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔
قبول اسلام:
آپ رضی اللہ عنہ نوعمر لوگوں میں سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے۔
قبول اسلام کا سبب:
آپ کے اسلام قبول کرنے کی تفصیل محمد بن اسحاق نے اس طرح بیان کی ہے۔کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ اور حضرت خدیجۃ الكبری رضی اللہ عنہا کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔جب یہ لوگ نماز سے فارغ ہوئے،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ سےعرض کیا،آپ یہ کیا کررہےتھے،حضور نے فرمایا، یہ اللہ کا ایسا دین ہے جس کو اس نے اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ اور اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے رسول کو بھیجا ہے۔
لہذا میں تم کو بھی ایسے معبود کی طرف بلاتا ہوں،جو اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔اور میں تم کو اس کی عبادت کا حکم دیتا ہوں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جب تک میں اپنے نے باپ ابو طالب سے نہ پوچھ لوں، اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
چونکہ اس وقت حضورﷺ کو راز فاش ہونا منظور نہ تھا، اسی لئے آپ نےفرمایا، اےعلی اگر تم اسلام نہیں لاتے ہو،تو ابھی اس معاملہ کو پوشیدہ رکھو،کسی پر ظاہر نہ کرنا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ اس وقت رات میں ایمان نہیں لائے۔مگر اللہ نے آپ کے دل میں ایمان کو راسخ کردیا تھا۔دوسرے روز صبح ہوتے ہی حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی پیش کی ہوئی ساری باتوں کو قبول کرلیا اور اسلام لے آئے۔
نکاح مبارک:
آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے ساتھ ماہ صفر، رجب یا رمضان 2ھ میں ہوا۔(اتحاف السائل للمناوی)
ازواج و اولاد:
آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ ان کے بعد پھر اور نکاح کیے۔ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے دو صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں آپ کی تھیں۔حضرت حسن حضرت حسین اور زینب، ام کلثوم، اور دوسری ازواج سے حسب ذیل اولاد تھیں۔ حضرت عباس،حضرت جعفر، حضرت عبد اللہ،عثمان،عبید اللہ،ابوبکر،محمد الاصغر، یحییٰ، عمر،رقیہ،محمد الاوسط،محمد الاکبر وغیرہ۔
حلیہ مبارکہ:
آپ رضی اللہ عنہ کا قد مبارک پست تھا۔جسم اطہر فربہ تھا۔ پیٹ بڑا تھا اور ڈاڑھی بہت بڑی کہ پورا سینہ اسکے نیچے بند تھا، اور بالکل سفید رنگ گندمی تھا۔
مقام علم و فضل:
حضورﷺ کی جوہر شناس نگاہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس خداداد قابلیت و استعداد کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اور آپﷺ کی زبان فیض ترجمان سے حضرت علی کو باب مدینۃ العلم کی سند مل چکی تھی چنانچہ حضرت علی کے مقام علم و فضل کے متعلق حضورﷺ فرماتے ہیں کہ: میں جملہ علم و حکمت کا شہر ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس علم و حکمت کے شہر کا مرکزی دروازہ ہیں۔(جامع ترمذی،ابن عساکر،مشکوٰۃ المصابیح)
صحابہ کرام میں علم و حکمت، فہم و فراست اور فقاہت و ثقاہت کے اعتبار سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا مقام و مرتبہ بہت اونچا اور بلند تر ہے۔ حضرت علی نے حضورﷺ سے تقریباً 586 احادیث مقدسہ روایت کی ہیں۔ آپ کے علمی نکات، فتاویٰ اور بہترین فیصلوں کا انمول مجموعہ! اسلامی علوم کے خزانوں کا قیمتی سرمایہ ہے۔
فضائل و مناقب:
حضورﷺ نے فرمایا: علی سے منافق محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا۔(ترمذی)
حضورﷺ نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔(ترمذی)
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے علی سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی، اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی۔(تاریخ الخلفاء)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب حضرت علی کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کا جاننے والا کوئی نہیں ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں علم، فرائض اور مقدمات کے فیصلے کرنے میں حضرت علی سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں تھا۔
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے صحابہ میں سوائے حضرت علی کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو۔(تاریخ الخلفاء)
آپ رضی اللہ عنہ کو بوقت ہجرت بستر نبیﷺ پر لیٹنے کا شرف ملا، اور نبی کریمﷺ کی وفات جب ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ کو ہی غسل دینے کا شرف ملا۔
مروی احادیث کی تعداد:
آپ رضی اللہ عنہ سے 536 احادیث مبارکہ مروی ہیں جو کتب احادیث میں اپنی خوشبوئیں بکھیر رہی ہیں۔
مدت خلافت راشدہ:
آپ رضی اللہ عنہ 21 ذی الحجہ بروز پیر مسجد نبویﷺ میں مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے، آپ کی مدت خلافت 4 سال 8 ماہ 9 دن تھی۔
مولا علی کا پیغام،محبین کے نام:
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہﷺ کےبعد سب سے بہتر و افضل ابوبکر اور عمر ہیں۔ پھر فرمایا: لایجتمع حبی وبغض ابی بکر وعمر فی قلب مؤمن۔یعنی میری محبت اور شیخین کریمین ابوبکر وعمر کا بغض کسی مؤمن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتا۔(المعجم الاوسط لطبرانی)
شہادت و مدفن:
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت 21 رمضان المبارک 40ھ بروز اتوار بمطابق 27 جنوری 661ء کی شب 4 سال 8 ماہ 9 دن امور خلافت کو انجام دینے کے بعد ہوئی۔ وقت شہادت آپ کی عمر شریف ترسٹھ سال تھی۔