حضور حافظ ملت علمائے کرام اور مشائخ کی نظر میں!

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ،ملاپورم ،کیرالا
تذکرہ مصطفی کا کرتے ہیں سب فدایانِ حافظ ملت
نعت کی شکل میں زباں پر ہے خوب ا حسانِ حافظ ملت
جلالۃ العلم،استاذ العلما حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرآبادی علیہ الرحمۃ والرضوان کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ ایک بلند پایہ عالمِ دین ، بافیص مدرس،خدارسیدہ بزرگ،کامیاب مصلح ومبلغ اور ہزاروں کی تعداد میں علما وفقہا کی جماعت تیار کرنے والے اس مرد قلندر کو دنیائے اہل سنت بہت قریب سے جانتی ہے ۔ آپ کی حیات و خدمات نے پورے عہد کو متاثر کیا۔ آپ کے خوابوں کی حسین تعبیر جامعہ اشرفیہ مباک پور آج پوری دنیا حافظ ملت کا دینی وعلمی اور روحانی فیضان تقسیم کر رہا ہے ۔ مصباحی برادران ملک اور بیرون ملک دین و دانش کی گراں قدر خدمات انجام دے کر فرمانِ حافظ ملت ’’ زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام‘‘ کا عملی نمونہ پیش کررہے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے،آمین۔ تو آئیے ہم حضور حافظ ملت کی ہمہ جہت شخصیت کو اقوالِ ائمہ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’ زندگی میں دو ہی با ذوق پڑھنے والے ملے ایک مولوی سردار احمد( یعنی محدثِ اعظم پاکستان) اور دوسرے حافظ عبد العزیز یعنی حافظِ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز مباکپوری۔ (فیضانِ حافظِ ملت،ص:۲۸، مکتبتہ مدینہ دہلی)۔
مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفی رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ: اورجب حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے وصال کی خبر شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند تک پہنچی تو آپ کا چاند سا چمکتا ہو نورانی چہرہ ماند پڑ گیا اور تیرہ نصیبوں کی تقدیر سنوارنے والی چشم کرم نکلی۔ سرکار بلک بلک کر رو رہے تھے۔ خدمت اقدس میں حاضر سے آنسوؤں کی دھار پھوٹ نے خدام کے دل اس منظر سے پاش پاش ہو رہے تھے۔ کافی دیر آنسوؤں کے موتی لٹانے کے بعد حضرت حالت اضطراب سے عالم سکون میں آئے تو دیر تک حافظ ملت علیہ الرحمہ کی پیاری پیاری باتیں کرتے رہے۔ ان کی جلالت علمی، زہد و تقویٰ اور تقدس و بزرگی کے گن گاتے رہے اور اخیرمیں فرمایا:اس دنیا سے جو لوگ چلے جاتے ہیں، ان کی جگہ خالی رہتی ہے۔ خصوصا مولوی عبدالعزیز علیہ الرحمہ (حافظ ملت) جیسے جلیل القدر عالم، مرد مومن، مجاہد عظیم المرتبت شخصیت اور ولی کی جگہ پر ہونا تو بہت مشکل ہے۔ یہ خلا پر نہیں ہو سکتا۔ (حافظ ملت افکار اور کانامے،ص:۳۵)۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے معائنے میں حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ، حافظ ملت علیہ الرحمہ کے تعلق سے اپنے گراں قدر تاثرات کا یوں اظہار فرماتے ہیں: یہ ساری برکات (جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی) میرے گمان میں اسی (حافظ ملت) وجود مسعود کی ہیں۔ یہ ساری بہار اسی کے دم سے ہے۔ اس کے فیض قدم سے ہے، یہ روشنی اسی کے جلوے کی ہے۔ اس کے خلوص، اسی کے اخلاق، اسی کے انتخاب نے اچھے قابل مدرسین طلبہ کو جمع کر دیا۔ مولی تعالی مدرسہ کو نظر بد سے بچائے رکھے۔ آمین۔ (اشرفیہ کا ماضی اور حال ،ص:۷۰)۔
دار العلوم اشرفیہ مبارکپور کو ایک عظیم یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی نیک کوشش کا میں خیر مقدم کرتا ہوں اور حافظ ملت حضرت مولانا عبد العزیز صاحب کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ مولا تعالیٰ انھیں اپنے عظیم مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ اور حضرات اہل سنت کو توفیق بخشے کہ وہ اشرفیہ یونیورسٹی کی تعمیر میں حصہ لے کر دین کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت پوری فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ (حافظ ملت افکار اور کارنامے ،ص: ۳۵)۔
پاسبان ملت حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ رقمطرازہیں : حافظ ملت میری نظر میں عارف باللہ اور اللہ کے ولی ہیں علم ظاہر و باطن کے ایسے سنگم جہاں پر ہر پیاسے کو پانی ملے، وہ استاذ العلما کی ذات گرامی ہے۔ ایک ایسا عا بد شب زندہ دار کہ زہد و تقویٰ و پارسائی جس کے دامن کے حسین جھالر ہیں، زمین پر آنکھیں بچھائے اس طرح گزر جائیں کہ فرش و عرش کی کائنات انھیں دیکھے لیکن ان کی خدا شناس نگاہوں کو کوئی کچھ نہ کہ سکتے۔ لباس میں ایسی سادگی جس سے عالمانہ وقار پھوٹ پھوٹ کر برستا ہو۔ گفتار میں ایسی نرمی اور مٹھاس گویا ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ ایسے کریم و شفیق کہ بچے انھیں پاکر ماں کی گود بھول جائیں۔ اپنے بزرگوں کے لیے ایسے ادب شناس کہ اعلیٰ حضرت سیدنا امام احمد رضا خان و صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی علیہما الرحمۃ والرضوان کا نام سنتے ہی اپنی گردن جھکا لیں۔اور تاجدار اہلِ سنت حضور مفتی اعظم ہند و دیگر اکابر اہلِ سنت کے تذکرہ پر اپنی والہانہ مسرت کا اظہار، یہ حافظ ملت کی خصوصی ادائے محبت ہے۔( معارفِ حدیث ،ص: ۱۸)۔
حافظ ملت جسم ضعیف و ناتواں مگر عزم واستقلال کا کوہ گراں۔ یہ ان نفوس قدسی میں ہیں جن کے نقش پا آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔ سچ یہ ہے اپنے لیے نہیں بلکہ دنیا کی ہدایت کے لیے جیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ یہ دین دار ہی نہیں، بلکہ چلتا پھر تا دین ہیں۔ جنھیں دیکھ کر اور ان کی اتباع کر کے لوگ دین دار بنتے ہیں۔ (حیاتِ حافظ ملت، ص: ۸۳۲)۔
ہم ایسے انسان کو مردہ کیسے کہ سکتے ہیں جس نے ملت کے مردہ ضمیر کو زندگی عطا کی ہو۔ آج حافظ ملت خاموش ہیں مگر ہزاروں زبانوں کو قوت گویائی عطا کی۔حافظ ملت کا فیضان، ابرکرم کی طرح عام تھا، جس سے ہر طالب علم نے حسب صلاحیت استفادہ کیا۔ (حیاتِ حافظ ملت، ص: ۸۳۲)۔
حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی، حضور حافظ ملت کی مایہ ناز تصنیف ’’معارف حدیث‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:معارف حدیث! ماہنامہ پاسبان کا ایک مستقل عنوان ہے، جس کے تحت استاذ العلما جلالۃ العلم حافظ ملت حضرت مولانا الحاج حافظ عبد العزیز صاحب قبلہ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے رشحات قلم کی اشاعت ہوتی رہتی ہے۔ نہ جانے کتنے بندگان خدا اس کے مطالعہ سے راہ ہدایت پاکر صراط مستقیم پر گام زن ہو گئے۔ سمندر کو کوزے میں بھرنے کی گامزن ہوئے کہاوت سنتے تھے لیکن ’’معارف حدیث‘‘ اس کی جیتی جاگتی زندہ مثال ہے۔ حدیث کے ترجمہ کے ساتھ اس پر عالمانہ و عارفانہ نکتہ آفرینی صرف استاذ العلما (حافظ ملت) جیسی بلند شخصیت کا کام ہے۔‘‘ ادارہ پاسبان اس کرم واحسان کو کبھی بھول نہ سکے گا کہ جب سے حضرت نے اس عنوان کو شرف قبول سے نوازا، کوئی بھی شمارہ اس عنوان سے خالی نہ رہ سکا۔ جوانوں نے کاندھے کا جوا اتار دیا لیکن بہتر (۲۷) برس کا ضعیف و ناتواں بزرگ، عزم و استقلال کا کوہ گراں ثابت ہوا۔ (معارفِ حدیث ،ص:۱۷)۔
حضرت عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ’’ یہ شرف میرے لیے باعث فخر ہے کہ الجامعۃ الاشرفیہ عربی یونیورسٹی مبارک پور کے بانی فضیلت مآب استاذ العلماء حضرت الحاج عبد العزیز صاحب قبلہ مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ میرے استاذ بھائی تھے، لیکن وہ علوم و اعمال اور زہد و تقویٰ کے فضل و کمال میں مجھ سے بدرجہا بالاتر،بلند مرتبہ اور عظیم الشان عالم نبیل و فاضل جلیل تھے ۔ میری نگاہ نقدونظر میں حافظ ملت کا فضل و کمال میراثی فضل و کمال نہیں بلکہ یہ بالکل ذاتی فضل و کمال ہے،جس کو انہوں نے اپنی دلدوز اور دماغ سوز محنتوں اور اپنی قوت بازوے کے بل پر حاصل کیا۔ اور یہ حافظ ملت کی وہ خصوصیت ہے جو انہیں ان کے ہم عصر مشاہیر سے اس طرح ممتاز کررہی ہے جس طرح چاند سورج کی روشنی ایک دوسرے سے ممتاز ہے کہ چاند دنیا میں سورج کی بخشی ہوئی روشنی کے بل پر چمک رہا ہے اور سورج اپنی روشنی سے عالم کو منور کر رہا ہے ۔ (حافظِ ملت نمبر،ص:۸۲۹/حافظ ملت اربابِ علم و دانش کی نظر میں ،ص:۳۲)۔
رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : اپنی فکر کی حیرانی کا عالم کیا بتاؤں؟ جب بھی حافظ ملت پر کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا، ان کی ہمہ گیر زندگی کی بے شمار عنوانات نگاہوں کے سامنے بکھر گئے۔ تاج محل کی تعمیر آسان ہے، لیکن شخصیتوں کی تعمیر کا کام بہت مشکل ہے۔ حافظ ملت کو اس کام سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ سفر میں، حضر میں، حلقہ درس میں، مجلس خاص میں، جلسہ عام میں، کہیں بھی وہ ایک لمحے کے لیے اپنے اس فریضہ عشق سے غافل نہیں رہتے۔ تاریخ میں مصلحین واساتذہ کی زندگیوں کے جو بے شمار واقعات محفوظ ہیں، ان میں شخصیت سازی سے متعلق بکھرے ہوئے جزئیات کا اگر آپ گہرا مطالعہ کریں گے تو آپ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ شخصیت سازی کے لیے کسی معلم و مصلح میں ان پانچ اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔(۱) شفقت، (۲) ذہانت، (۳) تدبر، (۴) علم، (۵) تقوی۔ اور حقائق و واقعات شاہد ہیں کہ یہ پانچوں اوصاف حافظ ملت کی زندگی میں ابھرے ہوئے نقوش کی طرح نمایاں ہیں۔ (حافظ ملت نمبر،ص:۱۲۳)۔
حافظ ملت اپنے دور کے ایک بے مثال شفیق استاد تھے تو اسی کے ذیل میں ہم اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان محاسن میں بھی وہ اپنے عہد کے ایک منفرد معلم تھے، ایک منفرد مربی تھے اور اسی کے ساتھ ایک منفرد مرشد و مز کی بھی تھے۔ اور بلا شبہ یہ سارا کمال حافظ ملت کے استاذ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کا ہے کہ ایسا نادر الوجود اور عبقری شاگرد انھوں نے پیدا کیا۔ جب تک آسمان پر ستاروں کی قندیلیں روشن ہیں، خدا ان کے استاذ اور شاگرد دونوں کی تربتوں پر رحمت وانوار کے بادل برسائے۔(حافظ ملت نمبر،ص:۱۲۵)۔
حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے ذاتی فضائل و کمالات، اپنے جذبئہ ایثار واخلاص، اپنے زہد و تقویٰ، اپنے علمی تجربہ، اپنی علمی حکمت و فراست، اپنے مقام تقرب و عرفان، اپنے اخلاقی محاسن و مکارم کے اعتبار سے جس مقام بلند پر فائز تھے اس کا اعتراف دوست تو دوست، دشمن کو بھی ہے۔ لیکن جس خصوص میں انھوں نے اپنے عصر نہیں بلکہ اپنے ماضی کے بھی ہزاروں علما کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا ہے، وہ ہے ان کی مردم سازی اور نسل انسانی کے احیا کا مشن اور وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ اس کا تسلسل موت کا فرشتہ بھی نہیں توڑ سکا۔ علم و آگہی اور شخصیت سازی کا جو چشمہ فیض ان کی حیات ظاہری میں جاری تھا، وہ آج بھی جامعہ کے احاطے میں اہل رہا ہے۔
حافظ ملت نے اس بے آب و گیاہ میدان میں جس چشمہ فیض کی بنیاد رکھی وہ محض حسن اتفاق کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ان کی فکر رسانے اچھی طرح اس حقیقت کا سراغ لگا لیا تھا کہ کوئی قوم اپنے قائد کے بغیر نہ اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے اور نہ اپنے تشخص کا تحفظ کر سکتی ہے اور یہ نکتہ بھی ان کی نگاہ سے مخفی نہیں تھا کہ تعلیم کے بغیر قیادت کی صلاحیتوں کا ابھر ناممکن نہیں ہے۔ (انوار حافظ ملت،ماہنامہ اشرفیہ،نومبر و دسمبر ۱۹۹۲ء،ص:۱۹)۔
تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خان از ہری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : حضرت صدر الشریعہ کے تلامذہ میں ایک سے ایک جلیل القدر، ذی استعداد اور باصلاحیت افراد پیدا ہوئے مگر ہندستان میں جو فیض حضور حافظ ملت کا جاری ہوا وہ کسی کا نہ ہوا۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے کتابیں لکھیں، حضور حافظ ملت نے علما پیدا کیے، اعلیٰ حضرت کے مشن کی ترویج و اشاعت میں جو کردار حضرت حافظ ملت، جامعہ اشرفیہ اور اس کے فرزندوں نے ادا کیا ہے وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اشرفیہ کا کام صرف اشرفیہ کا نہیں ہے، بلکہ اعلیٰ حضرت کا کام ہے، مفتی اعظم ہند کا کام ہے، رضویت کا کام ہے۔ (ارشاد گرامی بہ موقع افتتاح دفتر اشرفیہ ممبئی،جنوری۱۹۹۲ء)۔ (ماہنامہ اشرفیہ،فروری۱۹۹۲ء ،ص: ۴۱)۔
بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان عظمی علیہ الرحمہ کے بقول: جامعہ اشرفیہ تعلیمی نظام، تربیتی انداز اور مختلف دفاتر کا معائنہ فرما کر حضرت مولانا الشاہ اختر رضا خاں از ہری، بریلوی دامت برکاتہم العالیہ نے اس دار العلوم (جامعہ اشرفیہ مبارکپور) کو مشرق سے اہل سنت و جماعت کے ابھرتے ہوئے آفتاب سے تعبیر کیا۔(ماہنامہ اشرفیہ،دسمبر ۱۹۷۷ئء ،ص: ۲۴)۔
احسن العلماء حضرت علامہ سید شاہ مصطفی حیدر میاں برکاتی قدس سرہ العزیز رقمطراز ہیں : ’’حافظ ملت ایسی ذات گرامی کا نام ہے جس کے ادنیٰ خوشہ چیں رحمت و دانش او رعلم و معرفت کی چلتی پھرتی یونیورسیٹیاں ہیں۔ کچھ لکھنا گویا امتحان دینا ہے ۔ اورآگے لکھتے ہیں :یاد ہے ۱۹۳۷ء کی وہ صبح حب مارہرہ کی برکاتی خانقاہ میں حضرت صدرالشریعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے ساتھ پہلی بار حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زیارت ہوئی تھی اور آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کی کانپور میں کانفرنس منعقدہ نومبر ۱۹۶۳ء میں پہلی بار اور ’’ یوم شہید اعظم‘‘ ۱۹۱۷ء ممبئی میں دوسری بار ان مبارک بیان سننے کا موقع ملا۔ آخری بیان میں نے وہ سنا کہ دارالعلوم برکاتیہ ضلع بستی کے سالانہ جلسئہ تقسیم اسناد کے موقع پر اپریل ۱۹۷۶ء میں فرمایا تھا۔ حافظِ ملت نے ان تمام مواعظ حسنہ میں علم و حکمت کے موتی پروئے تھے ۔انداز گفتگو میں نوجوانوں کی سن گھن گرج تھی۔ جوبات منہ سی نکلتی ایک میخ سے گڑجاتی ۔ علم و حکمت کا یہ درخشندہ آفتاب جس کی ضیاباری سے اقطار ہند وبیرون ہند منور،جس کی شعائیں دوردور تک بکھری ہوئی ہیں ، جو یقینا کھانے کے دستر خوان سے لے کر محراب و منبر اور مسند درس و افتا سے تخت مشخیت تک حافظ ملت تھے‘‘۔(سیدین نمبر،ص:۵۸،۵۹،ماہنامہ اشرفیہ،مبارک پور)۔
شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : حضور حافظ ملت قدس سرہ العزیزکی تفسیر میں مہارت کا جو سرمایہ مل سکتا ہے، وہ درس ہی سے مل سکتا ہے۔ تو اگر میں یہ کہہ دوں کہ حافظ ملت ان کتب تفسیر کو بہت عمدہ پڑھاتے تھے تو اہل علم اس کے کھوکھلے پن پر ہنس دیں گے۔ اس لیے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حافظ ملت ان کتابوں کو خوب، بہت خوب، عمدہ اور بہت عمدہ تو پڑھاتے ہی تھے۔ حافظ ملت کا کمال یہ تھا کہ ایک ذی استعداد طالب علم کو یہی کتابیں پڑھا کر مفسر بنا دیتے تھے۔
حافظ ملت قدس سرہ کے تلامذہ میں ایسے ایسے باکمال ہیں کہ آج اہل سنت کے بڑے بڑے علمائے کرام اور مشایخِ عظام میں شمار ہوتے ہیں۔حافظ ملت قدس سرہ العزیز ایک تاریخی ہی نہیں، بلکہ تاریخ ساز انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دنیائے سنیت میں نئی روح پھونک کر انقلاب عظیم برپاکر دیا ہے اور اہلِ سنت کے مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی ہے۔
حضرت مولانا شاہ سراج الہدیٰ قادری گیاوی ؔعلیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ’’ ایک بے آب و گیاہ ویرانہ، تاحد نظر علوم و معارف کے شاداب گلشن مین یوں ہی نہیں تبدیل ہوگیا ہے بلکہ اس کے مسکراتے ہوئے لالہ زاروں اور مہکتے ہوئے غنچوں کے پیچھے جہاں حافظ ملت کے پسینے کی خوشبواور ان کی خون جگر کی سرخی کا ر فرماہے ، وہیں ان کابے مثال ایثار و خلاص ، ناقابل تسخیر عزم و استقلال اور قلوب کو پگھلا دینے والا ان کا زہد و تقویٰ اور سفرو حضر میں،آبادی میں اور ملکوتیوں کی طرح ان کے کردار کا تقدس مبارک پور کی عظیم تاریخ کا نقطئہ اول بھی ہی اور حرفِ آخر بھی۔ (حافظِ ملت نمبر،ص:۱۰۹)۔
رئیس التحریر حضرت علامہ یٰسین اختر مصباحی دام ظلہ لکھتے ہیں:’’ حافظ ملت قدس سرہ العزیز بانی جامعہ اشرفیہ مبارکپور کی زندگی کی ایک شاہ کار خصوصیت یہ بھی ہے کہ مبارک پور کی درس گاہ علم وفن سے ایسے طلبہ کی ایک خاص نہج پر تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دی جو علم و دین کے متعدد شعبوں میں اپنی صلاحیت کا استعمال کر کے کچھ مثالی خدمت انجام دے سکیں۔ آپ کے اندر جو ہر شناسی کی خاص خوبی تھی۔ طلبہ کی ذہانت وزیر کی، محنت و کدو کاوش، سلامت فطرت، رجحان طبع، بلند خیالی، میدان عمل کی تعین ان سب چیزوں کو حافظ ملت کی دور بین نگاہیں ایک ہی نظر میں تاڑ لیتیں۔ اور ان کے حال و مستقبل کے میدان کی نشاندہی اور تربیت کا خاص ڈھنگ ان کے ساتھ اپنایا جاتا۔ اور ہر طرح کی شفقتیں، حوصلہ افزائیاں، رہنمائیاں ان کے ساتھ ہوتیں۔ اس طرح آپ نے کثیر تعداد میں باصلاحیت افراد پیدا کیے۔آپ نے اپنے تلامذہ میں ایسی روح پیدا کی، اور انھیں ایسی استعداد بخشی کہ وہ متعدد میدانوں میں نمایاں حیثیت سے خدمت علم و دین انجام دے سکیں۔ تفسیر و حدیث کے ماہر علما بھی آپ کے دانش کدہ سے پیدا ہوئے، جو مسند تدریس کی آبرو اور وقار ہیں۔ اور فقہ وافتا کے ممتاز افراد بھی آپ کی درس گاہ علم و فضل سے اٹھے اور انھوں نے جدید و قدیم مسائل کا حل شریعت اسلامیہ کی روشنی میں قوم وملت کو بتایا اور مسائل واحکام میں ہر طرح ان کی رہنمائی کی۔ منطق و فلسفہ جو اگر چہ آج اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں، دن بہ دن ان سے بے رغبتی کی وجہ سے ادبار وانحطاط کے شکار ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن صدیوں سے ان کی مسلسل حکمرانی اور آج سے پہلے ان کی افادیت، ایک مسلمہ حقیقت تھی۔ ان کے ذریعہ علماے اسلام نے بڑی ٹھوس اور مستحکم خدمت م خدمتیں انجام دی ہیں۔ اور درس نظامی کی جان انھیں ہی سمجھا جاتا رہا ہے‘‘۔
محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری مصباحی، گھوسی لکھتے ہیں : حضرت حافظ ملت کی دینی و علمی خدمات کا مرکز اشرفیہ ہی تھا۔ آپ نے تقریبا ۴۴ سال تک یہاں تعلیم و تدریس کی بزم قائم رکھی اور وہ بھی اس شان سے کہ ہر دور میں اشرفیہ ہزار انجمن علم وفن پر بھاری رہا۔ حضرت صدرالشریعہ کے بعد حافظ ملت ہی کے لیے یہ خصوصیت مقدر ہوئی کہ آپ نے سب سے زیادہ بہتر اور کثیر التعداد علما پیدا فرمائے۔
حافظ ملت نے مبارک پور میں رہ کر پچاس سال تک خدمت کی مگر کسی زمانے میں بھی آپ کا مشاہرہ ۲۵۰ روپے نہیں پہنچا۔ آپ نے کبھی بھی اضافہ تنخواہ کی درخواست نہیں دی۔ آپ کو دوسرے مدارس سے۱۰۰روپے ماہانہ مشاہرہ پر، اور کہیں سے اس سے زائد تنخواہ پر مدعو کیا گیا مگر آپ نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا۔ حافظ ملت ایک طرف ر روپے ماہانہ مشاہرہ پر، اوراشرفیہ کے لیے مالی فراہمی میں پوری کوشش کرتے تھے تو دوسری طرف اپنے لیے اقل قلیل مشاہرہ لے کر باند از دیگر ادارہ کی مالیات کو مضبوط فرماتے تھے۔
شہزادہ شارح بخاری جناب ڈاکٹر محب الحق قادری، گھوسی لکھتے ہیں : اسلام کی فطرت سلیمہ کے مانند اس بندہ مومن میں رب کائنات نے اتنی لچک دی تھی کہ اس کے عزم و حوصلہ کو جتنا دبایا گیا وہ اتنا ہی ابھرتا گیا اور اس قدر ابھرا کہ خاک دان گیتی پر ایک ایسا مبارک گوشہ بنایا گیا جو رشک جہاں ہے۔ ایسا جہان رنگیں کہ اس کے شب و روز اور شام و سحر کا ہر لمحہ قال اللہ اور قال الرسول کی صدائے دل نواز سے گونج رہا ہے اور دیدہ کور کے لیے وہاں کا ذرہ ذرہ سرمہ بصارت ہے کہ حافظ ملت واللہ نے اپنی اولاد، خویش و اقربا کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ اس سچے شیدائی اسلام نے عمر عزیز اور عزیز اولاد کو اس قلعہ معلیٰ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس مرکز میں مہمانان رسول کی انجمن صدا بہار، وارثین انبیا کا ہجوم اور اس کے طاقوں میں طاق حرم کی روشن شمع، وہ محراب جس سے نور اور کتاب مبین کی قندیل نورانی شعائیں بکھر رہی ہیں۔ وہ ممبر معلیٰ جس سے رحمت للعالمین اللعالمین کا آفاقی پیغام بلند ہو رہا ہے، وہ مینار عظمت جہاں سے اذان بلالی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، وہ درس گاہ جس سے تلقین غزالی اور درس حنفی کارس گھلتا ہوا نظر آتا ہے اور کیوں نہ ہو؟
ولایت، بادشاہی علم اشیا کی جہاں گیری
یہ سب کیا ہیں فقط ایک نقطہ ایماں کی تفسیریں
اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حضور حافظ ملت کے مشن پر کام کرنے ،ان کی پاکیزہ سے کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے عملی جامہ بھی پہنانے کو توفیق عطا فرمائے، ہمیں ان جیسا مخلص اور پرہیز گار بنائے ،ان کی طرح صبر و تحمل کے ساتھ کام کرنے والا بنائے،خدمت دین میں بلا جھجھک پیش پیش رکھے،امت مسلمہ کے لئے دل سے کام کرنے والا بنائے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال کرے آمین بجاہ سید المرسلین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp