حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

محمد سلیم مصباحی قنوج
یوم وصال 15 رجب المرجب 148ھ
اللہ تبارک و تعالٰی نے تمام انبیاء کرام کا سردار اپنا پیارا محبوب حضور پرنور سرور کونینﷺ کو بنایا ہے، تو انبیاء میں اعلیٰ حضور ﷺ ہیں اس لیے نبی کریم ﷺ سے جو چیز متصل ہو جائے وہ اپنی اجناس میں سب سے اعلیٰ ہو جاتی ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی امت تمام امتوں سے اعلیٰ، آپﷺ کے صحابہ تمام انسانوں سے اعلیٰ، تو اسی طرح حضور ﷺ کی نسل و خاندان کائنات میں تمام نسلوں و خاندانوں سے افضل و اعلیٰ ہے، کیونکہ آپﷺ کا خاندان نور ہے تو اسی نوری خاندان اور اعلیٰ نسب میں ایک مقدس و محترم ہستی حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو تابعی بزرگ ہیں کہ آپ نے دو جلیل القدر صحابہ کرام حضرت انس بن مالک اور حضرت سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کی زیارت کی ہے۔
نام و نسب:
آپ رضی اللہ عنہ کا نام جعفر، کنیت ابوعبداللہ و ابواسماعیل اور ابو موسیٰ ہے، اور لقب صادق، فاضل اور طاہر و کامل ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے، امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن علی امام زین العابدین بن سیدالشہداء امام حسین بن حضرت علی المرتضیٰ۔(رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
والدین کریمین:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد ماجد کا نام حضرت سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، اور والدہ ماجدہ کا نام حضرت سیدتنا ام فردہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہے۔
ولادت باسعادت:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول 80ھ یا 83ھ دوشنبہ کے دن مدینہ منورہ میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاندانی روایات کی مطابق ظاہر و باطنی علوم کی تحصیل وتکمیل اور روحانی تربیت اپنے والد ماجد حضرت سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ اور اپنے دادا حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور اپنے نانا جان فقیہ اعظم مدینہ منورہ حضرت سیدنا امام قاسم بن محمد سے حاصل کی۔ ان کے علاوہ صحابی رسولﷺ حضرت سہل بن سعدد،حضرت عروہ بن زبیر، حضرت سیدنا عبیدالله بن ابی رافع،اور حضرت سیدنا عطاء اورحضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی تحصیل علم کیا۔
علم اور خصائص:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حنفیوں کے امام، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ جو خود علم کے سمندر تھے آپ بھی حصول علمِ دین کیلئے دو سال تک کی صحبت بابرکت میں رہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت خود فرماتے ہیں،لَو لَاالسَّنَتَانِ لَہَلَکَ النُّعْمَانُ، اگر میری زندگی میں یہ دوسال (جو میں نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے تعلیم کی خدمت میں گزارے) نہ ہوتے تونعمان ہلاک ہوگیا ہوتا۔ (آداب مرشدکامل)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت سینا عمروبن مِقدام بیان کرتے ہیں: میں جب بھی ان کو دیکھتا ہوں تو جان لیتا ہوں کہ یہ انبیائےکرام علیہم السلام کی اولاد میں سے ہیں۔
تلامذہ:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کے شہزادے حضرت امام موسیٰ کاظم، امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک حضرت سفیان ثوری اور حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم جیسے بڑے بڑے بزرگوں نے فیض حاصل کیا ہے۔(سیر اعلام النبلا)
عبادت و ریاضت:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظاہری وباطنی علوم کے جامع تھے اورعبادت و ریاضت اور مجاہدے میں مشہور تھے۔ امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک زمانے تک آپ کی خدمت مبارکہ میں آتا رہا،میں نے ہمیشہ آپ کو تین عبادتوں میں سے کسی ایک میں مصروف پایا، یاتو آپ نماز پڑھتے ہوئے ملتے، یا تلاوت قراٰن میں مشغول ہوتے یا پھر روزہ دار ہوتے۔
عادات مبارکہ:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مبارک طبیعت میں خوش اخلاقی تھی، مبارک ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی بھی ذکر مصطفیٰﷺ ہوتا تو رنگ زرد ہو جاتا، کبھی بھی بے وضو حدیث پاک بیان نہ فرماتے نماز و تلاوت میں مشغول رہتے یا خاموش رہتے آپ کی گفتگو فضول گوئی سے پاک ہوتی۔(شفا)
عاجزی و انکساری:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عالی نسب ہونے کے باوجود عاجزی کے پیکر تھے، ایک مرتبہ حضرت سیدنا داؤد طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی،آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں، اس لئے مجھے کوئی نصیحت فرمائیں،لیکن آپ خاموش رہے، جب آپ نے دوبارہ عرض کی کہ،اہل بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے، اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے، یہ سن کر امام جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،مجھے تو خود یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جد اعلیٰ ﷺ میرا ہاتھ پکڑ کر یہ نہ پوچھ لیں کہ تو نے خود میری پیروی کیوں نہیں کی؟ کیونکہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں اعمال صالحہ پر موقوف ہے، یہ سن کر حضرت داؤو طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو رونا آگیا کہ وہ ہستی جن کے جد امجد سردار انبیاء و خاتم النبیینﷺہیں، جب ان کے خوف خدا کا یہ عالم ہے تو میں کس گنتی میں آتا ہوں۔
سخاوت:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت کا عالم یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اس قدرکھلاتےکہ اہل خانہ کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہتا۔
شہادت و مدفن:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت 15 رجب المرجب 148 ہجری کو 68 سال کی عمر میں ہوئی،آپ کو کسی شقی القلب نے زہر دے دیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تدفین جنت البقیع میں آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقر رضی اللہ عنہما کی قبور مبارکہ کے پاس ہوئی۔(الثقات لابن حبان)