حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
یوم وصال 2 شعبان المعظم 150ھ
اللہ تعالیٰ نے اپنےپیارےمحبوبﷺ کو مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اسلام کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔ بعدہ آپﷺ کے صحابہ کرام نے اس مشن کو آگے بڑھایا، اس مبارک اور عظیم جماعت کے بعد اس مشن اعظم کو تابعین نے اپنی محنت شاقہ اور اپنی علمی، عملی کوششوں سے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا، اسی مقدس جماعت میں سے ایک نام امام الائمہ، کاشف الغمہ،سراج ہذہ الامۃ، امام الاعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی ہیں،جنہوں نے اپنے علم و عمل سے مسلمانان اہلسنت کے ایمان و عقیدہ کو جلا بخشی اور ان کی حفاظت کی۔
نام و نسب:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا نام،نعمان۔ کنیت،ابو حنیفہ۔ والد کا نام، ثابت۔ القاب، امام اعظم، امام الائمہ، سراج الامہ،کاشف الغمہ، رئیس الفقہاء والمجتہدین، سید الاولیاء، و المحدثین۔
آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ نعمان بن ثابت بن مرزبان زوطی بن ثابت بن یزدگرد بن شہریار بن پرویز بن نوشیرواں۔(حالات فقہا و محدثین)
ولادت باسعادت:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 80ھ شہر کوفہ عراق میں ہوئی۔
تحصیل علم:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس شہر میں آنکھ کھولی تھی جس کے ذرے ذرے سے علم و عرفان کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ آپ ابتدائی تعلیم کے بعد کاروبار میں بیس سال کی عمر تک مصروف رہے لیکن قدر نے آپ کا فروغ علم کے لیے پیدا کیا تھا اور عظیم علمی کام لینا مقصود تھا۔ امام شعبی کی ہدایت پر علم دین کی طرف متوجہ ہوئے۔ابتداء میں ادب و انشاء اور کلام کی تعلیم حاصل کی کچھ دنوں بعد فقیہ وقت امام حماد کے حلقہ درس سے وابستہ ہوکر فقہ، حدیث اور تفسیر کا درس لیا اور ذوق علم کی تسکین کے لیے مکہ مدینہ اور بصرہ کے متعدد سفر کیے حرمین شریفین میں کافی دنوں تک قیام کیا جو علماء و مشایخ کے عظیم مرکز تھے اور ایام حج میں تمام بالادو امصار اسلامی کے علماء کا یہاں اجتماع ہوتا تھا ان مقامات پر تابعین و مشائخ حدیث سے سماع حدیث کرتے رہے آپ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے کسب علم فرمایا۔
بشارت عظمی:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کو بشارت عظمی سے نوازا۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے، اس مجلس میں سورۂ جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ نے اس سورۂ کی آیت “وآخرین منھم لما یلحقوابھم” کی تلاوت فرمائی تو حاضرین میں سے کسی نے پوچھا حضور یہ دوسرے کون ہیں جو ابھی تک ہم سے نہیں ملے حضور نے جواب میں سکوت فرمایا۔ جب بار بار سوال کیا گیا تو حضرت سلمان فارسی کے کندھے پردست اقدس رکھ کر فرمایا: “لوکان الایمان عند الثریالنہ رجال من ھؤ لاء” ترجمہ: اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضروری تلاش کریں گے۔(صحیح البخاری/صحیح مسلم)
شرف تابعیت:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے شرف ملاقات بھی حاصل تھا۔ ان کی زیارت کرکے شرف تابعیت سے مشرف ہوئے، اور ان سے کسب علم کرکے بشارت نبوی کے مصداق ٹھرے۔آپ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت کی تھی۔حضرت انس بن مالک،حضرت عبداللہ بن انیس،حضرت عبداللہ بن حارث، حضرت عبداللہ بن اوفی،حضرت عامر بن واثلہ، حضرت معقل بن یسار،جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن انس،علیہم الرحمۃ والرضوان۔(حالات فقہا و محدثین/امام اعظم کا محدثانہ مقام)
عبادت و ریاضت:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی عبادت کے بارے میں حضرت حماد بن ابو سلیمان رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سیدنا امام اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ساری سارت عبادت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مروی ہےکہ آپ رضی ﷲ تعالٰی عنہ پہلے آدھی رات عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک دن راستے سے گزر رہے تھے کہ کسی کو یہ کہتے سنا کہ یہ ساری رات عبادت میں گزارتے ہیں۔ پس اس کے بعد سے پوری رات عبادت کرنے لگے اور فرماتے: مجھے الله تعالیٰ سے حیا آتی ہےکہ میرے بارے میں اس کی عبادت کے متعلق ایسی بات کہی جائے جو مجھ میں نہ ہو۔( تاریخ بغداد،النعمان بن ثابت)
زہد و تقویٰ:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے زہد و تقویٰ کا عالم یہ تھا کہ پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے، ترہیب کی آیتوں پربے اختیار آنسو جاری ہوجاتے۔ ایک بار ” والساعۃ ادھیٰ وامر” پر پہنچے تو اسی کو رات بھر دہراتے اور روتے رہے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے غیر معمولی شغف تھا۔ امام صاحب جس جگہ سے گرفتار کر کے بغداد بھیجے گئے اس جگہ سات ہزار مرتبہ قرآن شریف ختم کیا۔آپ عمل صالح اور اخلاق حسنہ کا مثالی پیکر تھے۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اتباع سنت میں گزرتا، شریعت اسلامی کی نزاکتوں کا پورا خیال رکھتے۔
خوف خدا:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ رات کو خوف الہی سے اس قدر روتے کہ ہمسائے آپ پر ترس کھاتے، جس جگہ آپ نے وفات پائی اس مقام پر آپ نے سات ہزار بار قرآن پاک ختم فرمایا، رمضان المبارک میں آپ کے شب و روز تلات قرآن پاک میں گزرتے، حضرت سیدنا امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک سے یوم عید تک باسٹھ (62) قرآن پاک مکمل فرمایا کرتے۔
سیرت و خصائص:
اللہ تعالیٰ نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی ذات میں بے شمار خوبیاں جمع کر دیں تھیں۔آپ متقی، صاف و بے داغ کردار کےحامل،اور پرہیز گار عالم و فقیہ تھے۔چنانچہ عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں:ان کی مجلس میں بڑوں کو چھوٹا دیکھتا، ان کی مجلس میں اپنے آپ کو کم رتبہ دیکھتا کسی کی مجلس میں نہ دیکھتا، اگر اس کا اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ افراط سے کام لے رہا ہوں تو میں ابو حنیفہ پر کسی کو مقدم نہیں کرتا۔
امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تمام لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں، امام ابو حنیفہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو فقہ میں موافقت عطا کی گئی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم فرماتے ہیں: امام ابو حنیفہ کی مجلس سے زیادہ فیض رساں اور کوئی مجلس نہیں۔(حالات فقہا و محدثین)
مکی بن ابراہیم استاذ امام بخاری فرماتے ہیں:امام ابو حنیفہ اپنے زمانے کے اعلم علماء تھے۔
حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو حنیفہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم ہیں، میری آنکھوں نے ان کا مثل نہیں دیکھا۔
حضرت امام زفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:امام ابو حنیفہ جب تکلم فرماتے تو ہم یہ سمجھتے کہ فرشتہ ان کی تلقین کر رہا ہے۔(حالات فقہا و محدثین)
وصال و مدفن:
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا وصال 2 شعبان المعظم 150ھ کو ہوا۔آپ کا مزار اعظمیہ عراق میں منبع فیوض وبرکات ہے۔(سیرت امام اعظم)