جنگ بدر حق و باطل کا پہلا معارکہ

مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
17 رمضان المبارک 2ھ
اللہ تعالیٰ نے مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور پرچم اسلام کو پوری روئے زمین پر لہرانے کے لیے اپنا پیارا محبوب نبی کریمﷺ کو مکہ مکرمہ کی وادیوں میں مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ اس مشن کو خوب محنت و محبت سے آگے بڑھاتے رہے، آپﷺکے اخلاق حسنہ وعادات جمیلہ سے متاثر ہو کرکچھ لوگوں نے دین اسلام قبول کر لیا۔جیساکہ تاریخ میں ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دین حق کی تصدیق کی۔جب کہ قریش مکہ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے سخت دشمن تھے مکے میں انہوں نے خدا کے سچے دین کو برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یہاں تک کہ مسلمانوں کو مجبوراً ہجرت کرکے مدینہ آنا پڑا۔
مدینہ منورہ میں اسلام کی آمد:
کفار مکہ نے جب ظلم و ستم کی تمام حدیں پار کر لیں تو اللہ کے رسولﷺ نے مومنوں کے مدینہ ہجرت کا اذن فرمایا۔ چنانچہ آپﷺ کی مدینہ آمد سے مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور آپﷺ کے اخلاق و کردار سے کثیر تعداد میں دین اسلام میں داخل ہونے لگے اس طرح مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی چھوٹی سی باقاعدہ ریاست قائم ہو گئی۔
کفار مکہ کا غصہ اور مسلمانوں کا معاہدہ:
حضور ﷺ نے جب مدینہ میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ایک چھوٹی ریاست قائم کی،تو یہ بات قریش کے لیے ناقابل برداشت تھی۔وہ رات دن یہ منصوبے بنانے لگے کہ کسی طرح مدینہ کی اس نئی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے، اور دین اسلام کو جڑ سے مٹا دیا جائے۔
مسلمانوں کو قریش کے ان ارادوں کا علم تھا اس لئے انہوں نے یہود کے ساتھ دفاعی معاہدے بھی کر لیا تھے۔ قریش مکہ کے تجارتی قافلے شام کو جاتے ہوئے مدینہ کے نواح سے گزرتے تھے مسلمان کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ قافلے نقصان نہ پہنچائیں اس لئے مدینہ کے نواح میں رہنے والے قبائل سے معاہدے کیے تھے۔ مدینہ میں عبداللہ بن ابی نام کا ایک سردار تھا حضورﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے مدینہ کے لوگ اسے اپنا حکمران بنانے پر آمادہ تھے لیکن حضورﷺ کی مدینہ میں آمد کے بعد سب لوگوں نے آپ ﷺ کو اپنا حکمران مان لیا اس لئے مجبوراً عبداللہ بن ابی بظاہر مسلمان بن گیا لیکن دل میں مسلمانوں سے سخت بغض رکھتا تھا قریش مکہ نے اسے لکھا کہ :تم نے ہمارے آدمی کو اپنے یہاں پناہ دی ہے یا تو اسے قتل کردو یا اسے اپنے یہاں سے نکال دو ورنہ ہم مدینے پر حملہ کرکے تمہیں فنا کر دیں گے۔حضورﷺ کو اس بات کا علم ہو گیا تھا،تو آپ نے عبداللہ بن ابی کو سمجھایا مگرعبداللہ قریش کی خواہش پرعمل نہ کر سکا اس پر قریش مکہ کا غصہ اور بھی بڑھ گیا۔
جنگ بدر کا سبب:
دین اسلام کو مدینہ میں پھیلتا پھولتا دیکھ کر کفار مکہ طرح طرح کے منصوبے بنانے لگے اور عبداللہ بن ابی قریش کی خواہش پوری نہ کر سکا تو کفار مکہ کے ایک سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے مویشی ہانگ کر لے گیا اسی دوران اطلاع مدینہ پہنچ گئی اور مسلمانوں نے تعاقب کرکے مویشی چھین لیے لیکن کرز بن جابر فہری بچ کر نکل گیا مسلمانوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔رجب 2ھ میں رسول اللہﷺ نے عبداللہ بن جحش کو 12 آدمیوں کی مختصر جماعت کے ساتھ قریش کے تجارتی قافلے کا سراغ لگانے بھیجا۔اتفاق سے وہ قریش کی ایک چھوٹی سی جماعت جو مال تجارت لا رہی تھی حضرت عبد اللہ بن جحش نے حضورﷺ کی اجازت کے بغیر اس پر حملہ کردیا اور مال و اسباب لوٹ لیا۔اس حملے میں قریش کا ایک شخص عمرو بن حضرمی مارا گیا حضورﷺ کی اس کی اطلاع ملی تو آپﷺ عبداللہ بن جحش پر بہت ناراض ہوئے کہ میں نے تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دی تھی۔لیکن قریش کو بہانہ ہاتھ آ گیا اور عمر بن حضرمی کا بدلہ لینے کے نام پر جنگ کی تیاری شروع کر دی۔
مدینہ سے روانگی:
قریش کا ایک تجارتی قافلہ جو ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا ابو سفیان کی قیادت میں شام سے آ رہا تھا۔ابوسفیان کو مدینہ کے نواح میں کوئی خطرہ محسوس ہوا اور اس نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اس پر مکہ کے سردار ابو جہل نے مسلمانوں کے خلاف لشکر جمع کیا اور مدینہ کو روانہ ہوا۔ حضورﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع فرما کر صورت حال سے آگاہ کیا اور صاف صاف فرما دیا کہ ممکن ہے کہ اس سفر میں کفار قریش کے قافلہ سے ملاقات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت آجائے۔ ارشاد گرامی سن کر حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا مگر حضورﷺ انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔
انصار میں سے قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کا چہرہ انور دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ!ﷺ کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے؟ خدا کی قسم! ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!ﷺ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضورﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔(بخاری)
چنانچہ حضورﷺ اپنے 313 جانثار صحابہ کے ساتھ 12 رمضان 2ھ کوشہر سے باہر نکلے اور مدینہ سے تقریباً 30 میل کے فاصلے پر بدر کے میدان میں پہنچے۔اسی اثنا میں قریش کی امدادی فوج مکہ سے روانہ ہوکر بدر کے نواح میں پہنچ گئی یہیں انہیں اطلاع ملی کہ ابو سفیان کا قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا۔اس لیے بعض سرداروں کا خیال تھا کہ اب جنگ کرنے کی بجائے مسلمانوں سے صلح کر لینی چاہیے اورعمر بن حضرمی کا خون بہا لینا چاہیے لیکن اس تجویز کی ابوجہل نے مخالفت کی دراصل مسلمانوں کی انتہائی کم تعداد، ناتجربہ کار، انتہائی کم ہتھیار اور نہ فوجی راشن کی کوئی بڑی مقدار تھی،کیونکہ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ اس سفر میں کوئی بڑی جنگ ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ابو جہل کو اپنے ایک ہزار جنگجو جوانوں پر ناز تھا اس کے پاس اسلحہ بھی بہت سا تھا اس لیے اس نے لڑائی کی حمایت کی۔
میدان بدر:
حق و باطل کا وہ عظیم معرکہ جس میں کفار قریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی عزت و اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہوگیا کہ کفار قریش کی عظمت و شوکت بالکل ہی خاک میں مل گئی۔ یہ جنگ جس مقام پر واقع ہوئی اس کو بدر کہا جاتا ہے۔ میدان بدر مدینہ سے تقریباً 80 میل کے فاصلے پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام یوم الفرقان رکھا۔
حضورﷺ کی شب بیداری:
حضورﷺ نے 17 رمضان 2ھ جمعہ کی رات مسلمانوں کےلشکر کی جانب نظر فرمائی پھر کفار کا لشکر دیکھا تو آپﷺ نے پوری رات اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ:یا رب! اپنا وعدہ سچ فرماجو تو نے مجھ سے کیا ہے، اگرمسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی۔(مسلم،ملخصاً) یہ اس وقت جب مسلمانوں کی تمام فوج آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر اللہ کا رسولﷺ ساری رات خداوند عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کی دعا قبول فرمائی کہ مسلمانوں کی مدد کے لیے پہلے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے، اس کے بعد یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار ہو گئی۔(انفال، عمران)
فرشتوں کی فوج:
جنگ بدر میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کا لشکر اتار دیا تھا۔جیساکہ قرآن میں ہے: ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ تو اللہ سے ڈروکہ کہیں تم شکر گزار ہو جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبر و تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا اور یہ فتح اللہ نے نہ کی مگر تمہاری خوشی کے لئے اور اسی لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے۔ (آل عمران)
علم غیب مصطفیٰﷺکون،کب،کہاں،مرےگا؟
حضورﷺ نے چند جانثاروں کے ساتھ رات کو میدان جنگ کا معائنہ فرمایا، اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔آپﷺ اسی چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپﷺ نے جس جگہ جس کافر کی قتل گاہ بتائی تھی اس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پائی گئی ان میں سے کسی ایک نے لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔(ابو داؤد، مسلم)
مجاہدین اسلام کی صف بندی:
حضورﷺ نے 17 رمضان 2ھ بروز جمعہ مجاہدین اسلام کو صف بندی کا حکم دیا۔ دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اس کے اشارہ سے آپﷺ صفیں درست فرما رہے تھے کہ کوئی شخص آگے پیچھے نہ رہنے پائے اور یہ بھی حکم فرما دیا کہ بجز ذکر الٰہی کے کوئی شخص کسی قسم کا کوئی شوروغل نہ مچائے۔اورصف بندی کو نہ توڑیں اور جب تک حکم نہ ملے جنگ شروع نہ کریں۔آپﷺ نے اسلامی فوج کو تین حصوں میں منقسم کیا۔مہاجرین،بنی اوس اور بنو خزرج کے ہر حصے کا علمبردار الگ الگ کیا۔
دونوں لشکر آمنے سامنے:
میدان بدر کی جنگ بڑی آزمائش کی جنگ تھی،حق و باطل نوروظلمت یعنی اسلام اور کفر کی جنگ تھی اور مسلمانوں کو اپنے ہی کافررشتہ داروں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑی ہیں۔چنانچہ میدان بدر میں حق و باطل کی دونوں صفیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ قرآن اعلان کر رہا ہے:(آل عمران) ترجمہ: جو لوگ باہم لڑے ان میں تمہارے لئے عبرت کا نشان ہے، ایک خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا منکر خدا تھا۔
کفار کے سپہ سالار کا خاتمہ:
میدان جنگ میں سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر خون کا بدلہ لینے کے لیے نکلا ایک مسلمان نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا پھر دستور عرب کے مطابق قریش کی صفوں میں سے تین سردار عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ نکل کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا۔ ان کے مقابلے کے لیے حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم کو روانہ کیا گیا۔جب ان لوگوں میں جنگ شروع ہوئی تو حضرت حمزہ و حضرت علی رضی اللہ عنہما نے عتبہ اور ولیدکو جہنم واصل کر دیا۔لیکن شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا، کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آگے بڑے اور تلوار کی ضرب سے شیبہ کے دو ٹکڑے کر دئیے اس کے بعد عام لڑائی شروع ہوئی۔
ابو جہل کا خاتمہ:
حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی ایمانی شجاعت کی تاب نہ لاکر کفار قریش نے عام لڑائی شروع کر دی۔ اسی دوران انصار کے دو نو عمر لڑکے حضرت معاذ اور حضرت معوذ رضی اللہ عنہما نے چپکے سے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ ابو جہل کو جانتے ہو؟حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا، اس سے آپ لوگوں کا کیا کام؟ دونوں بچوں نے کہا: کہ میں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ اﷲ کے رسولﷺ کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرت سے دونوں لڑکوں کے حوصلے کو دیکھتا رہا اتنے میں ابوجہل تلوار گھماتا ہوا سامنے آ گیا اور میں نے اشارہ سے بتا دیا کہ ابوجہل یہی ہے، بس پھر کیا تھا یہ دونوں لڑکے تلواریں لے کر اس پر اس طرح جھپٹے جس طرح باز اپنے شکار پرجھپٹتا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواروں سے مار مار کر ابوجہل کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ابوجہل کی موت سے قریش مکہ کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
کفار قریش کی گرفتاری اور رہائی:
جنگ بدر میں مسلمانوں کے صرف 14 آدمی شہید ہوئے جبکہ کفار کے 70 آدمی مارے گئے جن میں 11 سردار وہ تھے جنہوں نے ہجرت سے پہلے حضورﷺ کے قتل کے منصوبے میں حصہ لیا تھا۔ اور 70 آدمی قیدی ہوئے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کو بہت سا جنگی سامان ہاتھ آیا۔جنگ بدر میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد جراح کو، حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو،حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبداﷲ کو اور اسی طرح بہت سے صحابہ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبوی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کو خود قتل کرے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے، اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔حضورﷺ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مشورے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔
فدیہ اور حضرت عباس کا قبول اسلام:
جب مال دار قیدیوں سے فدیہ طلب کیا جا رہا تھا تو حضورﷺ کے چچا عباس نے کہا:جو سونا میرے پاس تھا، وہ مال غنیمت میں شامل کرلیا گیا ہے۔میرے پاس فدیے کے لیے کچھ نہیں بچا،میں کہاں سے ادا کروں؟ یہ سن کرحضورﷺ نے ارشاد فرمایا:اے چچا!جب آپ مکہ سے چلے تھے تو آپ نے کچھ مال میری چچی ام فضل کے سپرد کیا تھا۔یہ ایسی بات تھی جس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ چنانچہ حضورﷺ کی اس بات سے متاثر ہو کر عباس، عقیل اور نوفل نے اسلام قبول کرلیا۔
مدینہ کو واپسی اور مال غنیمت:
حضورﷺ فتح کے بعد تین دن تک بدر میں قیام فرمایا پھر تمام اموال غنیمت اور کفار قیدیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب وادی صفرا میں پہنچے تو اموال غنیمت کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرمایا۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زوجہ حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو حضورﷺ کی صاحبزادی تھیں جنگ بدر کے موقع پر بیمار تھیں اس لئے حضورﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صاحبزادی کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں رہنے کا حکم دے دیا تھا اس لئے وہ جنگ بدر میں شامل نہ ہو سکے مگر حضورﷺ نے مال غنیمت میں سے ان کو مجاہدین بدر کے برابر ہی حصہ دیا اور ان کے برابر ہی اجر و ثواب کی بشارت بھی دی اسی لئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اصحاب بدر کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔
اسلام اور کفر کی اس جنگ کے بعد اکثر قبائل عرب بھی مسلمانوں کی طاقت و قوت کا لوہا ماننے لگے اور مسلمانوں سے خائف رہنے لگے۔ مجموعی طور پر قریش کی طاقت کو بے حد ٹھیس پہنچی۔ عتبہ بن ربیعہ اور ابو جہل کی موت سے قریش کی طاقت کا معیار گھٹ گیا، جس کے بعد پھر قریش کی قیادت کا تاج ابو سفیان کے سر پر رکھا گیا۔ قریش کم زور ہو جانے کے باوجود مسلمانوں پر بار بار حملے کرتے رہے، ان ہی نتائج کی بنا پر بدر کو غزوات کی پوری تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔