بدایوں جامع مسجد اور نیل کنٹھ مہادیو مندر کا تنازعہ

تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ گیاویؔ
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ،ملاپورم ،کیرالا
آئے دن ہندوستان بھر میں مسجد مندر تنازعات دیکھنے کو مل رہا ہے اور یکے بعد دیگر مساجد و معابد کو مہندم اور مسمار کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ابھی ہم مسلمانوں کا درد کم بھی نہیں ہوا تھا کہ ہندو شر پسند عناصر نے بدایوں میں موجود سالوں پرانی اور قدیم مسجد پر حملہ بول دیا ۔سنبھل کے شہیدوں، اجمیرشریف کے غریبوں اور بہرائچ کے مظلوموں کا غم اور درد سینے میں لیے بیٹھے تھے کہ بدایوں کی جامع مسجد کے بارے میں ہندو مہا سبھا نے عدالت میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ تاریخی مسجد اصل میں نیل کنٹھ مہادیو مندر تھی، جسے مسلمان حکمرانوں نے تباہ کرکے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہاں موجود ستون، مورتیوں کے نشانات اور ایک زیر زمین سرنگ اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہ جگہ کبھی ہندو عبادت کے لیے مخصوص تھی۔ مزید یہ کہ ہندو مہا سبھا نے یہ بھی کہا ہے کہ قطب الدین ایبک کے دور میں مندر کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق گزٹ کے پرانے ریکارڈز اور کچھ دیگر تاریخی حوالہ جات بھی ان کے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔ عدالت میں انہوں نے اس جگہ پر دوبارہ پوجا کرنے کی اجازت طلب کی ہے اور اس معاملے کو مذہبی آزادی کے حق کے طور پر پیش کیا ہے۔ مجھے سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ان شر پسند ہندو عناصر کو کیوں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا ملک ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے جس میں ہر کسی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق ہے اور اگر کوئی تیسرا مداخلت کرتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہوگا ساتھ ہی سارے مذاہب کے پیروکاروں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عبادت گاہوں کی حفاظت کرے اور۱۹۹۱ عبادت گاہ ایکٹ کے مطابق کسی بھی مسجد یا کسی بھی مندر کو منہدم کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اوردفعہ۲۵ میں یہ باضابطہ لکھاہوا ہے کہ ہر مذہب خود میں ممتاز ہے اور اس کے پیروکار بھی اپنے مذہب کے اصول و ضوابط کی روشنی میں عبادت و ریاضت کا پورا حق رکھتے ہیں ۔ پھر یہ ایک طرفہ قانون سازی کیو ں ہو رہی ہے ؟کیوں صرف مسلمانوں کی تعمیر شدہ مساجداور مزاروں کو نشانہ بنایا جا رہاہے ؟
بدایوں جامع مسجد انتظامیہ نے ہندو فریق کے دعوے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد اور غیر مستند قرار دیا ہے۔ ان کے وکیلوں نے تاریخی دستاویزات اور شواہد پیش کیے ہیں، جن کے مطابق جامع مسجد سلطان شمس الدین التمش نے تعمیر کروائی تھی اور یہ کئی صدیوں سے مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ مسجد انتظامیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جامع مسجد محکمہ آثار قدیمہ کے قومی ورثے کے طور پر رجسٹرڈ ہے، اور اس کی ملکیت پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مسجد کئی سو سال سے مسلمانوں کے زیر استعمال ہے اور ہندو فریق کے دعوے تاریخی حقیقتوں کو جھٹلاتے ہیں۔ عدالت میں مسلم کمیٹی کے وکلاء نے اس دعوے کو سیاسی اور مذہبی ماحول کو خراب کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے ۔
یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور عدالت نے دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد مزید سماعت کے لیے وقت مقرر کیا ہے۔ اس دوران جامع مسجد کے حوالے سے قانونی اور مذہبی پہلوؤں پر مزید شواہد کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ اس تنازعے نے بدایوں میں مذہبی ہم آہنگی کے مسائل کو اجاگر کیا ہے اور یہ تنازعہ بھارتی عدالتوں میں ایسے دیگر مقدمات کی طرح ایک اہم مثال بن سکتا ہے۔ یہ مسئلہ بھارت میں کئی دیگر تاریخی عمارتوں کے حوالے سے جاری تنازعات کی ایک کڑی ہے، جہاں مذہبی بنیادوں پر تاریخی عمارتوں کی ملکیت اور حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس تنازعے نے بدایوں کے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور سماجی تناؤ میں اضافہ کیا ہے۔
بدایوں کی تاریخی جامع مسجد، جسے مسلمان سات صدیوں سے اپنی عبادت گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، آج ہندو مہا سبھا کے دعوے کا نشانہ بن چکی ہے۔ ان کے مطابق، یہ مسجد دراصل نیل کنٹھ مہادیو مندر تھی، جسے مبینہ طور پر قطب الدین ایبک کے دور میں منہدم کرکے مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ یہ دعویٰ صرف بدایوں تک محدود نہیں بلکہ اجمیر ،سنبھل اور دہلی (جامع مسجد) جیسے دیگر شہروں میں بھی ہندو شدت پسند تنظیموں نے اسی قسم کے دعوے کیے ہیں۔
یہ الزامات مذہبی ہم آہنگی کو ختم کرنے اور مسلمانوں کے خلاف فسادات کو ہوا دینے کی ایک سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتے ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت، جو ملک میں سیاسی طاقت رکھتی ہے، اس مسئلے پر خاموش ہے۔ ان کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ یا تو ان دعوؤں سے متفق ہیں یا جان بوجھ کر ان اقدامات کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اور ملک بھر میں نفرت کی آگ بھڑ کا رہے ہیں لیکن انہیں یہ زیب نہیںدیتا ہے کہ بابا صاحب امبیڈر کی توہین کریں اور ان کے بنائے ہوئے قانون کی پامالی کریں۔ ہندوتوا تنظیموں کا یہ ایجنڈا صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے تک محدود نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی طور پر کمزور کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ بدایوں، اجمیر، اور سنبھل جیسے معاملات مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں، جو انہیں ان کی مذہبی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش کا ایک واضح اشارہ دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس خطرے کا مقابلہ اتحاد اور تنظیم کے ساتھ کریں۔ ان کے پاس عدالت میں مضبوط شواہد موجود ہیں جو ان دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی سماجی اور سیاسی طاقت کو بھی مضبوط کرنا ہوگا۔ ان مسائل کے خلاف مؤثر طریقے سے آواز اٹھانے کے لیے دانشورانہ بحث، قانونی چارہ جوئی، اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا انتہائی اہم ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے بھارت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسلاموفوبیا کی یہ آگ ملک کی مجموعی ہم آہنگی کو جلا سکتی ہے، جس سے ہر شہری متاثر ہوگا۔ اس لیے اس مسئلے کا حل اتحاد، شعور، اور انصاف کی مضبوط بنیادوں پر ہونا چاہیے تاکہ ہمارا ملک تمام فتنوں سے محفوظ ہو سکے اور ہر ہندوستان خود کو آزاد محسوس کرے ۔
الغرض میں اتنا کہوں گا کہ بدایوں جامع مسجد اور دیگر تاریخی عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے ہندوتوا دعووں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کو منظم اور متحد اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، مسلمانوں کو اپنی کمیونٹی میں شعور بیدار کرنا ہوگا۔ یہ شعور پیدا کریں کہ ایسے تنازعات مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے لیے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں، مساجد، اور سماجی پلیٹ فارمز پر ایسے موضوعات پر کھل کر بات کریں تاکہ عوامی رائے کو مضبوط کیا جا سکے۔دوسرا حل قانونی طور پر مضبوطی سے کھڑا ہونا ہے۔ جامع مسجد جیسے تاریخی مقامات کی حفاظت کے لیے قابل وکلاء کی ٹیم بنائیں، جو عدالت میں ان دعووں کا مدلل اور تاریخی شواہد کے ساتھ جواب دے سکیں۔ ان معاملات میں ثابت قدمی اور صبر کے ساتھ قانونی جنگ لڑنا ضروری ہے۔تیسرا، دیگر مذاہب کے ان رہنماؤں اور تنظیموں کے ساتھ رابطے قائم کریں جو مذہبی ہم آہنگی کے حامی ہیں۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر اقوام کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیں، تاکہ فرقہ وارانہ تنازعات کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ یہ جدوجہد صرف ایک کمیونٹی کی نہیں بلکہ بھارت کے تمام امن پسند شہریوں کی ہے۔
یاد رکھیں، ان مسائل کا سب سے مضبوط حل کمیونٹی کا اتحاد، تعلیمی شعور، اور قانونی عمل ہے۔ یہی اقدامات مسلمانوں کو نہ صرف اس تنازعے سے نکال سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں اس طرح کے مسائل سے محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp