انسانیت کا جذبہ ہر مذہب سے بلند ہے صاحب!

تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ،ملاپورم ،کیرالا
ہندوستان ہمیشہ سے محبت، بھائی چارے، ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کی مثال رہا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں مختلف مذاہب، ذاتوں اور ثقافتوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون سے رہتے ہیں۔ یہ روایت ہماری تاریخ کا حصہ ہے، جس پر ہم فخر کرتے ہیں اور جس کی مثالیں آج بھی ہمیں ملک کے مختلف حصوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اگرچہ سماج میں نفرت کی سیاست اور فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود ملک کی اکثریت محبت، امن، اور بھائی چارے کو ترجیح دیتی ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنی زندگی میں سکون چاہتے ہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کی اصل طاقت ہیں، جو اتحاد اور انسانیت کی بنیاد پر معاشرے کو جوڑتے ہیں۔ نفرت پھیلانے والے افراد کے برعکس، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے والے افراد انسانیت کو سب سے اوپر رکھتے ہیں۔ ان کے لیے مذہب، ذات پات یا برادری کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو قریب لانا اور معاشرے میں امن قائم کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنی زندگی کے ذریعے ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔
ملک میں جتنی نفرت کی سیاست ہوتی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ محبت اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے کام ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ چاہے وہ قدرتی آفات ہوں، سماجی مسائل ہوں یا روزمرہ کی مشکلات، ہر موقع پر لوگ مذہب اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے جذبے کے تحت ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہی محبت اور بھائی چارہ ہماری پہچان ہیں۔ یہ نہ صرف ملک کے اتحاد کو مضبوط بناتے ہیں بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں انسانیت سب سے اوپر ہے۔ ایسے لوگوں کی کوششوں کی وجہ سے ملک میں آج بھی انسانیت زندہ ہے، اور یہی لوگ ہمارے معاشرے کی اصل روح ہیں۔
ہندوستان ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ محبت، بھائی چارے اور انسانیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں ایسے بے شمار واقعات نظر آتے ہیں، جہاں لوگ مذہب اور ذات پات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ مسجد اور مندر کی تعمیر کے لیے زمین عطیہ کرتے ہیں یا ان کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بعض افراد دوسرے مذاہب کی غریب بیٹیوں کو اپنی بہن سمجھ کر ان کی شادی ان کے مذہبی رسوم کے مطابق کراتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ بے سہارا افراد کے آخری رسوم بھی ان کے مذہب کے اصولوں کے تحت ادا کرتے ہیں۔ یہ سب مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانیت کا جذبہ ہر مذہب سے بلند ہے۔
کورونا کے دور میں، جب لوگ بے یارومددگار ہوگئے تھے، انسانیت کی ایسی مثالیں بڑی تعداد میں دیکھنے کو ملیں۔ کچھ لوگوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر دور دراز علاقوں تک پہنچ کر لاشوں کے آخری رسوم ادا کیے۔ انہوں نے یہ کام کسی مذہبی تعصب کے بغیر کیا، اور اس جذبے کو معاشرے نے دل سے سراہا۔ ان کی خدمات کا پیغام پورے ملک میں پھیل گیا، اور انہوں نے ثابت کیا کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ بہار کے ضلع کٹیہار میں پیش آیا، جہاں ہندو کمیونٹی کے نوجوانوں نے ایک غریب مسلم لڑکی کی مدد کی۔ انہوں نے نہ صرف اس کی شادی ایک مسلم لڑکے کے ساتھ دھوم دھام سے کرائی بلکہ اس پورے عمل میں انسانیت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ یہ واقعہ نہ صرف کٹیہار بلکہ پورے ملک میں موضوع بحث بن گیا اور سب نے اس اقدام کو خوب سراہا۔یہ تمام مثالیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ انسانیت کا پیغام سب سے بلند ہے۔ محبت، بھائی چارہ، اور ایک دوسرے کی مدد ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر ایک مضبوط اور پرامن معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں امن، ہم آہنگی، اور بھائی چارے کا ماحول برقرار ہے۔یہ واقعہ انسانیت اور بھائی چارے کی ایک شاندار مثال ہے، جو سماج میں محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایک غریب مسلم لڑکی، جس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا، اپنی شادی کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کررہی تھی۔ ایسے میں بھولا پاسوان نام کے ایک سماجی کارکن نے آگے بڑھ کر اس کی شادی کی ذمہ داری اٹھائی۔ انہوں نے اس نیک کام کو انجام دیتے ہوئے سماج کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ بھی غریب بیٹیوں کی مدد کے لیے آگے آئیں، تاکہ یہ بیٹیاں اپنے والدین کے لیے بوجھ نہ بنیں۔ بھولا پاسوان کا کہنا تھا کہ انسانیت ہر مذہب سے بلند ہے، اور اس لڑکی کی شادی کرنا ان کے لیے ایک فرض تھا کیونکہ وہ بھی ان کی بیٹی جیسی تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ بھولا پاسوان نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہو، بلکہ اس سے پہلے وہ سماج کی مدد سے چار دیگر غریب مسلم لڑکیوں کی شادیاں کروا چکے تھے، اور یہ سب شادیاں اپنے وقت کی مثالی مثالیں بنیں۔
جب اس غریب مسلم لڑکی کی شادی کا انعقاد ہوا، تو اس میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے لوگ شریک ہوئے۔ یہ منظر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی اتحاد کی ایک خوبصورت تصویر پیش کر رہا تھا، جس نے وہاں موجود ہر شخص کو متاثر کیا۔ کئی لوگوں نے اس موقع پر خود بھی ایسے کام کرنے کی عہد کیا۔عام طور پر شادی ہر جگہ ہوتی ہے، لیکن ایک غریب لڑکی کی شادی اگر دوسرے مذہب کے لوگ کرائیں، تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر جب غریب کی مدد کے لیے مذہب سے اوپر اٹھ کر کئی ہاتھ آگے بڑھتے ہیں، تو وہ شادی امیروں کی بڑی بڑی تقریبات سے کہیں زیادہ شاندار لگتی ہے۔ ایسی شادیوں میں اگرچہ دولت کی نمائش نہیں ہوتی، لیکن محبت، خلوص، اور بھائی چارے کا جو منظر دکھائی دیتا ہے، وہ بہت بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔اس موقع پر غریب لڑکی کے دل میں جو تحفظ اور اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے، اسے وہی سمجھ سکتا ہے جس نے خود تنگ دستی دیکھی ہو۔ یہ جذبہ سماج کے اتحاد اور انسانیت کی جیت کا مظہر ہے، اور یہی وہ اقدار ہیں جو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد ہیں۔
اپنے مفاد یا اپنے مذہب کے لیے کام کرنا ایک عام سی بات ہے، لیکن وہ لوگ جو دوسروں کے لیے بغیر کسی تعصب کے، مذہب سے اوپر اٹھ کر کام کرتے ہیں، حقیقت میں سماج کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد اگرچہ کم ہوتی ہے، لیکن ان کی کوششوں کا اثر نفرت پھیلانے والی سیاست سے کہیں زیادہ گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔ ان کے کام نہ صرف انسانیت کی جیت کا مظہر ہوتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے نیک کاموں کی مخالفت کرنا یا ان پر انگلی اٹھانا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ یہ انسانیت کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہی ہماری گنگا جمنی تہذیب کا حسن ہے، جہاں مختلف مذاہب اور برادریوں کے لوگ محبت اور خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس تہذیب کی بنیاد ہی انسانیت اور بھائی چارے پر رکھی گئی ہے، جو ہر قسم کے نفرت انگیز نظریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میں اس قسم کی پہل کو عام کیا جائے۔ ایسے نیک کام نہ صرف نفرت کی سیاست کا جواب بنتے ہیں بلکہ وہ سماج میں ایسی طاقتوں کو کمزور کر دیتے ہیں جو تقسیم اور تفریق پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ جہاں انسانیت کا جذبہ موجود ہو، وہاں تفرقہ پیدا کرنے والی طاقتیں خود بخود بے اثر ہوجاتی ہیں۔لہٰذا، یہ کہنا بجا ہوگا کہ انسانیت کے فروغ اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے ایسے اقدامات نہایت ضروری ہیں۔ یہ نہ صرف سماج کو مضبوط بناتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور روشن مستقبل کی بنیاد بھی رکھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp