یوم ولادت 10 شوال المکرم 1272ھ
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا فانی میں کچھ ایسی انمول ہستیوں کو بھیجا ہے۔ جنہیں دنیا کبھی ان کےعلمی کارناموں سے یاد کرتی ہے تو کبھی تبلیغی خدمات کی حیثیت سے۔ ان مقدس ہستیوں نے اپنے علم و عمل اور تقوی و پرہیزگاری سے اسلام کی تعلیمات کو عام کیا اورکفر و شرک اور بدعت و خرافات کا قلع قمع کیا۔ اور پوری دنیا میں ہدایت کا چراغ روشن کیا۔ انہیں مقدس ہستیوں میں سے ایک ہستی امام عشق و محبت، مجدد دین و ملت، سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی ہے۔
ولادت با سعادت:
حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 10 شوال المکرم 1272ھ بمطابق 14 جون 1856ء بروز ہفتہ بوقت ظہر، محلہ جسولی بریلی شریف میں ہوئی۔
نام و نسب:
آپ کا نام محمد ہے، جبکہ آپ کے جد امجد حضرت علامہ رضا علی خان علیہ الرحمہ نے احمد رضا تجویز فرمایا اور تاریخی نام المختار(1272ھ) ہوا۔ لقب، اعلیٰ حضرت، والد کا نام مولانا نقی رضا خان ہے۔آپ کا سلسلہ نسب افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغان کے جدامجد قیس عبدالرشید (جنہیں حضورﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضری دے کر دین اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی) کے پوتے شرجنون الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔ گویا آپ ایک صحابی رسولﷺ کی اولاد میں سے ہیں۔ (شاہ احمد رضا خان بڑہیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی،ص35)
آپ کے القابات:
آپ رضی اللہ عنہ کو جن القابات سے یاد فرمایا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔عالم اہلسنت، امام و پیشوا، استاد معظم، سیدنا مرشد، یکتائے زمانہ، ایسے وقت کا یگانہ،صاحب تحقیق و تدقیق و تنفیح، علم و فضل کے دائر کا مرکز، حجۃ اﷲ فی الارض، فخر السلف، بقیۃ الخلف، شیخ الاسلام و المسلمین، مجدد اعظم، شاہ ملک سخن، امام اہلسنت، عظیم العلم، موئید ملت طاہرہ، مجدد ملت حاضرہ محدث بریلوی، فقیہ العصر، سرتاج الفقہاء۔ اعلیٰ حضرت کا لقب آپ کو سید وارث علی شاہ نے دیا تھا۔(چہرہ والضحٰی از مولانا الہی بخش قادری، مطبوعہ غلامان قطب مدینہ، لاہور،ص 105۔سوانح اعلیٰحضرت)
تکمیل تعلیم و فتویٰ نویسی:
آپ رضی اللہ عنہ کی رسم بسم اللہ کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا۔آپ نے چار برس کی ننھی عمر میں ناظرہ قرآن مجید ختم کرلیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہ ربیع الاول شریف کی تقریب میں ایک بہت بڑے اجتماع کے سامنے میلاد شریف کے موضوع پر ایک پر مغز اور جامع بیان کرکے علمائے کرام اور مشائخ عظام سے تحسین و آفرین کی داد وصول کی۔ ابتدائی اردو اور فارسی کی کتب پڑھنے کے بعد میزان و منشعب حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ سے پڑھیں۔ پھر آپ نے اپنے والد ماجد سندالمحققین حضرت مولانا شاہ نقی علی خان رحمہ اللہ سے 21 علوم حاصل کیے۔ان میں سے کچھ رقم قلم ہیں۔علم تفسیر، علم حدیث، علم العقائد و الکلام،علم فلسفہ، کتب فقیہ حنفی و شافعی مالکی و حنبلی، اصولِ فقیہ ، اصول حدیث،علم تکسیر، علم نجوم وغیرہ ۔اور آٹھ سال کی عمر میں آپ نے فن نحو کی مشہور و معروف کتاب ہدایہ النحو کی عربی شرح لکھی۔ شرح چغمینی کا بعض حصہ حضرت علامہ مولانا عبدالعلی رام پوری رحمہ اللہ سے پڑھا۔ ابتدائی علم تکسیر وجفر شیخ المشائخ حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیے۔ علم تصوف کی تعلیم استاذ العارفین مولانا سید آل رسول مارہروی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل فرمائی۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر میں 14 شعبان المعظم 1286ھ،مطابق 19 نومبر 1869ء کو جملہ مروجہ علوم و فنون سے فارغ التصیل ہوئے اور العلماء ورثتہ الانبیاء کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا۔ اسی دن آپ نے رضاعت کے متعلق پہلا فتوی لکھا، جواب بالکل درست تھا، والد ماجد علامہ نقی علی بریلوی نے خوش ہوکر فتوی نویسی کی اجازت دے دی اور مسند افتا پر بٹھا دیا۔ پروفیسر محمود احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: مولانا احمد رضا خاں رحمتہ اﷲ علیہ نے تیرہ سال دس مہینے اور چار دن کی عمر میں ۱۴ شعبان 1286ھ کو اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان کی نگرانی میں فتوی نویسی کا آغاز کیا۔سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتوی نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔ پھر جب 1297ھ میں مولانا نقی علی خان کا انتقال ہو تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتوی نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ آپ کے فتوی کا انداز آپ کے کتب فتوی سے کیا جاسکتا ہے۔
نکاح:
آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح سن 1291ھ میں جناب شیخ فضل حسین صاحب رامپورکی صاحبزادی ارشاد بیگم سے ہوا۔
اولاد:
آپ رضی اللہ عنہ کی 1291ھ میں شادی ہوئی، آپ کے یہاں دو صاحبزادے،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں اور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں علیہماالرحمہ اور پانچ صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔
سفر حج وزیارت:
آپ رضی اللہ عنہ نے ذو الحجہ 1294ھ مطابق دسمبر 1877ء میں پہلی بار زیارت حرمین شریفین اور طواف کعبہ فرمایا۔ اسی موقع پر امام شافعیہ حسین ابن صالح نے آپ کو دیکھ کر فرمایا تھا ’’انی لاجد نوراﷲ من ھذا الجبین‘‘ اور آپ کو سلسلہ قادریہ کی سند اپنے دستخط خاص کے ساتھ عطا فرمائی ،نیز صحاح ستہ کی بھی سند مرحمت فرمائی۔ دوسری بار آپ نے ربیع الاوّل 1324ھ بمطابق اپریل 1906ء کو بارگاہ رسالت میں حاضری دی۔ ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔ اسی دوران بڑے بڑے علماء آپ کی علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر آپ کی نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور آپ کو استاد وپیشوا مانا۔ اس سفر مبارک میں جو تین اہم کارنامے منظر عام پر آئے وہ یہ ہیں ۔ (1) بحالت بیداری حضورﷺ کی زیارت ہوئی۔ (2) 25 ذی الحجہ کو آپ رحمتہ اﷲ نے علماء نجد کی طرف سے حضورﷺ کے علم غیب کے متعلق پانچ سوالات کے جواب میں شدت بخار کے باوجود بغیر کسی کتب کو دیکھے صرف آٹھ گھنٹوں میں عربی زبان کے اندر ایک کتاب موسوم بہ الدولہ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ لکھی،جس پر علماے عرب نے نہ صرف داد سے نوازا بلکہ شریف مکہ نے وہ کتاب سطر بہ سطر لفظ بہ لفظ سماعت کی۔ (3) اور آپ کو علماء عرب نے مجدد ماءۃ حاضرۃ کے لقب سے نوازا۔
بیعت و خلافت:
آپ رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے ہمراہ 1295ھ میں مارہرہ شریف گئے اور وہاں حضرت علامہ مولانا سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ کے پیرومرشد نے بیعت فرماتے ہی آپ کو تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
علوم و فنون میں مہارت :
آپ کو ایک سو پانچ علوم پر مہارت تھی۔ سید ریاست علی قادری صاحب نے اپنے مقالہ امام احمد رضا کی جدید علوم و فنون پر دسترس میں جدید تحقیق و مطالعہ ثابت کیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کو 105 علوم و فنون پر دسترس و مہارت تامہ و کامل حاصل تھی۔
تصانیف:
آپ رضی اللہ عنہ نے تقریباً 50 علوم وفنون پر ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ ان علوم میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ جن کے آپ موجد تھے اور بعض ایسے کہ آپ کے وصال کے بعد اب ان علوم کی ادنی معلومات رکھنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ نیز مختلف فنون کی ڈیڑھ سو کے قریب مشہور کتابوں پر آپ نے حواشی تحریر فرمائے جو کسی طرح بھی مستقل تصانیف سے کم نہیں۔
کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن:
آپ رضی اللہ عنہ کے غلبہ علم کا یہ عالم تھا کہ جب صدرالشریعہ بدرالطریقہ مولانا حکیم محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ مصنف بہار شریعت نے قرآن مجید کے صحیح اردو ترجمہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عرض کی تو اعلیٰ حضرت نے کثیر مشاغل دینیہ کی وجہ سے فرصت نہ پاتے ہوئے فرمایا کہ اتنا وقت تو نہیں لیکن شام میں کاغذ قلم اور دوات لیکر آجایا کریں۔ چنانچہ حضرت صدرالشریعہ حاضر ہوجاتے اور جتنا ممکن ہوتا اعلیٰ حضرت بغیر کسی تفسیر و لغت کے فی البدیہہ ترجمہ ارشاد فرماتے جاتے، جیسے کوئی حافظ قرآن فرفر قرآنی آیات پڑھتا جاتا ہے بعد میں صدرالشریعہ اس ترجمہ کو دیگر تفاسیر سے ملاتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلیٰ حضرت کا یہ فی البدیہہ ترجمہ معتبر تفاسیر کے عین مطابق ہے۔
نعتیہ کلام:
آپ رضی اللہ عنہ نے 1335ھ سے ءتک اردو، فارسی، عربی تین زبانوں میں نعت گوئی و منقبت، قصیدہ نگاری کی۔ آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین جلدوں میں ہے۔پہلی دو جلدیں آپ کی حیات طیبہ میں اور تیسری بعد وفات شائع ہوئی۔ حدائق بخشش اردو نعتیہ شاعری کا ایک انمول تحفہ ہے۔
تقویٰ و پرہیز گاری :
آپ رضی اللہ عنہ کا تقویٰ و پرہیزگاری کا عالم یہ تھا کہ مولانا حسنین رضا خان صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے ہم عمروں سے اوربعض بڑوں کے بیان سےمعلوم ہواکہ وہ بدو (ابتدائے) شعور ہی سے نماز باجماعت کے سخت پابند رہے۔ گویا قبل بلوغ ہی وہ اصحاب ترتیب کے ذیل میں دخل ہوچکے تھے اور وقت وفات تک صاحب ترتیب ہی رہے اور ساتھ ہی محافظت روزہ اور نگاہ کی حفاظت فرمائے۔(سیرت اعلیٰحضرت)
قوت حافظہ:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت حافظہ سے خوب نوازا تھا۔ صرف مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں ایک پارہ حفظ کر لیتے تھے، پھر تراویح میں سنا دیا کرتے تھے اس طرح ایک ماہ میں قرآن مجید مکمل حفظ کرلیا۔
وصال و مدفن:
سرکار اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 25 صفر 1340ھ مطابق 1921 کو جمعہ کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38منٹ پر،عین اذان کے وقت ادھر مؤذن نے حی علی الفلاح کہا اور ادھر امام اہلسنت ولی نعمت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت، مجدد دین وملت، حامی سنت، ماحی بدعت، عالم شریعت، پیرطریقت، باعث خیروبرکت، حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ القاری الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے داعئ اجل کو لبیک کہا۔آپ کا مزار پرانوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔