احتساب: قرض کا مرض

سید واصف اقبال گیلانی
احتساب: قرض کا مرض یا یوں کہیں قرض کا مسئلہ اور اس کے سماجی اثرات ایک ایسا عنوان ہے جو ہمیں قرض کی عدم واپسی کے مسائل اور اس کے وسیع تر اثرات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قرض کا معاملہ صرف مالی لین دین تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک سنگین سماجی اور اخلاقی مسئلہ بن چکا ہے، جو فرد اور معاشرے کے تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔
جب قرض لینے والا اپنے قرض کی واپسی میں تاخیر کرتا ہے یا انکار کرتا ہے، تو اس سے نہ صرف اس کی مالی حالت پر اثر پڑتا ہے بلکہ اس کے اخلاقی و سماجی تعلقات میں بھی شگاف آتی ہے۔ اس مضمون میں ہم قرض کے اس مرض کا تفصیل سے جائزہ لیں گے، اس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے معاشرتی و اخلاقی اقدامات کی ضرورت کیوں ہے۔
قرض کا نظام انسانی سماج کا ایک اہم حصہ رہا ہے، جو ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کی بنیاد پر قائم ہے۔ قرض بنیادی طور پر ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک فرد یا ادارہ کسی دوسرے فرد یا ادارے کو عارضی مالی مدد فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ اپنی اہم ضروریات کو پورا کر سکے۔ اس عمل کا مقصد فوری مالی مشکلات کو حل کرنا ہوتا ہے، اور اس کی واپسی ایک معین وقت اور شرائط کے تحت کی جاتی ہے۔
قرض کا نظام صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے قیام سے لے کر تعلیمی میدان میں طلبہ کی مدد تک، قرض کا نظام معاشرے کے مختلف شعبوں میں ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک نوجوان جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن مالی مسائل کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتا، قرض کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کر سکتا ہے اور بعد میں اپنی زندگی میں خود مختار ہو سکتا ہے۔
تاہم، قرض کا نظام مثبت اور منفی دونوں اثرات رکھتا ہے۔ ایک طرف، یہ ضرورت مند افراد کو سہارا دیتا ہے اور انہیں اپنی زندگی بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف، قرض کے غلط استعمال یا واپسی میں ناکامی نہ صرف قرض خواہ کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہے۔
معاشرتی سطح پر قرض کا ایک مضبوط اور شفاف نظام بہت سی مشکلات کا حل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ نظام تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب اس میں دیانت داری، انصاف اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ قرض کی واپسی کا وعدہ پورا کرنا قرض لینے والے کی اخلاقی ذمہ داری ہے، اور اسی طرح قرض دینے والے کو بھی نرم دلی اور خیرخواہی کے اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
قرض اور اس کی واپسی کا مسئلہ دنیا بھر میں معاشی اور سماجی تحقیق کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ متعدد تحقیقات نے قرض کے لین دین کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، خاص طور پر قرض لینے والے افراد کے رویوں اور ان کے قرض واپس کرنے کے طریقوں پر۔ لٹریچر میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ قرض کے معاملات نہ صرف مالی بوجھ کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ یہ افراد کے اخلاقی اور سماجی تعلقات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
قرض کے موضوع پر مختلف نظریات موجود ہیں، جن میں سب سے اہم وہ ہیں جو اخلاقی ذمہ داری، سماجی تعلقات اور فرد کی ذاتی خود مختاری کو مدنظر رکھتے ہیں۔ قرض کے لین دین کے دوران پیدا ہونے والی مشکلات میں مقروض کی طرف سے قرض واپس کرنے میں تاخیر یا انکار جیسے مسائل زیادہ نمایاں ہیں۔ کئی مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قرض کی عدم ادائیگی نہ صرف مالی مشکلات پیدا کرتی ہے بلکہ یہ معاشرتی بداعتمادی اور رشتہ داریوں میں شگاف بھی ڈالتی ہے۔
اسلامی لٹریچر میں قرض کو نہ صرف مالی امداد کا ذریعہ بلکہ ایک اخلاقی فریضہ سمجھا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں قرضِ حسنہ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جس کا مقصد سود سے پاک اور غیر استحصالی قرضوں کو فروغ دینا ہے۔ اس لٹریچر میں قرض کے لین دین کو ایک دینی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس میں وقت پر قرض واپس کرنے اور نرمی سے قرض وصولنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
غیر اسلامی معاشی نظاموں میں بھی قرض کے حوالے سے مختلف تحقیقی مواد موجود ہے، جس میں قرض کی واپسی کی سست روی کو معاشی بحرانوں کی وجہ سمجھا گیا ہے۔ قرض کی واپسی میں تاخیر یا مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد کے بارے میں کیے گئے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ قرض کی عدم واپسی کی وجہ مالی مشکلات کے علاوہ اکثر افراد کا قرض کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویہ ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر، قرض کے حوالے سے تحقیق نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ قرض لینے اور دینے کے عمل میں ذمہ داری، شفافیت اور باہمی اعتماد کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔ اس مسئلے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ قرض کی واپسی کے طریقوں اور قرض لینے والوں کے رویوں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور معاشرتی سطح پر قرض کے حوالے سے ایک مثبت اور تعمیری ماحول قائم کیا جا سکے۔
قرض کے مسئلے پر تحقیق کرنے والے متعدد مصنفین نے اس کے سماجی اور اخلاقی اثرات کو مختلف زاویوں سے بیان کیا ہے۔ ان تحقیقات میں قرض کی واپسی کی مشکلات، اخلاقی ذمہ داریوں اور سماجی تعلقات پر اثرات کو تفصیل سے اجاگر کیا گیا ہے۔ چند اہم تحقیقات اور مصنفین کی تفصیل درج ذیل ہے:
بانڈ (1999) نے اپنے تحقیقاتی مقالے میں قرض کے تعلقات اور اس کے معاشی اثرات کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرض کی واپسی میں تاخیر نہ صرف مالی مشکلات کو بڑھاتی ہے بلکہ یہ سماجی بداعتمادی کو بھی جنم دیتی ہے، جو معاشرتی تعلقات کو متاثر کرتی ہے۔
ہارٹلی (2005) نے اپنے مطالعے میں قرض کی واپسی میں تاخیر اور اس کے قانونی اثرات پر تفصیل سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرض کی واپسی میں کوتاہی قانونی مسائل کے ساتھ ساتھ فرد کی سماجی حیثیت پر بھی اثر ڈالتی ہے۔
حسین (2010) نے اسلامی قرض کے اصولوں پر تحقیق کی اور بتایا کہ قرضِ حسنہ اسلامی معاشرت میں فرد کی مالی مدد اور اس کی خود مختاری کو فروغ دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ان کے مطابق، قرض کا صحیح طریقے سے واپس کرنا نہ صرف فرد کی ذمہ داری ہے بلکہ یہ معاشرتی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔
بیلچ (2012) نے اپنے مطالعے میں قرض لینے والوں کے اخلاقی رویوں اور قرض کے اثرات پر تحقیق کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرض لینے والوں کا رویہ ان کے معاشرتی تعلقات اور مالی ذمہ داریوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے، اور قرض کی عدم ادائیگی کے سبب ان کے تعلقات میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
عبداللہ (2016) نے اسلامی معاشی نظام میں قرض کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور قرض کے معاملے میں نرمی اور اخلاقی اصولوں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرض کا صحیح طریقے سے واپس کرنا اور قرض دینے والے کی طرف سے تعاون معاشرتی بھلائی کے لیے ضروری ہے۔
ان تحقیقات میں قرض کے لین دین کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرض کی واپسی میں تاخیر یا انکار معاشرتی، اخلاقی اور قانونی سطح پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ تحقیقی کام قرض کے حوالے سے بہتر معاشی اور سماجی پالیسیوں کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
قرض لینا اور واپس کرنا ایک سماجی عمل ہے، مگر بعض اوقات قرض لینے والے مختلف رویے اختیار کرتے ہیں جو نہ صرف قرض خواہ کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں بلکہ سماجی اعتماد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ قرض لینے کے بعد افراد کا چھپنے والا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ قرض لینے کے بعد نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں، ان کے فون بند ہوتے ہیں، اور ملاقات ناممکن ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب، کچھ مقروض ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرض کے ذکر پر فوراً غصے میں آ جاتے ہیں اور بدتمیزی پر اتر آتے ہیں، جس سے معاملہ مزید الجھ جاتا ہے۔
اسی طرح، کچھ مقروض قرض کی بات سن کر موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بات کو ٹالا جا سکے۔ وہ ہر بار نیا موضوع چھیڑتے ہیں اور قرض کی بات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ بعض افراد جھوٹے بہانے بنا کر قرض کی واپسی کو ملتوی کرتے رہتے ہیں، جیسے تنخواہ نہ آنے یا کسی غیر موجودہ مشکل کا ذکر کرنا۔ کچھ لوگ ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اپنی مالی مشکلات کی کہانی سناتے ہیں، حالانکہ ان کی نیت قرض واپس کرنے کی ہوتی ہی نہیں۔
کچھ مقروض خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، نہ وہ قرض واپس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی انکار کرتے ہیں۔ یہ رویہ قرض خواہ کو کشمکش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اسی طرح، کچھ لوگ دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ ‘دوستی میں حساب کتاب نہیں ہونا چاہیے، جو دوستی کے رشتے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
دھوکہ دینے والے مقروض وہ ہوتے ہیں جو واپسی کی جھوٹی تاریخیں دیتے ہیں اور ہر بار نیا بہانہ بناتے ہیں، جس سے قرض خواہ وقت کے دھوکے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بد نیتی سے قرض لینے والے افراد شروع سے ہی اس نیت سے قرض لیتے ہیں کہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ یہ رویے نہایت تکلیف دہ اور غیر اخلاقی ہوتے ہیں۔ اک دلچسپ قسم وہ افراد بھی ہوتے ہیں جو احسان بھی جتاتے ہٰں کہ مجھے تو آپ سے قرض لینا ہی نہیں چاہیئے تھا حالانکہ قرض لیتے وقت بہت مودبانا رویہ ہوتا ہے۔
ان سب کے برعکس، ایک نایاب قسم وہ مقروض ہوتی ہے جو وقت پر اور طے شدہ رقم کے مطابق قرض واپس کرتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اعتماد کو مضبوط کرتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے ایک مثال بھی قائم کرتا ہے۔
مقروض کے یہ رویے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ رویے اعتماد اور اخلاص کو فروغ دیتے ہیں، جبکہ دیگر سماجی تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ قرض دینے اور لینے کے عمل میں ایمانداری اور وعدے کی پاسداری نہایت ضروری ہے۔
قرض اور عطیہ دونوں ہی مالی مدد کے طریقے ہیں، لیکن ان دونوں کے مقاصد اور اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ عطیہ دینا ایک ایسا عمل ہے جس میں مدد دینے والا شخص کسی بدلے کی توقع کیے بغیر اپنی دولت کا کچھ حصہ کسی ضرورت مند کو دیتا ہے۔ یہ زیادہ تر خیرات کے طور پر دیا جاتا ہے اور کسی کی فوری مدد کے لیے ایک وقتی حل فراہم کرتا ہے۔ عطیات کا مقصد سماجی نیکی اور سخاوت کو فروغ دینا ہوتا ہے، اور یہ عام طور پر ان افراد کو دیا جاتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
دوسری جانب، قرض لین دین کا ایک ایسا عمل ہے جس میں مدد لینے والا شخص اس وعدے کے ساتھ رقم وصول کرتا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر اسے واپس کرے گا۔ قرض کے اس وعدے سے نہ صرف مدد لینے والے کی ذمہ داری کا مظاہرہ ہوتا ہے بلکہ اس کے اندر خود انحصاری کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔ قرض کے ذریعے مدد دینے کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت مند کو عارضی طور پر سہارا دیا جائے تاکہ وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکے اور بعد میں اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے۔
عطیات کے برعکس، قرض افراد کو غیر فعال بنانے کے بجائے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتا ہے۔ جب کوئی شخص قرض لیتا ہے اور اسے وقت پر واپس کرتا ہے تو یہ عمل اس کے کردار، دیانت داری اور سماجی ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نہ صرف اس کی مالی حالت کو بہتر بناتا ہے بلکہ معاشرے میں اس کا وقار بھی بڑھاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، عطیہ دینا نیکی کا کام ہے، لیکن ضرورت مند کو قرض دینا زیادہ قابل ترجیح ہے، کیونکہ یہ فرد کو باوقار طریقے سے اپنی مشکلات پر قابو پانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ایک مضبوط قرض کا نظام معاشرے میں انصاف اور خود انحصاری کو فروغ دے سکتا ہے، بشرطیکہ یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو۔
اسلام نے قرض کے لین دین کو ایک مقدس اور ذمہ دارانہ عمل قرار دیا ہے، جس کے لیے سخت اصول و ضوابط وضع کیے گئے ہیں تاکہ اس میں شفافیت اور عدل قائم رکھا جا سکے۔ قرآن و سنت میں بارہا قرض کے معاملات کو دیانت داری اور نیک نیتی کے ساتھ انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرض لینے اور دینے کے لیے نیت کا پاکیزہ ہونا سب سے اہم شرط ہے، کیونکہ اس عمل کا مقصد ضرورت مند کی مدد کرنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔
شریعت کے مطابق، قرض بغیر سود کے دیا جانا چاہیے۔ سود ایک ایسا عمل ہے جسے قرآن پاک میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ آیت 275 میں فرماتے ہیں: حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے۔ سود نہ صرف اخلاقی برائی ہے بلکہ یہ سماجی نابرابری اور استحصال کو فروغ دیتا ہے، اس لیے شریعت میں اسے سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ قرض کے لین دین میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے قرآن نے تاکید کی ہے کہ اسے تحریری طور پر درج کیا جائے اور اس میں گواہ بھی موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے” (سورۃ البقرہ: 282)۔
یہ آیت قرض کے معاملات کو صاف اور واضح رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، تاکہ بعد میں کسی قسم کے تنازعے سے بچا جا سکے۔
قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدد کے دوران خیر خواہی اور صبر سے کام لے، جبکہ قرض لینے والے پر لازم ہے کہ وہ وعدے کے مطابق قرض واپس کرے۔ حدیثِ مبارکہ ہے: “تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بھی سب سے بہتر ہو” (صحیح بخاری: 2393)۔ اسلامی اصول قرض کو صرف مالی معاونت کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی انصاف، دیانت داری اور بھائی چارے کا مظہر بناتے ہیں۔ اس لیے ان اصولوں کی پیروی نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی بھلائی کا سبب بھی بنتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں قرض دینے کو نہایت اجر والا عمل قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے لیے کچھ آداب اور احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ عمل نیکی کے بجائے کسی نقصان یا گناہ کا سبب نہ بنے۔ قرض دینے کا مقصد ضرورت مند کی مدد کرنا ہے، لیکن یہ مدد انصاف، شفافیت اور خیرخواہی کے اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے۔ قرض دینے کی نیت صرف اور صرف اللہ کی رضا اور ضرورت مند کی مدد ہونی چاہیے۔ اس عمل کو ذاتی مفاد، نام و نمود یا کسی دباؤ کے تحت نہیں کرنا چاہیے۔ قرض دینے کے دوران شرائط کو واضح اور شفاف رکھا جائے، جیسے رقم کی مقدار، واپسی کی مدت، اور طریقہ کار۔
قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ قرض کے معاملات تحریری طور پر درج کیے جائیں (سورۃ البقرہ: 282) تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ قرض دینے والے کو مہربانی سے پیش آنا چاہیے اور واپسی کے وقت قرض خواہ پر دباؤ ڈالنے یا اسے شرمندہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر مقروض کسی مشکل میں ہے اور قرض واپس کرنے سے قاصر ہے، تو اسے مہلت دینا یا قرض معاف کرنا بہتر ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا: “اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اسے خوشحالی تک مہلت دو، اور اگر تم معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔” (سورۃ البقرہ: 280)
قرض دینے میں سود کا لین دین مکمل طور پر حرام ہے۔ سود کے ذریعے ضرورت مند کا استحصال کرنا نہ صرف دینی طور پر گناہ ہے بلکہ سماجی نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔ قرض دینے سے پہلے مقروض کی مالی حالت اور واپسی کی صلاحیت کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ بلا تحقیق قرض دینا نہ صرف قرض خواہ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے بلکہ مقروض کے لیے بھی مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ قرض دینے والے کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی مالی حالت کو متاثر کیے بغیر قرض دے۔
اگر قرض دینے سے وہ خود مشکلات کا شکار ہو جائے تو یہ عمل نیکی کے بجائے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ قرض دینے والے کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس عمل سے مقروض کو شرمندگی یا سماجی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نرمی اور احترام کے ساتھ مدد کریں تاکہ ضرورت مند کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ قرض دینا ایک نیکی کا عمل ہے، لیکن یہ تبھی قابلِ قبول ہے جب اس میں شریعت کے اصولوں اور اخلاقی آداب کا لحاظ رکھا جائے۔ یہ عمل معاشرتی اعتماد کو بڑھاتا ہے اور ایک مضبوط اور منصفانہ معاشرہ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
قرض لینا ایک بڑی ذمہ داری ہے جو مقروض پر کئی اخلاقی اور شرعی فرائض عائد کرتی ہے۔ اسلام میں قرض لینا حلال ہے، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط اور اصول مقرر ہیں تاکہ یہ عمل کسی فریق کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ مقروض پر لازم ہے کہ وہ وعدہ پورا کرے، دیانت داری سے پیش آئے، اور قرض کو وقت پر واپس کرے۔ قرض صرف اس وقت لینا چاہیے جب واقعی ضرورت ہو۔ فضول خرچی یا غیر ضروری مقاصد کے لیے قرض لینا ایک غیر اخلاقی عمل ہے جو نہ صرف مقروض کو مشکلات میں ڈال سکتا ہے بلکہ معاشرے پر بھی بوجھ بن سکتا ہے۔ وعدے کی پابندی ایمان کا حصہ ہے اور مقروض کو چاہیے کہ وہ قرض دینے والے کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی مکمل پابندی کرے اور طے شدہ وقت پر قرض واپس کرے۔ حدیثِ نبوی ﷺ ہے: “مالدار کی طرف سے (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔” (صحیح بخاری، کتاب الاستقراض، باب مطل الغنی ظلم، حدیث نمبر 2400) قرض لینے کے دوران مقروض کو اپنی مالی حالت کے بارے میں صاف گوئی سے کام لینا چاہیے۔ اگر وہ وقت پر قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اسے واضح طور پر قرض خواہ کو آگاہ کرنا چاہیے۔ جھوٹ یا دھوکہ دہی سے گریز کرنا مقروض کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
مقروض کے شرعی فرائض میں سب سے اہم سود سے پرہیز کرنا ہے۔ سودی قرض لینا نہ صرف شریعت کے خلاف ہے بلکہ یہ مالی اور سماجی مسائل کا بھی باعث بنتا ہے۔ شریعت کے مطابق، قرض کی ادائیگی کو دیگر اخراجات پر ترجیح دینی چاہیے، اور مقروض کو اپنی زندگی کے غیر ضروری اخراجات کم کر کے پہلے قرض واپس کرنا چاہیے۔ اگر مقروض واقعی قرض واپس کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ قرض خواہ سے معافی یا مہلت کی درخواست کر سکتا ہے، لیکن یہ درخواست صرف حقیقی مجبوری کی صورت میں کی جانی چاہیے۔
قرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ صرف مالی نقصان کا سبب بنتی ہے بلکہ یہ گناہ کا باعث بھی ہے۔ حدیثِ نبوی ﷺ ہے: “ہر قرض دار قیامت کے دن اپنے قرض کے ساتھ پیش ہوگا” (مسند احمد) ۔ قرض لینا ایک بڑی ذمہ داری ہے، اور اس کی دیانت داری سے ادائیگی نہ صرف مقروض کے لیے باعثِ برکت ہے بلکہ یہ معاشرتی انصاف اور اعتماد کے فروغ کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔
قرض کی واپسی میں تاخیر ایک ایسا عمل ہے جو انفرادی، سماجی، اور اخلاقی سطح پر متعدد منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف قرض دینے والے کو مالی نقصان پہنچاتا ہے بلکہ مقروض کے کردار اور سماجی حیثیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اسلام میں وعدہ خلافی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے، اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر کو وعدہ خلافی اور ظلم کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
قرض دینے والا، جو نیک نیتی اور خیرخواہی کے جذبے کے تحت مدد کرتا ہے، جب طے شدہ وقت پر رقم واپس نہیں ملتی تو اس کے اعتماد کو دھچکہ لگتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف اس کے مالی معاملات کو متاثر کرتی ہے بلکہ اسے دوسروں کی مدد کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار بھی بنا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں یہ خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ ضرورت مندوں کی مدد سے انکار کر دے، جس کا منفی اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔
مقروض کے لیے قرض کی واپسی میں تاخیر کا عمل اس کے کردار اور اخلاقیات پر سوال اٹھاتا ہے۔ وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور معاشرے میں اپنی ساکھ کو خراب کرتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وعدہ پورا کرنا ایمان کی علامت ہے، اور اس کی خلاف ورزی مقروض کو گناہگار بناتی ہے۔ قرض کی تاخیر کے اثرات صرف انفرادی سطح پر محدود نہیں رہتے بلکہ پورے سماج میں بداعتمادی اور استحصال کو جنم دیتے ہیں۔ جب قرض کی واپسی کا رجحان کمزور پڑتا ہے تو یہ نظامِ معیشت کو متاثر کرتا ہے اور مالی بے انصافی کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، مقروض کے اندر احساسِ جرم اور ذہنی دباؤ بھی پیدا ہو سکتا ہے، جو اس کی زندگی کے دیگر شعبوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
لہٰذا، ضروری ہے کہ قرض لینے والا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے مقررہ وقت پر قرض کی واپسی کرے۔ یہ نہ صرف اس کے کردار کی مضبوطی کا مظہر ہوگا بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی فروغ دے گا۔ قرض کی واپسی کو معمولی یا ثانوی حیثیت دینا دراصل ایک اخلاقی اور سماجی جرم ہے جس سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے۔
قرض نہ لوٹانا نہ صرف ایک مالی مسئلہ ہے بلکہ اس کے سنگین اخلاقی اور سماجی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ یہ عمل ایک فرد کی دیانت داری اور امانت داری کو ختم کر دیتا ہے اور اسے دوسروں کی نظر میں ناقابلِ اعتبار بنا دیتا ہے۔ اسلام میں قرض کی واپسی کو ایک مقدس ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، اور اس کی خلاف ورزی کو گناہ کہا گیا ہے۔ اخلاقی لحاظ سے، قرض نہ لوٹانے والا شخص اپنی ذات پر سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔ وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ ظلم نہ صرف قرض دینے والے کے حقوق کو پامال کرتا ہے بلکہ مقروض کو بھی گناہگار بناتا ہے۔ اس کا یہ عمل اس کے اندر خود اعتمادی کی کمی اور سماجی ذمہ داریوں سے لاپرواہی کے رجحان کو بڑھاتا ہے۔
سماجی سطح پر، قرض نہ لوٹانے کا رویہ معاشرتی اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ جب ایک شخص قرض واپس نہیں کرتا، تو اس کے اثرات صرف قرض خواہ تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے سماج پر پڑتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اور قرض دینے کا رجحان کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ عمل سماجی تعاون کے تصور کو ختم کر دیتا ہے اور انفرادی خود غرضی کو فروغ دیتا ہے۔ معاشرتی قیمت کے علاوہ، قرض نہ لوٹانے والے افراد کی اپنی زندگی بھی مشکلات سے بھر جاتی ہے۔ ان کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، اور ان پر مالی دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان کا ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے، اور وہ احساسِ جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسے افراد کے لیے قانونی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جو ان کی زندگی کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
قرض لوٹانا صرف ایک مالی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ اس کی خلاف ورزی نہ صرف انفرادی نقصان کا باعث بنتی ہے بلکہ پورے سماج کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے قرض کی واپسی کو یقینی بنائے اور دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔
اسلام میں قرض کی معافی کو ایک اعلیٰ اور پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو قرض کی ادائیگی سے قاصر ہوں۔ قرآن اور حدیث میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرض دینے والا اگر اپنے مقروض کو معاف کر دے یا اسے ادائیگی کے لیے مہلت دے تو یہ نہایت عظیم اجر کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: “اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اسے خوشحالی تک مہلت دو، اور اگر تم معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔” (سورۃ البقرہ: 280) قرض کی معافی کا مقصد ضرورت مند کو اس کے مالی بوجھ سے نجات دلانا اور اس کی زندگی میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ یہ عمل صرف مالی مدد نہیں بلکہ ایک اخلاقی و روحانی تربیت کا ذریعہ بھی ہے، جو فرد کو دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور رحم دلی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اسلامی معاشرت میں قرض کی معافی کو سماجی انصاف اور بھائی چارے کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل غریب اور ضرورت مند افراد کو عزت اور وقار کے ساتھ اپنی زندگی بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “جو شخص کسی مقروض کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے، اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا۔” (مسند احمد) قرض کی معافی کا تصور انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھلائی اور خیر خواہی کو فروغ دیتا ہے۔
یہ عمل نہ صرف قرض دینے والے کو روحانی سکون فراہم کرتا ہے بلکہ مقروض کو ایک نئی شروعات کا موقع دیتا ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ مقروض بھی اس احسان کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرے اور آئندہ مالی معاملات میں احتیاط برتے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، قرض کی معافی ایک نیکی کا عمل ہے، لیکن یہ ذمہ داری مقروض پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق قرض کی واپسی کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اس طرح کا متوازن رویہ ہی ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔
اسلام میں قرض کے معاملات کو محض مالی لین دین کا مسئلہ نہیں سمجھا گیا، بلکہ اسے اخلاقی اور دینی فریضہ قرار دیا گیا ہے، جو مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں شفافیت اور اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کی آیت 282 میں اس حوالے سے جو ہدایات دی گئی ہیں، وہ دنیا کا سب سے طویل اور جامع معاہدہ تحریری اصول کے طور پر درج ہے، جس میں قرض کے معاہدے کو تحریری شکل دینے، گواہوں کی موجودگی یقینی بنانے، اور تمام معاملات میں مکمل شفافیت اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ آیت صرف قانونی حکم نہیں بلکہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے، جو معاشرتی انصاف اور بھائی چارے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
قرض کے لین دین میں سب سے بنیادی اور اہم اخلاقی اصول وعدے کی پاسداری ہے۔ اسلام میں وعدے کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے، اور نبی کریم ﷺ نے وعدہ خلافی کو منافقت کی علامتوں میں سے ایک گردانا ہے۔ اس لیے جو شخص قرض لیتا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ وقت پر اور مکمل طور پر قرض واپس کرے، کیونکہ یہ نہ صرف ایک دینی حکم ہے بلکہ اس کے ذریعے اس کے معاشرتی تعلقات اور ذاتی وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ وقت پر قرض کی واپسی اعتماد کا مظہر ہے اور اسلامی معاشرت میں یہی رویہ خوشحالی اور بھائی چارے کی بنیاد رکھتا ہے۔
قرض دینے والے کے لیے اسلام نے احسان کے اعلیٰ معیار مقرر کیے ہیں۔ اگر کوئی مقروض مالی مشکلات کا شکار ہو تو قرض خواہ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مہلت دے یا حتیٰ کہ قرض کا کچھ حصہ معاف کر دے۔ یہ عمل نہ صرف صدقہ کے مترادف ہے بلکہ اس سے سماج میں رحم دلی اور سخاوت کی روایات کو فروغ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: “اور اگر تم معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔” (سورۃ البقرہ: 280) اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ قرض دینے اور لینے کے عمل میں دونوں فریق اپنے کردار کو ذمہ داری اور احسان کے ساتھ نبھائیں۔
اسلامی تعلیمات قرض کے معاملات میں جھوٹ، دھوکہ دہی، اور استحصال کو سختی سے ممنوع قرار دیتی ہیں۔ سود کی شکل میں مقروض کی مشکلات میں اضافہ کرنا یا اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا ظلم کے زمرے میں آتا ہے، جو اسلام میں ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہے۔ اسی طرح، مقروض کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرض لیتے وقت اپنی حقیقی مالی استطاعت کو مدنظر رکھے اور صرف اس حد تک قرض لے جو وہ واپس کر سکتا ہو۔ قرض لینا ایک بھاری ذمہ داری ہے، اور اس کے صحیح استعمال سے نہ صرف مالی توازن قائم رہتا ہے بلکہ دینی اصولوں کی پاسداری بھی ممکن ہوتی ہے۔
اسلامی اصولوں کے مطابق قرض کے معاملات کو بہتر طریقے سے انجام دینے کا مقصد صرف مالی مسائل کو حل کرنا نہیں بلکہ روحانی اور معاشرتی فوائد بھی حاصل کرنا ہے۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے جہاں ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔ ایسے معاشرے میں اعتماد اور انصاف کا بول بالا ہوتا ہے، اور افراد کے درمیان بھائی چارہ اور محبت فروغ پاتے ہیں، جو حقیقی اسلامی سماج کا عکس ہے۔
**قرض: مالی ضرورت سے سماجی بھلائی تک**
قرض صرف ایک مالی معاونت کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی بھلائی کے فروغ کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ اسلامی تعلیمات قرض کو ضرورت مندوں کی مدد کے ایک عظیم ذریعہ کے طور پر دیکھتی ہیں، جو معاشرتی ہمدردی اور بھائی چارے کو مضبوط کرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے قرض کے معاملے میں نرمی کی تعلیم دی اور فرمایا: *”اللہ اس بندے پر رحم کرے جو خرید و فروخت، قرض لینے اور قرض دینے میں نرمی اختیار کرے۔”* (صحیح بخاری)۔ یہ تعلیمات ہمیں قرض کو نہ صرف ضرورت کے وقت ایک ذریعہ سمجھنے بلکہ سماجی اعتماد اور ہمدردی کے فروغ کے لیے بھی اہمیت دینے کا درس دیتی ہیں۔
جب کوئی شخص ضرورت مند کو قرض دیتا ہے، تو یہ عمل صرف مالی مدد تک محدود نہیں رہتا بلکہ مقروض کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ قرض ایک ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جو فرد کو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود مختار بننے کا موقع فراہم کرے۔ اسلامی معاشرت میں زکوٰۃ اور صدقہ کی طرح قرض بھی ایک اہم سماجی ذریعہ ہے، لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فرد کو ایک مستقل حل فراہم کرتا ہے، جہاں وہ اپنی مالی مشکلات کو حل کرتے ہوئے خود کفالت کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ قرض کا یہ پہلو معاشرتی استحکام اور باہمی ہمدردی کو فروغ دیتا ہے۔
اسلام میں قرضِ حسنہ، یعنی سود سے پاک قرض، کو سماجی بھلائی کا ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ قرض نہ صرف مقروض کے مالی بوجھ کو کم کرتا ہے بلکہ اسے اپنی زندگی میں بہتر فیصلے کرنے اور استحکام حاصل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ قرضِ حسنہ کا تصور اسلامی بینکنگ اور معیشت میں نمایاں اہمیت رکھتا ہے، جہاں مالی معاونت کو استحصال کے بجائے تعاون اور ہمدردی کے اصولوں پر استوار کیا جاتا ہے۔ یہ تصور نہ صرف افراد کے درمیان مالی تعلقات کو بہتر بناتا ہے بلکہ معاشرتی توازن اور انصاف کو بھی یقینی بناتا ہے۔
قرض لینا اور واپس کرنا صرف ایک مالی معاملہ نہیں بلکہ دینی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ قرآن و سنت نے قرض کے اصول واضح کیے ہیں تاکہ اس عمل کو شفاف اور منصفانہ بنایا جا سکے۔ مقروض کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت پر قرض واپس کرے اور قرض خواہ نرمی اور تعاون کا مظاہرہ کرے۔ اگر دونوں فریق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو یہ عمل ایک مضبوط اور ہمدرد معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
قرض کی واپسی میں تاخیر یا جان بوجھ کر انکار ایک سنگین مسئلہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے وعدہ خلافی کو منافقت کی علامت قرار دیا ہے اور مقروض پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ قرض کی واپسی میں کوتاہی قرض خواہ کے لیے مالی نقصان اور مقروض کے لیے اخلاقی گراوٹ کا باعث بنتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف سماجی بداعتمادی پیدا کرتا ہے بلکہ اللہ کی ناراضگی کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس، وہ افراد جو طے شدہ وقت پر قرض واپس کرتے ہیں، دوسروں کے اعتماد کو بحال کرتے ہیں اور اللہ کے انعام کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات قرض کے لین دین میں عدل و انصاف کی تلقین کرتی ہیں۔ قرض خواہ کو چاہیے کہ وہ مقروض کو مہلت دے یا کسی ناگزیر صورتحال میں معاف کر دے، کیونکہ اس عمل پر قیامت کے دن عظیم اجر کا وعدہ ہے۔ دوسری جانب، مقروض کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور قرض کی بروقت واپسی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ یہ سلسلہ خیر جاری رہے اور دوسرے ضرورت مند بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔
معاشرتی بھلائی کے لیے ضروری ہے کہ قرض کے معاملات میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے۔ بے جا قرض لینے یا قرض کو عادت بنانے کے بجائے اسے صرف حقیقی ضرورت کے تحت استعمال کیا جائے۔ قرض کی شفافیت، نرمی اور ایمانداری کو فروغ دینے سے نہ صرف مالی مسائل حل ہوں گے بلکہ معاشرتی رشتے بھی مضبوط ہوں گے۔ ہمیں قرض کو صرف ایک مالی لین دین کے بجائے دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھنا ہوگا تاکہ یہ عمل ہمارے دنیاوی اور اخروی معاملات کو بہتر بنا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp