اجمیر شریف کا سانحہ: کیا ہم بطورِ مسلمان ناکام ہو رہے ہیں ؟

تحریر:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپورم، کیرالا
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت ان کے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں مسلسل ایسی درخواستیں دی جارہی ہیں جن میں مختلف مساجد کے نیچے مندروں کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالتیں ان درخواستوں کو فوری سماعت کے لیے منظور کر رہی ہے اور فیصلے بھی تیزی سے صادر کیے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک کے سامنے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، جبکہ سماج کو درپیش حقیقی مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہیں فرقہ وارانہ فساد اور کشیدگی کی ایک مثال درگاہ اجمیر شریف کا دنگا ہے۔ مسلمان جو اپنی مذہبی، سماجی اور اخلاقی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں، انہیں اس سانحہ کے پس منظر میں اپنے رویوں اور عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں ہونے والی دہشت گردی کی واردات نے مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا کر رکھ دیا ہے۔ اس سانحے کے بعد ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایسے واقعات کو روکنے میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟
ویسے درگاہ اجمیر شریف ہندوستان کا ایک مشہور و معروف روحانی مرکز ہے، جہاں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک واقع ہے۔ یہ مقدس مقام لاکھوں عقیدت مندوں کے لیے روحانی سکون اور برکت کا ذریعہ ہے۔ اس درگاہ کی تاریخی اہمیت بے حد قابلِ ذکر ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ 12ویں صدی عیسوی میں اجمیر تشریف لائے۔ آپ نے اپنی تعلیمات، محبت اور حسنِ سلوک کے ذریعے مقامی معاشرے کو امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ آپ کی شخصیت اور تعلیمات نے ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگوں کو متاثر کیا اور ایک روحانی انقلاب کا آغاز کیا۔
آپ کے وصالِ مبارک (1236ء) کے بعد یہاں آپ کا مزار تعمیر کیا گیا، جس کی تعمیر مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے کی۔ خاص طور پر مغل بادشاہوں نے درگاہ کی خوبصورتی اور شان میں اضافہ کیا۔ درگاہ کا فنِ تعمیر اسلامی اور ہندی ثقافت کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ درگاہ کے گنبد، داخلی دروازے اور سنگ مرمر سے بنی عمارتیں اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے ۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں بلکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے عقیدت کا مرکز ہے، جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی تعلیمات کی عالمگیر مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے۔ درگاہ اجمیر شریف محبت، اتحاد اور روحانیت کا ایک درخشاں مرکز ہے، جو لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع اور امن کا درس دیتا ہے۔ اس تاریخی مقام کی زیارت کرنے والے ہر زائر کی دل کی گہرائیوں میں ایک خاص جذباتی لگاؤ اور سکون محسوس ہوتا ہے۔
درگاہ اجمیر شریف صدیوں سے امن، محبت اور بھائی چارے کا ایک عظیم مرکز رہا ہے، جہاں ہر مذہب اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی دعائیں اور سکون کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ مقام حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی تعلیمات کا مظہر ہے، جنہوں نے اپنی محبت اور تعلیمات کے ذریعے معاشرے میں یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ درگاہ پر روزانہ ہزاروں افراد کے لیے لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں بلا تفریق مذہب و ملت تمام زائرین کو کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خدمتِ خلق کا ایک روشن نمونہ ہے، جو حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے پیغامِ محبت اور انسانیت کی عملی تصویر ہے۔ یہ عمل نہ صرف ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے بلکہ انسانوں کے درمیان محبت اور اخوت کے جذبات کو بھی تقویت دیتا ہے۔
درگاہ اجمیر شریف کا روحانی فیض نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہر سال 6 رجب المرجب کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کی تقریبات منعقد کی جاتی ہے، جہاں لاکھوں زائرین جمع ہو کر عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان تقریبات میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک سے بھی زائرین شرکت کرتے ہیں، جو اس مقام کی عالمی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ عرس کے موقع پر خصوصی دعائیں، نعت خوانی، اور قوالی کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، جو زائرین کے لیے روحانی سکون اور برکت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ درگاہ اجمیر شریف کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں ہر مذہب، ہر نسل اور ہر طبقے کے لوگ بلا جھجک آتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل اور روحانی تسکین کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس درگاہ کی فضا محبت، بھائی چارے اور روحانیت سے معمور ہے، جو ہر زائر کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔
تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو درگاہ اجمیر شریف صرف ایک مزار نہیں بلکہ امن، محبت اور انسانیت کا ایک عظیم مرکز ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے اور ان کی روشنی میں یہ درگاہ خدمتِ خلق اور انسانیت کے لیے ایک مثالی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ مقام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا پیغام محبت اور خدمت ہے، اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک بہتر اور پرامن دنیا تعمیر کی جا سکتی ہے۔ درگاہ اجمیر شریف آج بھی ان اصولوں کا عملی مظہر ہے جو انسانوں کو امن، محبت، اور یکجہتی کی جانب دعوت دیتی ہے۔
حال ہی میں اجمیر شریف میں ہونے والے دنگا اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعے نے اس مقدس مقام کی روحانی اور سماجی اہمیت کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ درگاہ اجمیر شریف، جو صدیوں سے امن، محبت اور یکجہتی کا مرکز رہا ہے، میں ہونے والا حالیہ واقعے نے نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ پوری دنیا کے عقیدت مندوں کو افسردہ کر دیا ہے۔ اجمیر شریف ہمیشہ سے ایک ایسی جگہ رہی ہے جہاں مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ عقیدت کے ساتھ آتے ہیں، لیکن یہ تشویش ناک ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے اس واقعے نے اس مقدس مقام کی امن کی فضا کو متاثر کیا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات ہمیشہ محبت، انسانیت اور بھائی چارے پر مبنی رہی ہے، اور یہ درگاہ ان ہی اصولوں کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ روزانہ یہاں لاکھوں زائرین آتے ہیں، جن میں مختلف مذاہب، نسلوں اور ثقافتوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہ درگاہ نہ صرف ایک عبادت گاہ ہے بلکہ خدمتِ خلق کا ایک نمونہ بھی ہے، جہاں روزانہ لنگر تقسیم کیا جاتا ہے اور ضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی کی تعلیمات کا مقصد انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارہ اور اتحاد کو فروغ دینا تھا۔ لیکن حالیہ واقعے نے اس پیغام کو دھچکہ پہنچایا ہے۔
حال ہی میں اجمیر شریف میں ہونے والا دنگا ایک افسوسناک واقعہ ہے، جس نے علاقے میں فرقہ وارانہ تناؤ اور تشویش پیدا کر دی ہے۔ یہ دنگا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس مقدس مقام کی فضاء میں امن اور محبت کے پیغام کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایسے واقعات میں محض چند افراد کی ذاتی مفادات، مذہبی شدت پسندی اور اشتعال انگیز پروپیگنڈا کا ہاتھ ہوسکتا ہے، جو علاقے میں فساد اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ مذہبی حساسیت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے بڑھنے کی ایک وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا اثر بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والے منفی پیغامات اور متنازعہ مواد نے لوگوں میں فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی ہے۔ اجمیر شریف جیسے مقدس مقام پر بھی یہ اثرات نظر آئے ہیں، جہاں مختلف کمیونٹیز کے درمیان تناؤ بڑھا ہے۔ حالیہ دنگا بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کمیونٹیز کے درمیان عدم اعتماد اور اشتعال کا ماحول موجود ہے، جو سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
اس فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے، مقامی رہنما اور کمیونٹیز ایک ساتھ مل کر اس فساد کو روکیں ۔ اس کے علاوہ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دینا ہوگا تاکہ ایسے واقعات کا دوبارہ سے وقوع پذیر ہونا روکا جا سکے۔ اجمیر شریف کی فضا میں محبت اور یکجہتی کی روح کو بحال کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جمہوری معاشروں میں، جہاں مختلف فرقے اور مذاہب کے لوگ اکٹھے رہتے ہیں، وہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی آزادی کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ اجمیر شریف میں ہونے والا حالیہ تشدد کے واقعے نے اس ضرورت کو مزید اجاگر کیا ہے کہ ہمیں اپنے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے اور محبت سے رہنا سیکھنا ہوگا۔ خواجہ معین الدین چشتی کی تعلیمات ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ انسانیت سب سے بڑھ کر ہے اور ہر انسان کی عزت اور احترام ضروری ہے۔ اجمیر شریف کا پیغام ہمیشہ سے محبت، امن اور انسانیت کا پیغام رہا ہے۔ ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سب ایک ہی انسانیت کا حصہ ہیں اور ہمارے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ ہونا چاہیے، نہ کہ نفرت اور فرقہ واریت کا۔ اجمیر شریف میں ہونے والا حالیہ دنگا ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم نے اپنی اصل تعلیمات کو بھلا دیا ہے، اور ہمیں ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے معاشرے میں امن اور بھائی چارہ قائم رہ سکے۔
حال ہی میں اجمیر شریف میں ہونے والا دنگا اور فرقہ وارانہ تشدد کی وجوہات متعدد عوامل پر مبنی ہے۔ سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ کچھ انتہا پسند گروہ، درگاہ اجمیر شریف کو ایک شیو مندر قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ گروہ اس دعوے کے ساتھ عدالت میں گئے تھے کہ اجمیر شریف کا مقام دراصل ایک ہندو مندر تھا، اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ایک تحقیقی سروے کی درخواست کی تھی۔ اس دعوے میں یہ کہا گیا کہ یہاں پر پہلے شیو مندر موجود تھا، جسے مسلم فاتحین نے توڑا اور اس پر درگاہ بنائی گئی​۔ اس دعوے کے بعد درگاہ کے نگہبانوں اور مسلمانوں کے مختلف تنظیموں نے اس پر شدید اعتراض کیا، ان کا کہنا تھا کہ اجمیر شریف ایک ایسا مقام ہے جہاں مسلمان اور ہندو دونوں یکساں عقیدت رکھتے ہیں اور یہاں محبت اور اتحاد کی فضا ہے۔ یہ دعویٰ، جو کہ 1991 کے “جگہ عبادت ایکٹ” کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، یہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے​۔ یہ واقعہ بھارت میں مذہبی مقامات پر ہونے والے تنازعات کے ایک سلسلے کا حصہ بن چکا ہے، جس میں دیگر جگہوں پر بھی اسی طرح کے دعوے کیے جا رہے ہیں، جیسے گیان واپی مسجد اور شاہی جامع مسجد سنبھل ۔ اجمیر شریف جیسے مقام پر ایسے دعوے نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ پورے ملک میں امن و سکون کے ماحول کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومتی سطح پر مناسب قانونی اور امن قائم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں بھائی چارہ اور امن قائم رہ سکے۔
حکومتِ ہند کو اجمیر شریف جیسے مذہبی مقامات پر ہونے والے دنگوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو اپنے آئینی فرائض کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے، خاص طور پر مذہبی آزادی کے معاملے میں۔ حکومت کو “عبادت ایکٹ 1991” کی پابندی کرنی چاہیے، جو مذہبی مقامات کے تاریخی کردار کو برقرار رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق، 15 اگست 1947 سے قبل کے مذہبی مقامات کے تشخص کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے، تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رہ سکے​۔ پولیس اور انتظامیہ کو فوراً متحرک ہو کر امن و امان قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ملزمان کو سخت سزائیں دینی چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
ہم ہندوستانیوں کو اپنے آئین کی روشنی میں یہ سمجھنا چاہیے کہ “آئین ہند” میں تمام شہریوں کو مذہب، نسل، جنس یا زبان کی بنیاد پر برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے عقائد اور عبادات کا احترام کرنا چاہیے اور مذہبی منافرت یا تشدد سے بچنا چاہیے۔ ہم سب کو آئین کے اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے، جو ہمیں بھائی چارے، محبت، اور ہم آہنگی کے راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ انفرادی طور پر ہمیں اپنے برادرانِ وطن کے ساتھ امن اور محبت کے ماحول میں رہنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہندوستان کی سیکولر، جمہوری اور آئینی حیثیت محفوظ رہے۔اگر ہم اپنے آئینی فرائض کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی عزت کریں اور مذہبی مقامات کا تقدس برقرار رکھیں، تو نہ صرف ہم اپنی ملک کی عظمت کو بڑھا سکتے ہیں بلکہ پورے بھارت کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
اجمیر شریف کا سانحہ ایک لمحۂ فکرہے جو ہمیں اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینے اور انہیں درست کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر ہم بطور مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں تو ہم نہ صرف اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کر سکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلام کی اصل تصویر بھی پیش کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام ہمیں امن، اتحاد اور انصاف کا درس دیتا ہے، اور یہی اصول ہمیں اپنی زندگی میں اپنانے ہوں گے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

× Click to WhatsApp