آنسوؤں کی مار
✍ ابن کمال۔۔ ایم اے اردو
لکھنؤ یونیورسٹی۔٢ نومبر ٢٠٢٤
اکتوبر ، نومبر کا مہینہ بڑا خوشگوار تھا شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں ، چاروں طرف چہل پہل تھی، رشتہ داروں کو دعوت دی جا رہی تھی ۔ دو لوگ رشتوں کے بندھن میں بندھنے جا رہے تھے ، وہ وقت بھی قریب آ پہنچا جس کا انتظار مہینوں سے ہو رہا تھا ۔ شادی کی تیاریاں مکمل ہو گییں سارے رشتے دار آگیے ۔ شام ڈھلے بارات بھی آگیی۔ سارے مہمانوں کو کھانا کھلانے کے بعد شادی کی رسم پوری ہونے کو تھی کہ اچانک اسٹیج پر سناٹا چھا گیا ۔ لڑکی والے حیران و پریشان ہو گیے۔ ہر طرف شور و ہنگامہ برپا ہو گیا ، دلہن شبنم کے باپ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ، سب ایک جگہ جمع ہو گئے ۔
نوشہ سہیل کے پھوپھا ذاکر کہنے لگے۔
“۔ اگر جہیز میں گاڑی نہیں ملے گی تو یہ شادی نہیں ہوگی”
دلہن کے گھر والوں نے بہت منت سماجت کی بہت سمجھایا بجھایا، گاؤں والوں نے بھی عاجزی کی ۔ ”
بھیا گاؤں کی عزت کا سوال ہے بہت بے عزتی ہو جائے گی، نام خراب ہوگا ہمارے گاؤں کا”
گاؤں کے مکھیا رام گوپال بھی ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے، گاؤں کےعزت دار اور کچھ شریف نوجوان دولہے کی اس حرکت سے ناراض بھی ہوئے ۔اسی درمیان دلہن کے باپ انجم بھاگتے ہوئے دولہے کے پاس گئے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔
بیٹا ! اس وقت ہم کچھ نہیں کر سکتے، رات کافی ہو چکی ہے صبح انتظام کر دیا جائے گا، خدا کی قسم زمین بیچ کر آپ کو گاڑی دیں گے۔
اب عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔
ذاکر نے کہا ۔ تو ہم کیا کریں۔
انجم نے کہا ۔ ہم پر بھروسہ کیجئے دیا کیجئے رحم کیجئے، انجم نے بے کسی و بیچارگی کی حالت میں ذاکر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔
ذاکر نے کہا ۔ بعد میں مکر گئے تو کون ضمانت لے گا ؟
انجم نے مجبور محض ہو کر کہا ۔ ہم پورا انتظام کر چکے ہیں یہ دیکھیے سارے دستاویز۔ دولہے کا باپ جمیل غصہ سے ٹماٹر کی طرح لال ہو رہے تھے ۔ دلہن کے باپ دولہا کے باپ کے آگے اپنی پگڑی رکھتے ہوئے بولے،
سمدھی جی بات مان لیجئے شادی کی رسم پوری کرنے دیجئے ، صبح 10 بجے تک گاڑی مل جائے گی۔
ذاکر نے جمیل کو دیکھا اشارہ ملتے ہی قاضی ایاز کو نکاح کی کاروائی مکمل کرنے کی فرمائش کی، قاضی صاحب نے نکاح پڑھائی سارے مہمان دولہا ،دلہن اور ان کے والدین کو مبارکباد دے کر رخصت ہو گئے۔
صبح ہوتے ہی 10 بجنے سے پہلے انجم نے جمیل کے دروازے پر گاڑی کھڑی کر دی انجم کا بوجھ اتر گیا سکون کی سانس لی، بیٹی گھر سے بیاہ کر چلی گئی،
باپ کی پگڑی اچھلتے اچھلتے بچی ، باپ نوشہ کے گھر والوں کی اس حرکت سے خوش نہیں تھے ، لیکن بیٹی کی وجہ سے ایسے بن گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
دو خاندان رشتہ داری میں بدل گئے، رشتہ دار اس نیے جوڑے کو پسند کر رہے تھے،
تحائف و گلدستہ دے کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے اور ہزاروں سال جینے کی دعائیں دے رہے تھے۔
دولہا دلہن کے دوست و احباب تحائف پیش کر رہے تھے ایک نئی زندگی کی شروعات ہو چکی تھی اس نئے جوڑے کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ خوشیاں چند لمحوں کی تھی اس کا قرض سود سمیت چکانا پڑے گا۔
ہوا یوں کہ اچانک ایک دن خبر آئی کہ دولہے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے،
وہ سسرال آ رہا تھا کہ دو گاڑی آپس میں ٹکرا گئی اور سر پر گہری چوٹ لگنے سے وقت پر موت ہو گئی۔
یہ خبر آس پاس کے علاقے میں آگ کی طرح پھیل گئی،
یہ خبر سن کر اور اخبارات پڑھ کر لوگ غمگین ہوئے کہ بیچاری شبنم کا گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ گیا،
علاقے والے سب سے زیادہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جس گاڑی کے لیے شادی سے انکار کیا جا رہا تھا اسی گاڑی نے جان لے لی۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے بوڑھے باپ کی بددعا لگ گئی، بوڑھے باپ کا دل دکھایا تھا اچھا ہوا ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہیے تھی۔
کچھ کا کہنا تھا کہ موت لکھی تھی یہ تو ایک بہانہ تھا اس حادثے پر خوب چرچا ہوا اور جتنا منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں ۔
شام کو تجہیز و تکفین کے لیے سب لوگ جمع ہونے لگے۔
سارا کام ہو گیا لیکن لڑکے کے والد جمیل نہیں آئے اچانک ان کی بیوی سمیہ نے آواز لگائی کہ سہیل کے باپ نے خود کشی کر لی ہے، سامنے میز پر پڑا لفافہ کھولا گیا تو پتہ چلا اکلوتے بیٹے کی موت سے گہرا صدمہ ہوا اور یوں زندگی کو خیرآباد کہنا ہی بہتر سمجھا اور اپنے سمدھی اور بہو سے معافی مانگتے ہوئے زندگی کو الوداع کہہ دیا۔
اب پورے گاؤں اور علاقے میں ماتم چھا گیا ان دو حادثوں نے آس پاس کے علاقوں میں ایک خوف اور ڈر ک
کا ماحول پیدا کر دیا،
لوگ ان حادثوں کو عبرت سمجھنے لگے کہ کسی بیٹی کے باپ پر زیادتی کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
لوگ طرح طرح کا گمان کرنے لگے اور کہنے لگے ” بیٹیاں گھر کی رونق ہوتی ہیں، ان کی عزت کی جاتی ہے، آج لوگوں کے خود ساختہ رواجوں نے بیٹیوں کو بوجھ بنا دیا ہے، اگر برے رسومات سماج سے ختم کر دیا جائے تو کسی بھی گڑیا کے باپ کو کسی امیر کے آگے جھکنا نہ پڑے ،
کسی شہزادی کے باپ کی پگڑی نہیں اچھلے گی۔ ”
چند دنوں میں کچھ بوڑھے اور نوجوانوں نے مل کر ایک تنظیم بنائ جس کا کام یہ تھا کہ لوگوں کو اس جہیز جیسی بری رسم سے آگاہ کیا جائے اور لوگوں سے عہد لیا جائے۔
اس کے لیے مہم چلائی گئی، لوگوں کو آگاہ کیا گیا ، پمفلٹ چھپوائے گئے، لوگوں کو سمجھایا گیا دھیرے دھیرے اس بری رسم کو سماج میں ناپسند کیا جانے لگا۔